سیاسی چھتر چھایا تلے خانہ بدوش!


سیاست میں مفادات کی خاطر وفاداریاں بدلنا کوئی نئی بات نہیں ہے، یہ کام ویسے تو دنیا بھر میں ہوتا ہے، لیکن پاکستان میں ہوا کا رُخ دیکھ کر وفاداریا ں بدلنا کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے، ایسے لوگ فصلی بٹیرے اور سیاسی بنجارے کہلاتے ہیں۔ سیاسی وفاداریاں بدلنے کا یہ کام کسی نظریے یا اصولی اختلاف کی وجہ سے نہیں، بلکہ جلب منفعت اور اقتدار میں اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہ سیاسی لوگ کسی ایک جماعت کا ٹکٹ لے کر اس کے منشور سے اتفاق کرتے ہوئے عوام کے پاس جاتے ہیں اور عوام بھی پارٹی سے وابستگی رکھتے ہوئے ووٹ دیتے اور کامیاب کرواتے ہیں، لیکن جب یہی لوگ اپنی پارٹی سے انحراف کرتے ہوئے کسی دوسری، خاص طور پر برسر اقتدار پارٹی سے جا ملتے ہیں تو وہ سب سے پہلے اپنے رائے دہندگان کو دھوکا دینے اور ان کے ووٹ کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں۔

اگر کسی کو اپنی پارٹی سے کسی بھی بنیاد پر اختلاف ہو تو اس کا جائز طریقہ تو یہ ہے کہ پارٹی چھوڑ کر رکنیت واپس کرے اور نئے سرے سے انتخاب لڑے اور اپنی مقبولیت آزما لے، لیکن یہ سیاسی خانہ بدوش برسر اقتدار پارٹی کی چھتر چھایا میں بسیرا کرتے ہیں اور حسب توفیق مراعات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ عارضی فوائد کے لیے سیاست دان اور عوامی نمائندے کہلانے والے بنجارے اپنی ساکھ داؤ پر لگانے میں کوئی عار نہیں سمجھتے ہیں۔

ہماری سیاسی جماعتیں ایسے وفاداریاں بدل لینے والے نام نہاد سیاست دانوں سے بھری پڑی ہیں۔ برسر اقتدار تحریک انصاف میں بھی ایسے ہی لوٹوں اور بنجاروں کی بڑی تعداد موجود ہے، ان میں بیشتر دوسری جماعتیں چھوڑ چھوڑ کر آئے ہیں، کسی کا تعلق پرویز مشرف، کسی کا پیپلز پارٹی اور کچھ کا (ن) لیگ سے رہا ہے۔ یہ سیاسی جماعتوں کے چھتر چھائے تلے مفاد پرست خانہ بدوش بوقت ضرورت سائباں بدلتے رہتے ہیں۔

پاکستان میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والوں سے سیاسی تاریخ بھری پڑی ہے، ماضی میں بھی اسی طرح سیاسی ملاقاتوں میں وفاداریاں تبدیل کرنے کی روایت رہی ہے، آج بھی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کو خوش آمدید کہا جارہا ہے۔ سیاسی قائدین اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے دہرانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی ترجیح عوام کے مسائل کے تدارک کی بجائے جوڑ توڑ کی سیاست ہے، وہ اقتدار کے حصول کے لالچ میں تمام اخلاقی وسیاسی حدود پامال کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

اپوزیشن پہلے دن سے حکومت گرانے کے ایجنڈے پر گامزن ہے، جبکہ حکومت بھی اپوزیشن کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں، دونوں جانب سے موقع کی مناسبت سے ایک دوسرے پر سیاسی وار کیے جارہے ہیں۔ پنجاب سے شروع ہونے والی ایک سیاسی ڈویلپمنٹ نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ یہ سیاسی ڈویلپمنٹ اُس وقت منظرعام پر آئی جب پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ (ن) کے ارکان باقاعدگی سے تحریک انصاف میں شامل تو نہیں ہوئے، لیکن عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے ملاقات کے بعد اُن کے عزائم واضح طورپر ظاہر ہونے لگے ہیں، منحرف ارکان پنجاب کوجہاں 10، 10 کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈز ملنے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے ”وہاں ان پر وزیراعلیٰ ہاؤس کے دروازے بھی چوپٹ کھول دیے گئے ہیں۔

اگر حکومت پنجاب نے ارکان اسمبلی کی حیثیت سے ترقیاتی فنڈز دینے ہی تھے تو یہ کام پہلے بھی ہو سکتا تھا اور جنہوں نے وفاداریاں تبدیل کرنے کا اعلان نہیں کیا ہے، انہیں بھی ترقیاتی فنڈز ملنے چاہیے تھے، لیکن اس کے لیے شرط اپنی پارٹی سے بے وفائی ہے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے ترقیاتی فنڈز کے ملنے کی اطلاعات کے بعد پنجاب اسمبلی کے صرف یہ آٹھ ارکان ہی نہیں، اور بھی کئی کمر باندھے ہوئے چلنے کو تیار نظر آنے لگے ہیں۔

وزیراعلیٰ پنجاب سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے ارکان کی ملاقات پر ان دونوں جماعتوں کی قیادتوں کی جانب سے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اپنے ارکان کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا گیا ہے، تاہم بالخصوص مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے لئے یہ لمحہ ء فکریہ ہے کہ ان کے ارکان کی جانب سے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی نوبت کیوں آئی، انہیں اپنی پالیسیوں کے حوالے سے پارٹی کی صفوں میں پیدا ہونیوالے اضطراب اور مایوسی کے تناظر میں اپنا کتھارسس ضرور کرنا چاہیے۔

مسلم لیگ (ن) کے اندر پیدا ہونیوالے انتشار کوخواجہ آصف کے بیان سے مطمئن نہیں کیا جا سکتا کہ اختلافِ رائے ہی جمہوریت کا حسن ہے اور اختلاف رائے ہی کسی پارٹی کی روح ہوتی ہے۔ اس بنیاد پر تو پارٹی قیادت کو وزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقات کرنیوالے اپنے ارکان کے اختلافِ رائے کا بھی احترام اور اسے قبول کرنا چاہیے، تاہم پارٹی قیادت کو اپنی پارٹی کی سیاسی بقاء مقصود ہے تو اسے اپنی پارٹی اور ووٹروں کو بے یارومددگار چھوڑ کر ملک سے باہر جا بیٹھنے کے فیصلہ پر بھی ضرور غور کرنا چاہیے کہ اس طرح وہ قومی سیاست میں اپنی پارٹی کے متحرک کردار کا تقاضا کیونکر نبھا سکتے ہیں، جبکہ ان کے پارٹی عہدیداروں ’ارکان اور کارکنوں کے پاس کوئی واضح گائیڈ لائن بھی موجود نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی اسی بنیاد پر ان دنوں مسلم لیگ (ن) کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور بطور خاص میاں شہبازشریف سے ملک واپسی کے متقاضی ہیں، کیونکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا قلمدان بھی ان کے پاس ہے۔

اس صورتحال میں جب کہ سیاسی قائدین خود کو بچاؤ کی پالیسی پر گا مزن ہیں توپارٹی کارکن بجا طور پر محسوس کرتے ہوں گے کہ ان کی قیادت اپوزیشن والی سختیاں برداشت کرنے کو تیار نہیں تو وہ اوکھلی میں کیوں سر دیے رکھیں، جبکہ انہیں اپنے علاقوں میں عوامی مسائل کے حل کے معاملہ میں اپنے ووٹروں کو جوابدہ بھی ہونا ہے۔ قومی سیاست میں اصولوں کا دامن تھامے رکھنے کا تصور تو اصولوں کی سیاست کرنے اور اس سیاست پر ناز کرنیوالوں کے ساتھ ہی رخصت ہوچکا ہے، یہ دور تو سیاسی پارٹیوں کے چھترچھائے تلے سیاسی خانہ بدوشوں کا ہے جو موقع کی مناسبت سے سائباں تبدیل کرتے رہتے ہیں، جبکہ میاں نواز شریف کے بیانیہ کے حوالے سے پارٹی کی صفوں میں موجود بے عملی پر پارٹی کے اندر سے اٹھنے والے سوالات پر کارکنوں کو مطمئن کرنے والا کوئی قائد بھی پارٹی میں نظر نہیں آرہا ہے، چنانچہ پوائنٹ سکورنگ کی سیاست میں تحریک انصاف حکومت اپنی بڑی اپوزیشن جماعت کو سیاسی طور پر کمزور کرنے کے موقع سے کیوں فائدہ نہیں اٹھائے گی، جبکہ اسے اپوزیشن کی جانب سے ’ان ہاؤس‘ تبدیلی کا چیلنج بھی دیا جارہا ہے۔

اسی طرح اپنے ووٹروں کو ان کے مسائل کے معاملہ میں مطمئن کرنے کے لئے اپوزیشن کے ارکان ترقیاتی کاموں کی خاطر حکومت سے رجوع ضرور کریں گے، اصولوں کی مثالی سیاست میں تو کسی پارٹی کے ارکان کا اپنی مخالف پارٹی کے قائدین سے ملنا معیوب سمجھا جا سکتا ہے، مگر جب پارٹی قیادتیں خود ہی اصولوں سے دستکش ہو جائیں تو اپنی پارٹی کے ارکان اور کارکنوں سے اصولوں کی پابندی کا متقاضی ہونا زیب نہیں دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments