عورت کی آزادی اور عزت نفس میں فرق ہے


عزت حسن کچھ چار دیواری تک محدود ہے اور کچھ دریچہ دل تک، ان حدود و قیور کا ادراک ہونا ضروری ہے احساس عزت وہ چیز ہے جو تقسیم کرنے سے بڑھتا ہے مگر الجھنے سے ہر گز نہیں، شاعر نے کہا تھا

تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا

عالمی معیشت ہچکولے کھا رہی ہے کاروبارزندگی بری طرح متاثر ہوا ہے، فضائی سفر بند ہے، افغانستان اور ایرانی سرحد سے متصل بارڈرایریا کو سیل کر دیاگیا ہے، اجتماعات پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، غیر ضروری ہسپتالوں کے چکر لگانے سے پرہیز برتنے کو کہا گیا ہے، عالمی و با کا درجہ ملنے کے بعد تعلیمی ادارے بھی بند ہو چکے ہیں، یہ فیصلہ سازی نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں طے کی گئی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کرونا سے متاثرہ ممالک کے لئے امداد سمیت اس سے بچاؤ کے لئے ضروری اقدامات میں مصروف ہے کہ کس طرح اس سے چھٹکارہ پایا جا سکتا ہے۔

کرونا وائرس کی موجودہ لہر کو عالمی وبا قرار دینے سے عین چند گھڑیاں پہلے یہاں یہی بحث جاری رہی کہ کس کو ”عورت مارچ“ کرنا چاہیے اورکس کو اس کا بائیکاٹ کرنا چاہیے، ترقی پذیر ممالک کے باسیوں کو یہ مشکل بھی درپیش رہتی ہے کہ وہ اس سے آگاہ نہیں ہو پاتے کہ ان کے حقیقی مسائل کون سے ہیں اور کس سطح و شدت کے ہیں، ہمارا ایک مسئلہ ترجیحات کی اہمیت سمجھنے کا ہے، ذرا غور کریں کہ ڈنمارک میں فضائی آلودگی کا تناسب مقررہ تعداد سے زیادہ ہونے پر پانچ سو سے زائد سکولوں کو بند کر دیا گیا تھا، اہم وقت ہوتا ہے اور اس کے مطابق ترجیحات، غلط وقت پر درست انتخاب بھی اکثر وبیشتر سودمند نہیں ہوپاتا۔

معاشرے اپنے ثقافتی اقدار کی وجہ سے پہنچانے جاتے ہیں جب اقدار اور یلغار میں فرق مٹا دیاجائے تو پھر غلط و درست کی تمیز ختم ہو جاتی ہے، ان حالات میں اہم یہ ہوتا ہے کہ آیا کوئی معاشرے کی رہنمائی کرنے والا بھی ہے کیونکہ معاشرتی اقدار کی غوطے کھاتی کشتی کو یوں منج دار میں نہیں چھوڑا جا سکتا یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ یک نکاتی بیانیے کے لئے قومی سطح پر بحث مباحثے کا اہتمام کرے اور قوم کی رہنمائی کرے، ترقی پذیر ممالک میں یہ روش بھی سر پکڑتی رہتی ہے کہ جو چاہے اور جس وقت چاہے ”پڑھے لکھے“ دانشور کا روپ دھارلے اور قوم پر اپنا بیانیہ انڈیل ڈالے، زندہ معاشروں کے لئے اس روش کو کوئی اچھی خبر نہیں سمجھا جاتا، اسلامک نظریاتی کونسل سے لے کر اکیڈمی آف لیٹرز تک کئی قومی سطح کے ادارے موجود ہیں جن کے یہ فرائض میں شامل ہے کہ وہ قوم کی فکری و نظریاتی آبیاری کریں، ادبی کونسل کا قومی سطح کاشاید یہی ”کام“ رہ گیا ہے کہ سال میں ایک ادھ بار چند من پسند شعراء کو کسی پنج ستارہ ہوٹل کے کشادہ ہال میں مدعو کر کے بزم سخن سجا لی جائے اس سے زیادہ تو ان فکری ونظریاتی سطح کے قومی اداروں کے چراغوں میں روشنی کی سکت نہیں۔

اسی طرح ایک ذاتی اور خود ساختہ ادبی کونسل کو چند با اثر لوگوں کی ”سرپرستی“ میں آزادکشمیر میں بھی متعارف کرایا گیا، اس کے پھلنے پھولنے کا ہوم ورک تھا اور نہ اس کو توانا کرنے کی اہلیت، کسی دانا نے کہا تھا حد سے زیادہ شخصیت پسندی کارکردگی کو نگل جاتی ہے، بہر حال یہ ”ہم ہنس دیے ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ تیرا“ والا معاملہ ہے۔ کسی بھی سطح کی ثقافتی یلغار کو منہ توڑ جواب دینا فکری و نظریاتی اداروں کا کام سمجھا جاتا ہے مگر یہ ادارے کئی دوسرے اداروں کی طرح اس ”پرائی“ کو چھوڑ کر صرف ”اپنی“ نبیڑنے میں مشغول ہیں، توجہ طلب یہ بھی ہے کہ ثقافت سے متعلقہ بھی ارباب اختیار موجود ہیں، جن کا کام صرف ”سوفٹ امیج“ کی تعریف و توصیف تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، چائلڈ لیبرکی روک تھام کے لئے قوانین موجود ہیں اسی طرح ہر سال بجٹ میں جتنی تنخواہ مزدور طبقہ کے لئے طے کی جاتی ہے وہ مٹھی بھراجرت بھی کارخانے اس طبقہ کوادا نہیں کرتے، ان پر عمل کرانا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

ریاست کو باسیوں کے مسائل کا ادراک ہونا چاہیے، چاہے احتجاج کی رمز کوئی بھی ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ جملہ خواتین کو انگنت مسائل کا سامنا ہے کہیں معاشرہ ان کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکائے کھڑا ہے اور کہیں ان کا کام کرنے والا ماحول۔ Gender Perity Indexمیں ہم لوگ تقریباً نچلی سطح پر موجود ہیں، طالبات کی ایک کثیر تعداد پرائمری ومڈل سطح کے سکولوں سے آگے نہیں پہنچ جاتی، سرکاری تعلیمی ادارے پسماندگی کی بدترین سطح پر پہنچ چکے ہیں ان حکومتی سطح کے سکولوں و کالجوں میں طلبہ وطالبات کی تعدادآٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے، اس خالی جگہ کو جس نے پر کیا ہے وہ ہے پرائیویٹ مافیا، یہ مافیا والدین سے بھاری بھرکم فیسوں کی مد میں سالانہ لاکھوں روپے وصول کر رہا ہے۔

اہم مگر یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں طلباء و طالبات کی عزت نفس کا تحفظ ہونا چاہیے مگر کہاں ہے، خیبرپختوانخوہ میں قائم ایک یونیورسٹی میں درپیش آنے والے واقعات کوئی نئے ہرگز نہیں اور نہ ہی ایسے قابل افسوس واقعات کسی ایک چھت تک محدود ہیں ”فیل کر دیا جائے گا“ کا خوف طلباء کو ایسے ظلم سہنے پر مجبور کر رہا ہے نوجوان نسل کو پاس۔ فیل کے گورکھ دھندے میں دھکیل کر اُن پر سوچ وفکر کے دروازوں کو محدود کر دیا گیا ہے جب کسی بھی سطح پر Vivaکے امتحان کی باز پرس کی گنجائش نہیں رکھی جائے گی تو پھر لوگ یوں ہی اپنی من مرضی ہی کرتے رہیں گے جو پروفیشنل سطح کے طالبعلموں کے لئے ہیجان اور اضطراب کا باعث ہے۔

تعلیمی اداروں کے بزرجمہروں کو چاہیے کہ طالبات کو درپیش مسائل کے حل کے لئے اور ان کی کیئریر کونسلنگ کے لئے ان کا ہم جنس سٹاف کو تعینات کریں، یہ اقدام طالبات کو تحفظ بھی فراہم کرے گا اور والدین کے لئے بھی باعث اطمینان ہوگا۔ ورکنگ خواتین کو عزت اور تحفظ دیناکسی بھی معاشرے کے لئے نہایت اہم ہے، گھربار کو چھوڑ کر مردوں کے شانہ بشانہ اپنی ڈیوٹی سرانجام دینا ایک مشکل امر ہے، یوں تو اکثر طبقات مشکل حالات میں ہیں مگران میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ ڈاکٹروں کا ہے جن کی ایک ڈیوٹی کا دورانیہ مسلسل 30 گھنٹے ہوتا ہے، اس ورکنگ کلینڈر کو جدید حالات کے مطابق بہتر کرنا شعبہ صحت کے ارباب اختیار کا کام ہے۔

ورکنگ خواتین کے لئے قوانین پر عملدرآمد کی بات ہو نی چاہیے۔ عورت جس روپ میں بھی ہو اُس کی عزت نفس کا تحفظ ہونا چاہیے، یقین کیجئے یہ نام نہاد ”آزادی“ سے زیادہ ا ہم ہے۔

ڈاکٹر عثمان غنی، میرپور
Latest posts by ڈاکٹر عثمان غنی، میرپور (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments