وبا کے دنوں میں تجدید وفا


شمس الرحمن اپنی چھوٹی سی دکان کا تقریباً سارا حلال گوشت بیچنے کے بعد ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا تھا۔ ایک ایک کر کے علاقے کی تمام دکانوں کے شٹرز بند ہورہے تھے۔ تیس سال کے عرصے میں اس نے بھلا کب دن کے کسی بھی پہر میں اپنے شہر ”ہیمٹریمک“ کو ایسا سنسان اور اجاڑ دیکھا تھا جیسے وہ زندہ لوگوں کی بستی نہیں بلکہ لا شوں سے پٹا شکست خوردہ جنگ کا میدان ہو جہاں قبرستانکا سناٹا اور موت کا خوف رقصاں ہو۔ آج پہلی بار اسے دکان کے عقب میں بنے حلال مرغیوں کے مذبح خانے میں مرغیوں کی کٹائی، ان کے گرم پھڑپھڑاتے جسموں کو بوٹی اور قیمہ کرکے ان کے دام وصول کرکے اپنی جیب گرم کرنے کا خیال نہیں آرہا تھا۔

آج اسے یوں لگا کہ جیسے دنیا اس کی بیوی شہناز کے پکائی مزیدار بنگالی پکوان اور سفید رسگلہ کی مٹھائی سے ہٹ کر بھی کچھ ہے۔ اس طرح ایک انتہائی حقیر سی مخلوق نے جسے دنیا نے کرونا وائرس کا نام دیا، لا شعوری طور پہ اسے، دنیا کے سب سے مشکل، اہم اور خوبصورت کام پہ مائل کردیا یعنی تفکر اور سوال کرنا۔ اس نے سوچا کہ کس طرح ایک حقیر سا وائرس ساری دنیا کو ہراساں کر سکتاہے۔ پوری دنیا میں پھیلنے کی وجہ سے ہر قسم کے انسان، امیرغریب، کالے گورے، حاکم و محکوم ادنی اور اعلی، غرض تمام ہی لوگ اپنے کام معطل کرکے باجماعت انسانیت کی فکر پہ معمور ہوگئے ہیں۔ ایک دوسرے کی جان بچانے کی کوشش میں سرکرداں۔ یکبارگی وہ مسکرا اٹھا ”تو اب سب مل کر ایک دوسرے سے لڑنے کے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ اس مشترکہ انسانی دشمن کو مارنے میں لگ جایئں گے؟ شاید اسی طرح دنیا میں امن، سکون اور سلامتی ہو جائے۔ یہی تو تھا کہ جس کی تلاش میں وہ بنگلہ دیش سے امریکہ آیا تھا۔

پھر اس نے اپنی امریکہ ہجرت کے تجربہ کو سوچنا شروع کیا۔ اسے یاد آیا وہ ایر پورٹ سے سیدھا امریکی ریاست مشی گن میں واقع مشہور شہر ڈیٹرائیٹ سے ملے مختصر سے نواحی شہر ”ہیمٹریمک“ ہی تو آیا تھا کہ جہاں اس نے پہلی بار قدم رکھا تو بس یہیں کا ہوگیا۔ اسے لگا وہ امریکہ نہیں ننھے سے بنگلہ دیش میں آگیا ہے۔ جہاں اردگرد رہنے والے اکثر لوگ بنگالی زبان بولتے، دال بھات اور مچھلی پکاتے اور مشرقی لباس پہنتے۔ مختصر سے مکانوں میں رہنے والے غریب بنگالی۔

یہی وجہ ہے کہ باوجود گھر والوں سے کوسوں دورہونے کے اس کا جلد ہی یہاں دل لگ گیا۔ بنگالی گانوں کی دھنوں کو سنتے ہوئے کہ جن میں دریا کی موجوں، مانجھی، پتوار اور ساون کیرم جھم کا ذکر ہوتا۔ جن کو سنتے ہوے کبھی اس کے دل میں بھی یادوں کا طوفان اتر آتا مگر وہ سب کو جھٹک کر اپنا قصائی کا کام جی لگا کر کرتا رہتا۔ کہ اسی کے لیے تو وہ سات سمندر پار آیا تھا۔ زندگی بدلنے کا نادر موقعہ۔

شمس الرحمن جب بنگلہ دیش سے قصاب کی حیثیت سے یہاں ملازمت کرنے آیا تو اس کی عمر بمشکل بیس برس کی تھی۔ قدرے گہنائی ہوئی رنگت، غربت کے کارن چرمرایا دبلا پتلا جسم اور بوٹا سا قد۔ اس وقت عمر ہی نہیں اس کا دل بھی چھوٹا سا تھا۔ اسے یاد تھا کہ جب اس کا امریکہ میں ملازمت کا ویزہ لگ گیا تھا تو اس دن سے لے کر جدائی کی آخری رات تک وہ کس طرح آنگن میں بچھے بان کے ننگے بستر پہ چت لیٹا اماوس کی سیاہ رات میں، سب سے چھپ کر، اپنے تکیہ کو آنسو ؤں سے بھگوتا رہا۔

روتے ہوئے اسے یہ بھی اندازہ ہوا کہ بغیر آواز کے گھٹ گھٹ کر رونا کتنا مشکل ہوتاہے۔ مگر وہ سات اولادوں میں سب سے بڑی اور ذمہ داراولاد تھا، لہٰذا جدائی اور محنت دونوں سے مفر نہیں تھی۔ وہ تیسری دنیا کے ایک ایسے ملک کا باسی تھا جہاں غربت کی وبا کسی منہ زور گھوڑے کی طرح پچھاڑ کر ہی دم لیتی ہے۔ لہٰذا اس اٹھا پٹخ سے پہلے ہے اسے ”مصطفی حلال میٹ اینڈ بنگلہ دیشی فوڈ کیٹرنگ“ میں کام ملنے کی وجہ سے امریکہ کا ویزہ مل گیا۔

جب تیس سال قبل وہ آیا تھا تو یہ وہ وقت تھا کہ جب دنیا واضح طور پہ دو پاٹوں میں بٹ چکی تھی۔ ایک وہ جو اسلام کو دنیا میں سچے دین کی حیثیت سے پھیلانے کے داعی تھے اور دوسرے وہ جو ملحد اور سیکولرز اور یا دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے جن کا انجام تباہی اور نیست و نابود ہونا تھا۔ وہ ایک سیدھا سا انسان تھا۔ جھوٹ سے دور اور لڑائی دنگے سے پاک۔ اپنے گھروالوں کو باقاعدگی سے پیسے بھجنے والا سعاد ت مند بیٹا، تاکہ وہاں بھی پیٹ کے دوزخ کی آگ بجھتی رہے۔

اس کے پاس نہ سیاست کا وقت تھا نہ ہی اتنی سمجھ۔ ہاں البتہ اتنا ضرور پتہ تھا کے وہ امریکہ میں رہتے ہوئے بھی ایک ایسے ایمان پرور خطہ میں تھا جہاں محض دو میل کے رقبہ کے فاصلے پہ کئی مساجد ہیں۔ جن میں بنگالی اور یمنی مساجد جن میں اسلام کے مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والوں کی الگ الگ مساجد کے علاوہ پولیش آبادی کے لیے گرجے بھی تھے۔

لیکن وہ تو مسلمان گھر میں پیدا ہوا تھا لہٰذا روز صبح کی ابتدا دکان میں رکھے ایک ٹین کے ڈبے میں مسجد کے لیے چندا نکال کرکرتا۔ اس طرح وہ اس احساس ملامت سے کچھ بچ جاتا جو اسے مسجد سے اذان کی آواز سننے کے باوجود اکثر اوقات نماز نہ پڑھنے سے ہوتی تھی۔ حالانکہ اس کی وجہ ایمان کی کمی سے زیادہ سچے مسلمانوں کو زندہ رہنے کے لیے ایمان کی طاقت کے علاوہ بلاناغہ حلال گوشت میں پکا کھانا فراہم کرنے کی ایمان افروز خواہش تھی۔ اس میں شک نہیں کہ اس کی چھوٹی سی اس دکان میں ڈاکٹرز اور بڑے بڑے بزنس مین بھی آتے جو اپنے گھر کے علاوہ بڑی بڑی دعوتوں اور رمضان و محرم کی مجالس میں خدا، رسول اور مولا کے نام پہ کٹی مرغیاں ہی پکوانے میں انسانیت کا سکون تلاش کرتے تھے۔

بیس سال قبل شادی کے بعد، شہناز، یعنی اس کی بیوی کی آمد کی وجہ سے آمدنی کی صورت میں اضافہ ہوا تھا۔ جو با پردہ سلیقہ منداور خاموش طبع سی عورت تھی۔ شمس الرحمن نے اسی قسم کی بیوی کی ہی تو خواہش کی تھی، جو نہ چالاک ہو نہ جھگڑالو۔ اسے سوال نہ کرنے والی سادہ سی لڑکی چاہیے تھی جو کیٹرنگ کا کام شروع کرے۔ اور بزنس کو بہتر بنائے۔ حجاب اور صوم وصلوٰۃ کی البتہ پابند ہو۔ یہ اس ماحول کا بھی اثر تھا جو اسلام پسندی کی جانب شدت سے مائل تھا۔

یہاں اسلام پہ پابند لوگوں اور مسجدوں کو خطبوں اور تراویح پڑھنے والوں کی تعداد کم ازکم اس کے بنگلہ دیش کے گاؤں سے کہیں زیادہ تھی۔ مگر پھر اسے نائن ایلون کا المیہ اور مسلمانوں میں طاری خوف یاد آگیا وہی خوف جو ڈیپریشن اور انگزآئٹی کے ساتھ آپ کر اپنے نظر میں حقیر اور کم ہمت بنا دیتا ہے۔ اس نے اسی خوف کے عالم میں اپنی نئی نویلی بیوی کی دلجوئی اور قربت میں اپنا سہارا تلاش کیا۔ ہرنی جیسی آنکھوں والی سانولی سلونی شہناز جو گھر میں خوفزدہ عالم میں کام میں مصروف رہتی تو کبھی اپنے گھروالوں کو یاد کرکے کونے کھدرے میں اپنی سیاہ خوبصورت آنکھوں سے بادل برساتی۔

پھر وہ اس کے پاس جاتا گلے لگاتا تسلی دیتا۔ کبھی اپنی مدھر آواز میں اسے محبت کے گیت سناتا تو کبھی اپنے ہاتھ سے نوالے بنا کے کھلاتا۔ اس طرح دونوں ہی کے خوف میں کچھ کمی آجاتی چھوٹے سے کمرے میں محبت کی سر گوشی پھیل جاتی۔ اس الفت کی سرشاری کی تو زبان ہی اور ہوتی ہے۔ یہ سب سوچتے ہوئے اسے لگا کہ باوجود اس کے کہ اب اس کے چار بچے ہو چکے تھے وہ اس بے خودی اور سرشاری سے نا آشنا ہو چکاہے کہ جس نے کبھی اس کا دل شہناز سے ملایا تھا۔

مگر آج ایک بار پھر اسے نائن الیون والا خوف محسوس ہوا۔ اگر بیس سال پہلے انسانی درندگی کے ہاتھوں طاری ہونے والاخوف تھا تو آج بظاہر ایک انتہائی حقیر کرونا وائرس کا ہراس۔ اسے دل چاہا کہ وہ شہناز کے پاس جائے اسے سینے سے لگا کر اپنی بے اعتنائی اور لاپرواہی کی معافی مانگے کہ وہ کس طرح اس کاروبار زندگی کی مصروفیتو ں میں اس سے بات کرنا ہی نہیں بلکہ اسے دیکھنا، اس کی آنکھوں کو چومنا اور لبوں کو بوسہ دینا ہی بھول گیا تھا۔

اب اسے صرف گاہکوں سے کھانوں کا آڈر ہی لینا اور شہناز کودینا یاد رہتا تھا۔ ”مجھے معاف کر دو میں انجانے میں تم سے بہت دور چلا گیا تھا۔ حتی کہ آج اس وائرس کے خوف نے مجھے یاددلایا کہ گلے لگانا، پیار کرنا، اور اس دوسرے کی کمزوریوں اور خامیوں کو بھول کر ملنا اور طاقت دینا اور امن اور آشتی کے گیت گانا کتنا ضروری ہے۔ سب ٹھیک ہو جاے گا۔ میری جان تم ابھی بہت جیو گی۔ کرونا وائرس تو اپنی موت آپ مر جائے گا۔ لیکن اس کی موت سے پہلے ہمیں اس کا شکریہ ضرور ادا کرنا ہے۔ ایک دوسرے کو یاد دلانے کا۔ اور اپنی محبت کی تجدید کا“ اگلے لمحے اس نے اپنی دکان کا شٹر گرایا اور بے قراری سے اپنے گھر کی جانب چل پڑا جو گلی کی نکڑ پہ تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments