وبا کے دنوں میں دمشق


جب اقوام متحدہ نے کورونا کو عالمی وبا یا ”پین ڈیمک“ قرار دیا تو یہ خادم چھٹی پر پاکستان گیا ہوا تھا۔ ہماری افسر اعلی ایک پیاری سی فلسطینی خاتون ہیں، محترمہ رملہ خالدی۔ انہوں نے ازراہ شفقت پیغام بھیجا کہ اگر پریشانی یا ہچکچاہٹ محسوس کر رہے ہو تو گھر بیٹھے حتی المقدور کام کرتے رہو یا چھٹی بڑھا لو۔ احباب جانتے ہیں کہ اس خادم کا کام ہی آفات کی روک تھام اور ان کے اثرات کے تدارک سے متعلق ہے، سو گوارا نہ ہوا کہ دنیا پر آفت ٹوٹ رہی ہو اور ایسے میں گھر بیٹھا جائے۔ سو جوں توں کرکے ایک ہفتہ قبل دمشق پہنچ ہی گیا اور اس فیصلے پر ہر گز تاسف نہیں ہے۔ عالمی سطح پر سفری پابندیاں جو اس وقت نہایت سخت ہو چکی ہیں، تب تک ان میں رخنوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ خادم آ گیا اور یہاں موجود ایسے غیر شامی ہم کاروں کو حتی الوسع گھروں کو روانہ کردیا جن کی اشد ضرورت نہ تھی۔

سو احوال یہ ہے کہ اگرچہ اب تک شام میں رسمی طور پر کرونا کے ایک بھی مریض کا اعلان نہیں ہوا ہے، لیکن یہ خدشہ قرین قیاس ہے کہ جنگ زدہ ملک میں اطلاعات کے نظام کی ٹوٹ پھوٹ اور خصوصا شمال مغرب اور شمال مشرق میں مہاجرین کی آمد و رفت کے سبب درست اندازہ کسی کو نہیں۔ دوسرے یہ کہ ملک پہلے ہی مغربی ممالک کی عائد کردہ اقتصادی پابندیوں تلے سسک رہا ہے اور کچھ علاقے حکومتی عمل داری سے اب تک باہر ہیں، سو یہ ناگزیر آفت جب بھی ٹوٹی، اس کا مقابلہ ایک بہت کٹھن کام ہوگا۔

عالمی ادارہ صحت کے مقامی دفتر نے اس آفت کو ایک طبی مسئلے کے طور پر دیکھا اور اس کے تدارک کے لیے صد فی صد طبی ایمرجینسی کی طرز کے اقدامات تجویز کیے۔ ان میں سے چند پر فوری عمل درامد مثلا غیر ضروری سفر پر پابندی، ملک میں داخل ہونے والوں کی کڑی جانچ پڑتال اور ان میں مشتبہ مریضوں یا وائرس برداروں کو قرنیطینہ کے مراکز میں منتقل کرنا رو بہ عمل لائے جا چکے تھے۔ تعلیمی ادارے تو پہلے ہی بند کر دیے گئے تھے لیکن گزشتہ ہفتے سے تمام تھیٹر، سنیما گھر، ریستوران، مے خانے، چائے خانے، عوامی اجتماعات، بشمول ہر قسم کے مذہبی اکٹھ بھی بند کر دیے گئے ہیں۔ بڑی بسیں بھی کھڑی کر دی گئی ہیں اور سرکار دفاتر میں کام بند کردیا گیا ہے۔

ان اقدامات کے پہلو بہ پہلو کچھ دیگر ماہرین نے توجہ دلائی کہ یہ مسئلہ اپنی بنیاد میں تو طبی ہے لیکن اس کے مجموعی اثرات زندگی کے تمام شعبوں، سماج، معیشت، عوامی خدمات اور لوگوں کی ذہنی حالت پر بھی بہت گمبھیر ہوں گے۔ مثلا دیہاڑی دار مزدور ہزاروں کی تعداد میں یک بیک بے روزگار ہو گئے ہیں۔ طعام گاہوں کو کچے راشن کی رسد کے کاروبار سے وابستہ لوگ، کسان، مویشی اور مرغیاں پالنے والے، سب کی معاشی سرگرمی رُک گئی ہے۔

اس کے نتیجے میں بازار میں دیگر کاروباری اشیاء اور خدمات کی طلب بھی نیچے آ گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ بہت کٹھن تھا لیکن حکومت نے اس نقصان کو انسانی جانوں کے ممکنہ اتلاف کے مقابلے قابل قبول قرار دیا۔ اب ان درج بالا اثرات کی شدت کم کرنے کے لیے اقدامات کو عملی شکل دینے کے لیے سوچ بچار اور مشورے جاری ہیں۔

اس خادم کی پیشہ ورانہ زندگی کے معمول پر پہلا اثر تو یہ پڑا ہے کہ اگلے اتوار سے دفتر دو ہفتے کے لیے بند کرکے ہم کاروں کو گھر سے کام کرنے کی ہدایت جاری کر دی گئی ہے۔ ہر افسر شاہی کے مانند ہمارے ادارے میں بھی کاغذی کارروائی اور نتیجے میں کاغذ کا استعمال بے تحاشا ہے۔ ہمارے افغان دوست زبیر عزت کئی ماہ ”بے کاغذ دفتر“ کی مہم چلا رہے تھے کہ دھندے کو مکمل طور پر ”آن لائن“ کرنا قطعی ممکن ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ لوگوں کے لیے اپنے لگے بندھے معمول کو یکسر ترک کرنا مشکل ہوتا ہے۔

ہوتا یہ تھا کہ کوئی دستاویز برقیاتی ڈاک میں موصول ہوئی اور ابھی اسے پڑھا جا رہا ہوتا کہ کوئی بے صبر ہم کار اسے کاغذ پر بھی چھاپ کر لے آتا۔ سو اس پُر آشوب ماحول میں ایک مثبت امکان یہ نکلا ہے کہ اب بے کاغذ کارروائی کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ دستخط بھی آن لائن ہوں گے اور ”نوٹ پورشن“ بھی آن لائن لکھے جائیں گے۔ اگر یہ تجربہ کامیاب رہتا ہے تو ادارہ جاتی کارکردگی کا ایک منفرد اور خوش گوار نمونہ سامنے آسکتا ہے۔

بے گھری اور باورچی خانے کی سہولت تک رسائی نہ ہونے کے سبب یہ خادم اور دیگر غیر ملکی ساتھی حضرت اکبر الہ آبادی کے مہذب لوگوں کے گنوائے گئے اوصاف میں سے پہلے ”کٹی عمر ہوٹلوں میں“ پر کاربند رہنے پر مجبور تھے۔ طعام گاہیں بند ہونے کے سبب وہ آسرا بھی لد گیا۔ اب لگتا ہے کہ تاجکستان کی بولی میں ”تیز تیار“ یعنی فاسٹ فوڈ پر تکیہ کرنا پڑے گا۔ اس بھرے پُرے شہر کے ہر اُس حصے میں جہاں کل تک کھوے سے کھوا چھل رہا تھا، ویسے حالات ہیں جیسا کہ مرحوم حبیب جالب نے ضیاء الحق کے ریفرنڈم کے دن کی تصویر کشی کی ہے ”شہر میں ہو کا سا عالم تھا“۔

اس خادم کی قیام گاہ کی واحد کھڑکی ایک نہایت دیدہ زیب چمن کی سمت کھلتی ہے۔ وہاں ہر وقت چہل پہل رہتی تھی۔ خصوصا جمعے اور سنیچر کو لوگ باگ اہلِ خانہ سمیت قریبی ریستوران سے شاورما خرید کر یہاں آن بیٹھتے تھے۔ بچے کلیلیں کرتے تھے اور پھیری پر کافی، چائے سگریٹ بیچنے والوں کی لین ڈوری لگی رہتی تھی۔ لازمی فوجی خدمت سے چھٹی پر آئے ہوئے سپاہی بھی بیویوں یا محبوباوں سے ملاقات کے لیے اس پُرفضا کُنج کا انتخاب کرتے تھے۔

سردی گرمی میں یہ معمول جاری رہتا تھا۔ اب دو روز سے یہ بھی ویران پڑا ہے۔ بازار میں نقاب پوش چہرے تو کم لیکن دستانہ پوش ہاتھ ہر دکان اور ادارے میں نظر آتے ہیں اور گاہکوں اور اہل کاروں کے لیے جابجا ہاتھ پاک کرنے والے محلول کی شیشیاں دھری ہیں۔ اب تک یورپ اور امریکہ کے بعض علاقوں کے بر عکس، گھبراہٹ میں زیادہ سے زیادہ مال خرید کر ذخیرہ کرنے کے مناظر نظر نہیں آئے ہیں اور قیمتیں بھی چندان نہیں بڑھی ہیں۔ آگے کا کہا نہیں جا سکتا۔ بازار میں جاتے وقت البتہ یہ امر اطمینان بخش لگا کہ یہ افتاد شیخ سعدی کی بیان کردہ صورت حال تک نہیں پہنچی جس کا ثبوت ہر عمر کے مردوزن کا جوڑوں کی شکل میں جابجا دکھائی دینا ہے۔

یہ آس پاس چھائی خاموشی ماہرین کے مطابق لغوی طور پر ایک طوفان کا پیش خیمہ ہے جو اپنی ہر جہت میں عالمی ہے۔ اہلِ وطن کے لیے نیک تمنائیں اور ان سے باقی دنیا کے لیے دعا کی استدعا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments