دیوار: محبت کرنے والی آنکھ کی بے بسی ہے


ژاں پال سارتر کی کہانی دیوار پڑھی ہے آپ نے؟

برا نہیں مانیے گا۔ میں نے آپ سے گلزار کی فلم غالب دیکھنے کی تصدیق نہیں چاہی۔ میں بھی آپ ہی کی طرح نیم خواندہ ہم وطن ہوں۔ مجھے خود ساختہ شاعر بن کے اپنی ہی شاعری کا بے معنی پیش لفظ لکھنا نہیں آتا۔ شریک جرم نہیں ہوں، میں جرائم پیشہ لوگوں کو بھائی نہیں کہتی۔ قوم کا دستور چرانے والوں کی اطاعت نہیں کر سکتی۔ میں ٹیلی ویژن پر جہالت نہیں بیچتی۔ دین کے نام پر جوا خانہ نہیں چلاتی۔ روایت کی دہلیز پر اپنی بیٹیاں رہن نہیں رکھتی۔ میں اپنے اکلوتے بیٹے کی معصومیت کا سودا نہیں کرتی۔ مجھے سانس کا تاوان دینا آتا ہے۔ میرے حلق میں نعرہ سلامت ہے، میں زور آور کی بیعت نہیں کرتی۔ میں امام کی بیٹی ہوں، سجاد کی بہن ہوں، زینب کی ہم جولی ہوں۔ میرا کٹا ہوا ہاتھ ریت پر خاک آلودہ ہے۔ میں تمہاری بیعت نہیں کر سکتی۔

اچھے ہمسائے اچھے دوست ہوا کرتے ہیں۔ اور مضبوط دیوار اچھی ہمسائیگی کی ضمانت دیتی ہے۔ یہی کہا تھا نا رابرٹ فراسٹ نے؟ شمال مشرقی امریکا کا بڈھا شاعر جھوٹ کے لبادے میں طنز لکھتا تھا۔

ہم سے پوچھو، دیوار کیا ہوتی ہے؟

دیوار۔۔۔۔ ہجرت، خانہ بدوشی، تنہائی اور بے چارگی کا نشان ہے

دیوار۔۔۔۔ بے گھری، جدائی، فاصلے اور کچھ بھی نہ کر سکنے کی اذیت ہے۔

ہم دیس اور بدیس کی مانوسیت اور اجنبیت میں ڈولتے ان دو کشتیوں کے سوار ہیں جن کی قسمت میں دیس کی گلیوں کے نام پہ نم آلود آنکھیں اور بے طرح دھڑکتے دل میں بے چین مد و جزر لکھے ہیں۔

کرونا وائرس نے اور کچھ کیا ہو یا نہیں لیکن کچھ خانہ بدوشوں کو بے خواب راتوں میں تنہائی اور درد کا تحفہ ضرور دان کیا ہے۔ دنیا کے ملکوں کے درمیان کھنچی لکیریں وہ سنگلاخ دیواریں بن چکی ہیں جن کو پار کرنا آج کل ہمارے اختیار سے نکل چکا۔

“اماں! یونیورسٹی بند ہو گئی، مجھے ہوسٹل خالی کرنا ہے۔ گھر آ رہی ہوں ، ٹکٹ کروا دیجیئے ” بیٹی کا پیغام تھا۔

ناگہانی چھٹیاں تھیں لیکن پھر بھی دل جھوم اٹھا کہ میری چڑیا کچھ مدت گھر میں اپنی ماں کی آغوش میں گزارے گی۔ فوراً کمپیوٹر پہ بیٹھے اور سیٹ بک کروا کے شہر بانو کو سامان باندھنے کی ہدایت کی۔ لیکن کاتب تقدیر نے تو کچھ اور ہی لکھا تھا، سو ہماری خوشی اور بے چینی کو شاید اپنی ہی نظر لگ گئی۔

صبح کے اخبار کی خبر تھی۔۔۔ ” نامعلوم مدت کے لئے عمان کے سب زمینی و ہوائی و بحری راستے بند کر دیے گئے”

پڑھتے ہی دل ناداں کچھ لمحوں کے لئے دھڑکنا ہی بھول گیا۔ ہم عالم بےبسی میں کچھ دیر کے لئے خود ہی سے پوچھا کیے کہ گھر کا دروازہ اپنے ہی بچوں کے لئے کیسے بند ہو سکتا ہے، حکم کی آہنی دیواریں ایک ماں کو اس کی بیٹی سے کیسے دور رکھ سکتی ہیں؟

اضطراب تھا جو رگ و پے میں سمانے سے قاصر تھا، اشک تھے کہ امڈے چلے آتے تھے۔ محبتوں اور رشتوں میں حائل عارضی جدائیوں کے سلسلوں پہ کچھ عذاب نازل ہونے کو تھے۔

دل کو بہلانا منظور ہو، ذرا دھیان بٹانا ہو تو ہم کتاب کا سہارا لیا کرتے ہیں۔ تاریخ کے بند جھروکوں میں کئی کہانیاں ایسی ہیں جو آج بھی بھٹکتی پھرتی ہیں۔ ایسی داستانیں جہاں محبتوں کوآگ برساتے زمینی حقائق نے جھلسا کے راکھ کر دیا۔

یہی کچھ کم وبیش ستر برس پہلے کی بات ہے جب زمین پہ کھنچنے والی ایک لکیر نے رشتوں کو کاٹ کے ایک ایسے جہنم میں جھونک دیا جہاں آہیں، سسکیاں، کرب و الم زندگی کی راہوں کا سامان ٹھہریں۔ کچھ چاند چہروں کو دوبارہ دیکھنے کی تمنا مرتے دم تک آنکھوں میں بسیرا کیے رہی اور کسی کی مدھر ہنسی کا انتظار تمام عمر رہا۔ کسی کو اپنی جنم بھومی کبھی نہ بھولی، کسی کا بچپن سرحد کے اس پار رہ گیا اور کسی کی جوانی دوسری پار۔ ایسے زخم لگے کہ آج بھی رس رہے ہیں، آج بھی دم توڑتے رشتوں سے اٹھتی سڑاند روح کو مضمحل کرتی ہے۔

سینتالیس کے فسادات اور انسانی بدقسمتی کی یہ داستانیں ہم تک تاریخ کی آنکھ نے پہنچائیں کہ ہم سے پہلے کے یہ قصے ٹھہرے۔ لیکن بیسویں صدی کے اختتام پہ نارسائیوں کی ایک کہانی کا انجام ہم نے اپنی آنکھ سے رونما ہوتے دیکھا۔

بیسیوں صدی کے وسط میں دوسری جنگِ عظیم کی تباہی کے نشان ہر طرف پھیلے ہوئے تھے۔ بے تحاشا لہو بہنے کی ناخوشگوار بو فضا میں رچی تھی، بستیوں کی بستیاں اجڑ چکی تھیں۔ وحشت کا بھوت اب بھی حضرت انسان کے سر پہ ناچتا تھا۔ دیوانگی کم نہیں ہوئی تھی اور دیوار برلن اسی وحشت کا شاخسانہ تھی۔

جرمنی بری طرح شکست کھا چکا تھا اور مفتوح بن کے حاکم اقوام کا زیر نگر تھا۔ روس،امریکہ، فرانس اور انگلستان کے مفادات کا کھیل عروج پہ تھا۔ روس اگر ایک طرف اپنے نظریات کے پنجے گاڑے بیٹھا تھا تو دوسری طرف باقی فاتحین کا گٹھ جوڑ تھا۔

مفادات، نظریات اور سیاست کی اس جنگ میں انسان نے پھر انسان پہ وار کیا تھا۔ احساسات، جذبات اور شعور کو ملیا میٹ کر کے عام لوگوں کے بیچ ایک آہنی دیوار بنائی گئی تھی اور اس دیوار نے لوگوں کو اپنے ہی پیاروں سے جدا کر دیا۔ دیوار کے دونوں طرف جدائی کی آگ اور کرب کے آنسو برسوں بہے، کئی امید کی شمعیں بجھیں۔ کئی دل دوبارہ ملنے کی آس لئے ہوئے خاموش ہو گئے۔ لیکن اقتدار کی آہن پوش آنکھیں یہ دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔

دیوار برلن انیس سو اکسٹھ میں سوویت رہنما خروشچیف کے حکم سے تعمیر ہوئی، اور اس ایک سو پچپن کلومیٹر لمبی دیوار نے تیس برس تک ایک قوم کو تقسیم کیے رکھا۔ مشرقی جرمنی نے اس دیوار کو فاشسٹوں سے بچاؤ کا نام دیا جبکہ مغربی حصے نے اسے دیوار شرم کہہ کے پکارا۔

انیس سو تریسٹھ میں دیوار کی مذمت کرتے ہوئے امریکی صدر جان کینیڈی نے اپنی بہترین تقریروں میں سے ایک میں کہا،

“دو ہزار برس پہلے کا فخریہ نعرہ ‘میں رومن ہوں’ آج کی دنیا میں ‘میں برلن کا رہنے والا ہوں’ کے اعزاز میں ڈھل چکا ہے۔ برلن کے تمام شہری، بھلے جہاں بھی رہیں، آزاد ہیں”

مشرقی اور مغربی برلن کے باسیوں نے آزادی کی جوت جگائے رکھی۔ عذاب کی تین دہائیاں کاٹنے کے بعد بالآخر انسانیت کی جیت ہوئی اور مفاد پرستوں کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔سوویت یونین کی تقسیم کے ساتھ ہی پہلے سے لرزتی دیوار برلن بھی منہدم ہوئی۔ یوں تیس برس تک انسانی خواہشات اور احساسات کے خون میں رنگی اس دیوار کو زمین بوس ہوتے دیکھنے کے ہم چشم دید گواہ ہوئے۔

لیجیے! کرونا کی وجہ سے ہونے والی سرحدی پابندیوں نے کیا کچھ یاد کروا دیا۔ خاکم بدہن کہ اس وبائی دیوار کا دورانیہ ہماری ہمت اور صبر کا طویل امتحان لے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments