قمر نے امر کیا


تمہیں پورا حق ہے کہ اپنے حقوق مانگو، لیکن کیا اس کے لیے تہذیب کی دیوار پھلانگتا ہوا نعرہ لگانا ضروری ہے؟ کیا یہی نعرہ رہ گیا تھا؟ پہلی تربیت گاہ ہو تم، تم ایسی تہذیب سکھاؤ گی؟ تمہیں آگے آنے دیں تو یہ معاشرہ چلاؤ گی؟ ٹھیک ہے تم بچوں کی پیدائش کے معاملے میں اختیار کا حق مانگو، مگر یہ طریقہ کیا ہے کہ اپنے نو عمر بچوں کے چھوٹے ذہنوں کے سامنے پوسٹر لیے کھڑی ہو جاؤ کہ میں بچے پیدا کرنے کی مشین نہیں۔

یہ جسم جسم کی رٹ لگاؤ گی تو سُن کر ہی ہوس پرستوں کی ہوس مزید بڑھ جائے گی۔ پھر عصمت دری پر بھی خود ہی رو دو گی۔ ایسی بدتہذیبی پھیلانے پر تو تم سے تربیت کا حق بھی لے لینا چاہیے۔ بات نہ بدلو مگر انداز بدلو۔ بے عزت کر کے عزت کی متلاشی نہ بنو۔ تمہارا جسم تمہاری مرضی ہو سکتا ہے تو مرد کی زبان مرد کی مرضی نہیں؟ زبان بھی وہ، جو تمہاری بدتمیزی کے ہی جواب میں چلی۔ تم وہ تھی جو راہ چلتے چلتے کسی ایک مرد کی طرف غلط حرکت کر دینے کی حیثیت سے اشارہ کردیتی تو تمام دیگر مرد تم سے ثبوت لیے بغیر اُس مرد کی ایسی کی تیسی کر دیتے۔

یہ اچھا ہوا تم نے برابری مانگی، اب میں چاہوں گی کہ ایسے ہر واقعے پہ عورت کی بات پر بغیر ثبوت یقین نہ کیا جائے، مرد کو سرِ بازار پیٹا نہ جائے، چونکہ پہلے مرد غالب معاشرہ تھا اور اب تمہیں برابری چاہیے تو یہ کرتے ہیں۔ اگر ایک زیادتی کرنے والا ہوس پرست ہے تو ایک تمہارے نام زندگی وقف کرنے والا تمہارا باپ بھی تو ہے۔ صرف شوہر نہیں وہ تمہارا بھائی بھی تو ہے۔ یاد رکھنا کہ تمہارے بیٹے کی بیوی بھی کہے گی اپنا کھانا خود گرم کرو۔

اشتراک سے گھر چلتے ہیں یا نفسا نفسی سے؟ ٹھیک ہے یہ تمہاری ذمہ داری نہیں، پر اخلاقیات بھی توکچھ ہیں۔ کیا اس کی جگہ کھانا مل کر گرم کریں گے نہیں ہو سکتا تھا؟ چلو تم نے کہا تحریک کا مقصد ہے کہ مجھے پسند کی شادی کرنے دی جائے، مجھے ونی نہ قرار دیا جائے، مجھ پر تیزاب نہ ڈالا جائے۔ تو یہ سلوگن اور مقاصد میں تضاد کیسا ہے؟ فرض کرتے ہیں کہ اس تحریک کے بارے میں ہمیں کچھ معلوم نہیں، نہیں جانتے کیا ہے، کیوں ہے، کس لیے ہے۔

کسی اخبار کے صفحے پر لکھا سلوگن پڑھ لیا ”میرا جسم میری مرضی۔ “ مجھے بتائیے اس سے آپ کیا سمجھیں گے؟ ”میرا جسم میری مرضی“ کہاں سے اس بات کی نمائندگی کرتا ہے کہ عورت کو بھی معاشی خودمختاری چاہیے؟ اسے بھی روزگار کمانے کا حق دو؟ چلو مان لیا مرد برا ہے، درندہ ہے، تمہاری بات مانی۔ اب اگر میدان میں گوشت پھینک دو گی اور چاہو گی اس پر جانور نہ جھپٹیں تو تمہاری سوچ قابلِ رحم ہے۔ روڈ پر ناچو گی اور مرد کو کہو گی آنکھیں بند کرو تو برابری کدھر گئی؟

تم ناچو، انھیں دیکھنے دو۔ تمہارے ہی پلے کارڈ پر لکھا تھا یہ سڑکیں ہماری بھی ہیں، آدھی آدھی برابر بانٹ لو۔ آدھی سڑک پر تم مارچ کے بہانے ناچو اور آدھی سڑک پر وہ آزادیِ نظر کے بہانے تمہیں تکیں گے۔ اسی باغیرت عورت مارچ کے ایک پلے کارڈ پر عورت کا ہاتھ بنا ہوتا ہے اور ہاتھ میں سگریٹ ہوتا ہے۔ تو کیا سگریٹ پینا عورت کا حق ہے؟ اس پلے کارڈ کا مطلب بھی یہ تھا کہ عورت کو ونی نہ قرار دیا جائے؟ کون سی برابری چاہتی ہو؟

کس بنیاد پہ کون سا حق مانگ رہی ہو؟ یہ کیسا طریقہ اختیار کر رہی ہو؟ یہ سب مغربی عورتوں کی رت رہے تو بجا ہے۔ اُن کے پاس اسلام جیسی طاقت نہیں، اُنکے پاس حضور کی طرف سے بتائی گئی حقوقِ نسواں کی فہرست نہیں، ان کے پاس سورہ النساء نہیں، ان کے پاس حجتہ الوداع کے موقع پر کیے جانے والے حقوقِ نسواں پر ارشادات نہیں۔ تُم مسلمان ہو۔ اسلام کا نفاذ مانگو، سورہ نساء میں لکھا ہر حق مانگو، احادیث سے ثابت ہر حق کے لیے لڑو۔

کون روکتا ہے تمہیں؟ آؤ، مسلمان بن کے اسلام مانگو تو اسلام سے زیادہ عورت کو عزت کس نے دی ہے، لو عزت۔ نہیں، تم ایسا نہیں کرو گی۔ کیونکہ اگر تم نے ایسا کر لیا تو تمہیں بھی اسلام پر چلنا پڑے گا، اسلام کچھ حقوق تم پر بھی لازم کرتا ہے وہ ماننے پڑیں گے، تمہیں ستر ڈھانپنا پڑے گا، تمہیں مرد کی غیر موجودگی میں اس کی عزت کی حفاظت کرنی پڑے گی۔ اس لیے تم نے ایک بے بنیاد سا طریقہ اپنایا، حقوق کی رٹ لگا لی اور جو جی میں آیا اس حقوق کی فہرست میں ڈال دیا۔

سورہ نور کی تیسویں آیت اٹھا کر لاتی ”مسلمان مردوں کو حکم دو اپنی نگاہیں نیچی رکھیں“ تو کون مائی کا لال تھا جو تمہاری بات کو رد کرسکتا، کرتا تو کون اس کی حمایت کرتا، جو حمایت کرتا اسے کون گناہ گار ہونے سے بچا پاتا۔ نہیں، پر تم نہیں لائی۔ کیونکہ اگر تم وہ لے آتی تو تمہیں اسی سورت کی اسی سے اگلی آیت پر بھی نظر ڈالنی پڑ جاتی جو تمہیں بھی کہہ رہی ہے نگاہ نیچی رکھو، ستر ڈھانپنے کا حکم بھی زیرِ غور لانا پڑ جاتا، دوپٹے گریبانوں پر ڈالنے کا بھی حکم سامنے آ جاتا پھر دوپٹے مردوں کی آنکھوں پر باندھنے کا غیر معقول نعرہ کیسے لگا سکتی تم۔

دراصل تم حکمرانی کی جنگ لڑ رہی ہو اور اسے نام حقوق کی جنگ کا دینا چاہتی ہو۔ اسلام سے زیادہ برابری کا خیال کس کو ہو سکتا ہے جو گر عورت کو اجنبی مرد کی طرف نظر نہ کرنے کا حکم دے تو مرد کو بھی نگاہ نیچی کرنے کا حکم دیتا ہے۔ دراصل تم برابری نہیں چاہتی، اپنے حقوق نہیں چاہتی، تم اپنی بادشاہت چاہتی ہو، آزادی کو فحاشی کا متبادل بنانا چاہتی ہو۔ عورت ناقص العقل ہے، عورت نوکری نہیں کر سکتی، پسند کی شادی کا حق نہیں، ونی کر دینا، ان سب کے خلاف آواز اٹھانا غلط نہیں۔

مگر تمہارا اپنایا ہوا طریقہ بھی مناسب نہیں جس سے ہر پل فحاشی چھلکتی ہے۔ معاشرے میں یہ رخ پیش کیا جا رہا ہے کہ عورت مظلوم ترین جنس ہے جس کے ساتھ سب سے زیادہ زیادتی کی جا رہی ہے، جو زیادتی مرد کے ساتھ ہوتی ہے اس کے لیے کوئی آواز؟ اس کی بات کون کرے گا؟ مرد اگرچہ ظالم ہے مگر عورت بھی ظالم ہے۔ ایک عرصے سے مرد عورت کے حق میں اور عورت مرد کے خلاف ہر پلیٹ فارم پر بات کرتی ہے۔ مردوں کے خلاف مارننگ شوز میں تبصرے ہوتے ہیں، جس عورت کا جو دل چاہتا ہے مرد کے بارے میں بولے چلی جاتی ہے اور اس پر سب خوش ہوتے ہیں، برا نہیں منایا جاتا۔

اس کے برعکس آج جب ایک مرد اپنے لیے بول اٹھا تو دیکھیے کہ اسے کیا مل رہا ہے۔ کیسے اس کی آواز کو دبایا جارہا ہے۔ اس کی بات کو کوئی نہیں سمجھ رہا۔ جو عورت اس کے ساتھ بے وفائی کردے وہ اسے دو ٹکے کا بھی نہ کہے؟ مگر عورت کے ٹسوے بہت بھاری ہوتے ہیں، حاوی ہو جاتے ہیں، جنہیں بہا کر وہ مظلومیت کی آڑ میں ہر مرد کو درندہ بنا کر پیش کردیتی ہے۔ اب جب سب برابری پر لانا چاہتی ہو تو آؤ پھر کچھ برابری کا سوچیں بھی۔

خلیل الرحمن قمر کو اگر تم سے بدتمیزی کے وقت ماں، بہن اور بیٹی یاد نہیں آئی تو کیا تمہیں بھی ”میرا جسم میری مرضی“ ”میرا جسم میری مرضی“ کی رٹ لگاتے ہوئے اپنا باپ، بھائی اور بیٹا یاد نہیں آئے؟ وہ ٹھہرا بدتمیز شخص، تم تو باشعور عورت تھی، پھر تم پر سوال کیوں نہ اٹھے؟ خلیل الرحمن کی بدتمیزی کسی صورت بھی جائز نہیں مگر ماروی کا جسم اس کی مرضی ہے تو خلیل الرحمن کی زبان اس کی مرضی کیوں نہیں؟ ماروی میرا جسم میری مرضی مردوں کو نہیں بلکہ خلیل الرحمن کو مخاطب کر کے کہہ رہی تھی۔

خلیل الرحمن کیا اس کے جسم کو چھونے آ رہا تھا جو اس نے میرا جسم میری مرضی کی رٹ لگا دی؟ اس لیے جواب بھی بہت ذاتی ملا کہ تمہارے جسم میں ہے کیا۔ برابری کی بات ہو تو ذاتی نشانے کا جواب ذات ہی کو نشانہ بنا کر دیا جاتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ خلیل الرحمن کی زبان نازیبا تھی، بات کا طریقہ غلط تھا مگر ردِ عمل بالکل بجا تھا۔ عمل کیا تھا وہ کسی نے نہیں دیکھا کیونکہ وہاں عورت تھی، ردِ عمل پر سب نے بدتمیزی کا ٹھپا لگایا کیونکہ وہاں مرد تھا۔

کچھ اس طرح کے مرد غالب معاشرے سے یہ آزادی مانگ رہی ہیں۔ دو جاہل لوگ ملیں تو دونوں سے جاہلانہ اندازِ گفتگو کی توقع ہی کی جا سکتی ہے۔ جہالت کے میدان میں دونوں جاہلوں نے جاہلانہ طریقہ سے جاہلانہ بات کی تو جاہل کا ٹھپا بھی دونوں جاہلوں پر برابر لگنا چاہیے۔ تعلیم سے جاہل کی جہالت نہیں جاتی! شکریہ کرو کہ خلیل الرحمن نے حساب تمام کیا۔ تم نے برابری چاہی، اُس نے برابری دی، تم نے جسم کا اختیار مانگا تو اس نے بھی زبان کا اختیار استعمال کیا۔ اب حساب سب برابر ہوا۔ مبارک ہو۔ قمر نے امر کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments