مقننہ اور ذمہ داریاں


صوبائی و مرکزی مقننہ پر طائرانہ نظر ڈالنے سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ اکثر ارکان مقننہ یا تو خود وہ دوسری یا تیسری بار ان نشستوں پر بر اجماں ہیں یا پھر ان کے والدین ماضی میں ان نشستوں کوسنبھالے ہوئے تھے۔ ہر انتخابی مہم میں و قت کی کمی، مخالفین کی شرارت اور مسائل کے انبار اور مستقبل میں موجودہ مسائل کے حل کی یقین دہانی کے گردان دہرا دہرا کر چند مہینوں بعد دوبارہ اپنی نشست سنبھال لیتے ہیں۔ مقننہ ہر جمہوری ریاست کا جز لاینفک تصور کیا جاتا ہے۔

جیسے نام سے ظاہر ہے مقننہ کی قانون سازی ہی اولین ذمہ داری ہوتی ہے اور جمہوریت میں سیاسی نمائندے کا کام ہی عوام کی آواز و مرضی کے مطابق ایسی قانون سازی کرنا کہ جمہوری ماحول کی بقا، جموری روایات کا پروان چڑھنا، بنیادی سہولیات اور عوام کی ترقی اور خوشحالی کا حصول مملن ہوسکے۔ منتخب نمائندیکا اپنے حلقے میں سکول، ہسپتال اورسڑک بنانا ہرگزذمہ داری نہیں ہوتی بلکہ ایسے قانون سازی کرنا کہ ملک کے طول وعرض میں ہر فرد کو بنیادی سہولت میسر ہو اور انتظامیہ وعدلیہ بیباکی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھا سکے۔

سترسالہ ملکی تاریخ میں اگر ان چند دہائیوں کا جائزہ لیں جن میں حکومتیں منتخب نمائندگان کی بدولت وجود میں آئی ہو اور ان کی اولین ذمہ داری یعنی قانون سازی پر نظر دوڑائیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ بدقسمتی سے اصل مقصد کو پس پشت ڈال کر چند وقتی مفادات کا حصول مقصد بنا لیا جاتا ہے تاکہ اگلی بار دوبارہ کامیابی ممکن ہو سکے۔ آئین سازی کی تاریخ میں 1973 کا آئین اور اس میں کی گئی ترامیم میں اٹھارویں اور انضمام فاٹا کے ترامیم جیسے بہت کم روشن باب ہیں جو باہمی اتفاق رائے سے منظور کئے گئے۔

آج کل تو صوبائی اور مرکزی اسمبلیوں سمیت ایوان بالا میں بھی اکثر مچھلی بازار کا سماں ہوتا ہے۔ عوام میں شعور کے فقدان کی وجہ سے صرف ان نمائندگان کے جھولی میں قیمتی ووٹ ڈالے جاتے ہیں جو ان کے لئے سکول ہسپتال بناسکے اور دفتر کچہری میں کام آسکے۔ باقی قانون کی کمی بیشی کو سسٹم میں خرابی قراردے ’یہ پاکستان ہے سب کچھ چلتاہے‘ کا نعرہ مستانہ لگا کر آگے قدم بڑھالیتے ہیں۔

چلیے قانون سازی تو ان کے بس کی بات نہیں جن کاموں کاجھانسہ دے کر عوام سے ووٹ لے ایوان میں چلے جاتے ہیں تو کیا وہ ان کئے گئے وعدوں میں کتنے وعدے پایہ تکمیل تک پہنچادیتے ہیں۔ کسی ایک ممبر صوبائی اسمبلی یا مرکزی اسمبلی کے حلقے کاجائزہ لیتے ہیں جہاں سے اس کا باپ دادا بھی کئی بار منتخب ہوئے، کیا اس ممبر کے ابائی علاقے میں ایک پرائمری سکول ایسا بھی ہے جس کی عمارت بغیر کمیشن کے معیاری میٹیریل سے بنایا گیا ہو، جہاں میرٹ پر عملہ بھرتی ہو، بنیادی سہولیات سے آراستہ ہو اور نئی نسل کیے ذہن معیاری تعلیم سے منور ہوں۔

جواب یقینا نفی میں ہوگا۔ یہی جواب گلی سڑک، ہسپتال اور دیگر بنیادی سہولیات کے سوال کا بھی ہوگا۔ اگر منتخب نمائندہ اپنے دور اقتدار میں صرف ایک ہی کام کرتے کہ ہر سال بغیر کسی طمع و احسان کے کسی ایک مستحق بچے کی تعلیمی اخراجات کا بیڑا اپنے ذمے لیتے اور کسی غیرملکی ادارے میں اپنے بچوں کے ساتھ نہیں بلکہ بچے کی ذہنی استعداد اور خواہش کے مطابقہ ملک کے کسی ممتاز ادارے میں ماسٹر تک تعلیم دلاتے تو آج چند دہائیوں میں نہ صرف سینکڑوں خاندانوں کے تقدیر بدل جاتے بلکہ تعلیم یافتہ جوانوں کی ایک کھیپ تیارہوتی جو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی میں اپنا ہاتھ بٹھاتے۔ نہ تو وہ ترقی کے سفر میں کسی کی راہ میں رکاوٹ بنتے اور نہ ہی کسی کو رکاوٹ بننے دیتے۔

ہائے افسوس۔ تعلیم کی قدر و منزلت تو قلم کاغذ والے جانے، مقننہ میں جلوہ افروز حضرات میں اکثریت تو اپنے دستخط کے علاوہ نہ ایک سطر لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی پڑھ سکتے ہیں اور حاضری لگاتے وقت بسا اوقات قلی و شیروانی والے حضرات ہی نام ڈھونڈنے میں ان کی مدد کرتے دکھائے دیتے ہیں۔ عام تاثر تو یہ ہے کہ انسان کے پاس جس چیز کی قلت ہواسی چیز کی قدر وقیمت قدرے زیادہ ہوتی ہے مگر ہمارے سیاسی زغماء کو نہ تو قلم کی طاقت کا اندازہ اور نہ ہی یہ احساس کہ باقی دنیا کس قدر تیز رفتاری سے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ہم سے کتنا آگے دوڑ رہی ہے اور کسی ادارے میں ایک استاد کے سیاسی اثر رسوخ پر بھرتی ہونے پر کتنے کتنے نسلوں کی ذہنی ارتقاء کا خون ہوجاتا ہے۔

چاہیے تویہ تھا کہ اکیسویں صدی کے جدید دور میں ہم اپنے تعلیم اداروں کو ڈیجیٹیلائز کرنے کے بحث و مباحثے ہوتے مگر ہم تو ابھی تک کونسلروں، چوہدریوں اور نمبرداروں کی بھینس سکولوں سے نکالنے میں کامیاب نہ ہوسکے تختہ سیاہ نکال کر ڈیجیٹل بورڈ کیسے نصب کریں گے۔ مشرف کے آمرانہ دور میں اعلی تعلیم کے سنہرے دور کے قصیدے بار بار سننے میں ملتے ہیں لیکن مجال ہو کہ کوئی بنیادی تعلیم کے نظرانداز ہونے کا نوحہ کہے۔ جامعات میں امریکہ کے مہربانی سے فنڈز کی بہتات مگر اعلی پایے کی تحقیق آج بھی نایاب اور اس وقت بھی ناپید۔ ہر سیاسی لیڈر کندھے اچکا کر فخر سے اپنے ضلع میں ایک یا دو یونیورسٹی کے ہونے کا ذکر کر کے عوام پر احسان جتاتے رہتے ہیں مگر کون اسے سمجھائے کہ عمارتیں کھڑی کرنے سے معاشرہ تعلیم یافتہ نہیں بنتے۔ پہلے اپنے پرائمری سکول کی عمارت پر توجہ دے تاکہ یونیورسٹی میں پڑھنے والے تو پیدا ہوں۔

مختصریہ کہ جو مقننہ سات دہائیوں میں قو م لے لئے یکساں نصاب کے لئے قانون سازی نہ کرسکے، جو آج تک یہ فیصلہ متفقہ طور پر نہ کرسکی کہ ذریعہ تعلیم مادری، قومی یا پھر بین الاقوامی زبان ہونی چاہیے، جویہ نہ سمجھ سکے کہ تہذیب یافتہ معاشرہ تعلیمی اداروں کی عمارتیں کھڑی کرنے سے نہیں بنتے بلکہ معیاری تعلیم و تحقیق، جدید تعلیم سے آراستہ مدرسین کی بدولت ہی پروان چھڑتے ہیں۔ ایسی مقننہ میں جلوہ ا فروز ممبران انتظامیہ و عدلیہ پر انگلی کیوں اٹھاتے ہیں، کیوں دھاندلی اور تقدس ایوان کے پامال ہونے کا شورمچاتے ہیں۔

بہرحال جن کا کام وہ تو نہ کرسکے اور نہ ہی کرنے والے ہیں۔ اب معاشرہ کے رکن ہونے کے ناتے ہمارا بھی فرض ہے کہ معاشرہ کی اصلاح و ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں اور آج سے اگر کسی طالبعلم کے اخراجات نہیں بھر سکتے تو کسی ایک فرد کو روزانہ چند الفاط سکھا سکتے ہیں۔ دوسروں کو بھی سکھائیں اور خود بھی دو تین صفحات پڑھیں اور قوم کی تقدیر بدل دے

ذیشان اللہ
Latest posts by ذیشان اللہ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments