’نے ناشنیدہءغالب‘ اور ناصر کاظمی


مرزا غالب کی صد سالہ برسی کے موقع پر پٹنہ میں مقیم ایڈوکیٹ اکبر رضا جمشید نے غالب کے غیر متداول اشعار کا ایک مجموعہ مرتب کیا جو ’نے ناشنیدہءغالب‘ کے نام سے جنوری 1969میں شائع ہوا۔ اگست میں اس کی ایک کاپی مدیر ’ادب لطیف‘ لاہور کو برائے تبصرہ بھیجی گئی جو انہوں ناصر کاظمی کو دی۔ صفحہءاول پر کتاب کے عنوان کے نیچے غالب کا یہ شعر درج ہے:

ہرگز کسی کے دل میں نہیں ہے مری جگہ

یعنی کلام نغز و نے ناشنیدہ ہوں

پیش لفظ میں پس منظر بیان کرتے ہوئے اکبر رضا لکھتے ہیںکہ غالب کی وفات کے بعد غالب پرستوں نے مختلف ذرائع سے ان کا وہ کلام شائع کرنا شروع کر دیا جو ان کی زندگی میں شائع نہیں ہوا تھا۔ 1921میں مولوی انوارالحق نے ”نسخہءحمیدیہ“ کے عنوان سے، 1931 میں مولوی عبدلباری آسی نے ، پھر مولانا امتیاز علی خاں عرشی اور کچھ اور حضرات نے غیر متداول کلام غالب شائع کیا۔ اکبر رضا کے مطابق ’نے ناشنیدہءغالب‘ انہوں نے ”نسخہء حمیدیہ“، آسی اور عرشی کے مطالعے کے بعد مرتب کی۔ اس میں 1824 اشعار ایسے ہیں جو متداول دیوان غالب کی اشاعت کے وقت چھانٹ ڈالے گئے تھے۔ اس میں ردیف ثائے مثلثہ (ث)، حائے حطی (ح) اور غین (غ) کے اشعار بھی ہیں۔ اس مجموعے میں شامل زیادہ تر غزلوں کا ایک شعر بھی متداول دیوان میں نہیں ہے۔ لیکن بعض غزلوں کے چند اشعار متداول دیوان میں ہیں ۔ جو اشعار متداول دیوان کی غزلوں سے نکال دیے گئے تھے، مرتب نے ان کی نشاندہی کرنے کے لیے ان سے پہلے متداول دیوان کی غزلوں کے مطلعے شامل کر کے حواشی میں ”از غزل“ لکھ دیا ہے۔

یہ تو میرے علم میں نہیں کہ پاپانے اس پہ تبصرہ لکھا تھا یا نہیں، البتہ انہوں نے اس کا مطالعہ بہت انہماک سے کیا تھا۔ یہ نسخہ کئی روز ان کے سرہانے رکھی میز پہ موجود رہا۔ ایک روز تو ایک بڑے حادثے سے بچت ہو گئی۔ پاپا نے جلتا ہوا سگریٹ ایش ٹرے میں رکھا لیکن پھر اس کی طرف سے غافل ہو گئے اور نیند کے جھونکے نے آ گھیرا۔ کچھ دیر بعد باجی (ہم اپنی والدہ کو باجی کہتے تھے) کو پاپاکے کمرے سے کسی چیز کے جلنے کی بو آئی۔ جا کے دیکھا تو آگ کا شعلہ بھی نظرآیا جو اسی نسخے سے، جو پیپر بیک میں شائع ہوا تھا، اٹھ رہا تھا۔ ان کے شور مچانے پر میں بھی لپک کے پہنچا۔ پاپا بیدار ہوچکے تھے۔ آگ بجھائی گئی۔کچھ کہنے سننے کا تو موقع نہ تھا،ہم بس ایک دوسرے کو خوف اور حیرت کے عالم میں دیکھتے رہے۔

کتاب کا سرورق اور پہلے چودہ صفحات اوپر کے بائیں کونے سے اس طور جل گئے تھے کہ عنوان میں غالب کا صرف غین بچا تھا جبکہ صفحہ تیرہ کے پہلے شعر کا آخری لفظ اور صفحہ چودہ کے پہلے شعر کا پہلا لفظ غائب ہو چکے تھے، باقی متن محفوظ رہا۔

پاپا کی وفات (1972) کے بعد پہلے دس برس تو ان کی غیر مطبوعہ غزلوں اور نظموں کے مجموعوں، منظوم ڈرامے اور نثر کی اشاعت میں صرف ہوئے۔ اس کے بعد ان کے کاغذات، ڈائریوں اور کتابوں کے ذخیرے سے ملنے والے متعدد شعرا کے انتخاب شائع ہونے کا مرحلہ آیا۔ میر اور نظیر کے انتخاب تو انہوں نے الگ الگ کاپیوں میں خوشخط نقل کر دیے تھے جبکہ کلیات ولی، کلیات انشا، مہتاب داغ اور گلزار داغ میں اپنے منتخب کردہ اشعار پر نشان (ٹک) لگائے ہوئے تھے اور کہیں کہیں ناشرین و کاتبین کے لیے ہدایات بھی حواشی میں دی ہوئی تھیں۔ دوران مطالعہ، پاپا اپنے پسندیدہ یا کسی اعتبار سے قابل توجہ اشعار پر نشانات لگاتے تھے اور بعض اوقات حواشی میں کوئی نوٹ بھی لکھتے۔ زیر موضوع نسخہءغالب کے علاوہ انہوں نے دیوان درد، کلیات مصحفی (دیوان اول و دوم)، دیوان گویا، مظہر عشق (دیوان قلق)، دیوان غالب، مراثی انیس کی پہلی چار جلدوں، دیوان بہادر شاہ ظفر، دیوان حالی، خمکدہءآزاد، زبور عرفان (انتخاب شاد عظیم آبادی) اور اپنے چند ہمعصرشعرا کے مجموعوں پر بھی ایسے ہی نشانات لگا رکھے تھے۔ انہیں دیکھ کر یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ باقاعدہ اشاعت کے لیے ’انتخاب‘ کیے گئے تھے لیکن مضامین کی شکل میں ان کا پیش کیاجانا ممکن ہے۔ ولی، میر، نظیر اور انشا کے انتخاب 1989-91میں کتابی شکل میں شائع ہو گئے تھے جبکہ انتخاب داغ زیر اشاعت ہے۔

 ’نے ناشنیدہءغالب‘ میں 282غزلوں کے تقریباًدو ہزار اشعار ہیں ۔ ناصر نے 141اشعار پر پسندیدگی کے نشان، یعنی ٹک، لگائے(ایک، دو یا تین) اور 40 اشعار میں کوئی بات نوٹ کرتے ہوئے ان کے ساتھ حواشی میں ڈیش (۔) ڈال دیے۔ 18 اشعار ایسے ہیں جن کے حاشیے میں نہ تو ٹک ہے نہ ڈیش البتہ ان کا کوئی لفظ، ٹکڑا ، یا مصرع انڈر لائن کیا گیا ہے۔چنانچہ یہ تمام اشعار تین حصوں میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ بعض غزلوں کے کچھ اشعار ایک حصے میں اور کچھ دوسرے یا تیسرے میں ہیں۔ ناصر نے حواشی میں جو کچھ لکھا، جن تراکیب، اشعار کے ٹکڑوں اور مصرعوں کو انڈر لائن کیا ، یا ایک سے زیادہ ٹک لگائے، ان کی نشاندہی اشعار کے ساتھ بریکٹوں میں کی گئی ہے ۔ کہیں کہیں مجھے بھی کسی وضاحت کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اپنے نوٹ کے ساتھ میں نے ’ب س ک‘ درج کر دیا ہے۔ اس کتاب میں متداول دیوان کے جو اشعار غزل کی نشاندہی کے لیے درج کیے گئے ہیں، اگر ناصر نے ان پر نشان لگائے ہیں تو وہ بھی شامل انتخاب کر دیے ہیں۔

زیر نظر کتاب میں کتابت کے کچھ مسائل ہیں۔ ناصر نے بہت سی اغلاط تو درست کی ہوئی تھیں لیکن پھر بھی کچھ رہ گئی تھیں۔ انتخاب کا حتمی مسودہ تیار کرنے کے لیے مجھے اپنے دوست ڈاکٹر ساجد علی کی معاونت درکار ہوئی۔ ساجد کے پاس مولانا غلام رسول مہر کا دیوان غالب اور مولانا عرشی کا دیوان غالب (نسخہءعرشی) موجود تھے اور میرے پاس مولانا غلام رسول مہر کی ’نوائے سروش‘ (مکمل دیوان غالب مع شرح) اورکالی داس گپتا کا مرتب کردہ ’دیوان غالب (کامل)‘ ۔ ساجد نے ’ریختہ‘ کی ویب سائٹ پرعبد الباری آسی کی مکمل شرح دیوان غالب بھی سامنے رکھی ۔ان نسخوں کی روشنی میں ہم نے ’نے ناشنیدہءغالب‘ کے متن کی پڑتال کی، کتابت کی اغلاط درست کیں، کچھ کومے ہٹا دیے اور بعض جگہ لگا دیے۔ غیر متداول کلام غالب پر کی جانے والی کوششوں کے بارے میں اکبر رضا جمشید کا کہنا ہے کہ ”کامیاب ترین کوشش کا سہرا مولانا امتیاز علی خاں عرشی کے سر ہے جنہوں نے اس بڑے کام کی باقاعدہ شیرازہ بندی کا کام انجام دیا۔“

متن کی تصحیح کے ضمن میں ایک شعر کی پڑتال کا بیان کچھ وضاحت کر سکے گا کہ انتخاب کردہ متن کا کلام غالب کے مذکورہ دیگر نسخوں سے موازنہ کیسے کیا گیا اور یہ کتنا مفید ثابت ہوا۔ شعر ہے:

فصل اردی نہ غم دے ہے یہاں پر غالب

نزہت باغ سے بہتر ہے گریباں میرا

 ساجد علی کا خیال تھا کہ مصرع ثانی میں ’گریباں‘ کی بجائے ’بیاباں‘ ہونا چاہیے۔ شعر صرف’ شرح آسی‘ میں ملا لیکن اس میں بھی ’گریباں‘ ہی چھپا ہوا تھا۔ ساجد نے وہاں بیان کردہ شعر کی تشریح پڑھی تواس میں گریبان کا کوئی ذکر نہیں تھا بلکہ لفظ بیاباں استعمال کیا گیا تھا: ”نہ یہاں بہار کا موسم اور منظر ہے نہ خزاں کا غم ہے۔ اے غالب میرا بیاباں، یعنی جس بیاباں میں میں ہوں وہ بہر صورت باغ کی تروتازگی سے اچھا ہے۔ اس واسطے کہ باغ میں تو بہار کے بعد ہمیشہ خزاں کا خوف لگا رہتا ہے مگر یہاں بہار ہی نہیں ہے تو پھر کیوں خزاں کا خوف ہو گا۔“ چنانچہ ہم نے اپنے متن میں ’بیاباں‘ درج کر دیا۔

درج ذیل اشعار کے حاشیوں میں ناصر نے ’میر‘ لکھا ہے اور’ چشم کم‘ اور’ جوں‘ ’عزلت آباد صدف ‘کو انڈر لائن کیا :

دیکھئے مت چشم کم سے سوئے ضبط افسردگاں

جوں صدف پرور ہیں دنداںدر جگر افشردگاں

ہے وطن سے باہر اہل دل کی قدرومنزلت

عزلت آباد صدف میں قیمت گوہر نہیں

اس شعر کے حاشیے میں ’زمین میر‘ لکھا ہے:

نگاہ یار نے جب عرض تکلیف شرارت کی

دیا ابرو کو چھیڑ اور اس نے فتنے کو اشارت کی

اس شعر پر مجھے میر کا شعر یاد آیا:

زندگانی نہیں بیش از نفس چند اسد

غفلت آرائی یاراں پہ ہے خنداں گل و صبح

(کہا میں نے گل کو ہے کتنا ثبات

کلی نے یہ سن کر تبسم کیا)

(میر)

اور اس شعر پہ لامحالہ اقبال کا خیال آنا تھا:

خوشی، خوشی کو نہ کہہ ،غم کو غم نہ جان اسد

قرار داخل اجزائے کائنات نہیں

(سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں۔ اقبال)

کچھ اشعار پر غالب کے متداول کلام میں موجود معروف اشعار یاد آتے ہیں۔

ہم عشق فکر وصل و غم ہجر سے اسد

لائق نہیں رہے ہیں غم روزگار کے

(عشق نے غالب نکما کر دیا

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے)

یہ شعر جس میں اگر چہ متداول دیوان کے معروف شعر کا پورا مصرع استعمال کیا گیا ہے، قدرے مختلف ہونے کے باعث اپنے ہونے کا مکمل جواز فراہم کرتا ہے :

انداز نالہ یاد ہیںسب مجھ کو پر اسد

جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا

(عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا

جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا)

موخرالذ کر معروف شعر کا مضمون یہ ہے کہ وہ دل جس پر عاشق کو ناز تھا کہ وہ عرض نیاز عشق کرتا تھا، اب اس لائق نہیں رہا۔ اول الذکر شعر میں یہ تو کہا گیا ہے کہ وہ دل جس پہ ناز تھا ، نہیں رہا، لیکن ناز کرنے کی وجہ انداز نالہ بتائی گئی ہے، اور وہ شاعر کو اب بھی یاد ہے ۔ دھیان جاتا ہے ان فنکاروں، ہنرمندوں اور کھلاڑیوں کی طرف جو عملی طور پر ’میدان‘ میں فعال نہ رہے ہوں لیکن ان کا تجربہ کار آمد ہو سکتا ہے، یعنی وہ مبصر یا مشیر ہو سکتے ہیں۔ اور جب آدمی اس قابل بھی نہیں رہتا تو جو کیفیت ہوتی ہے اس کی مختلف صورتوں کو بھی غالب نے دیگر اشعار میں بیان کیا ہے۔

 سخن میں خامہءغالب کی آتش افشانی

یقیں ہے ہم کو بھی لیکن اب اس میں دم کیا ہے

یاد تھیں ہم کو بھی رنگارنگ بزم آرائیاں

لیکن اب نقش و نگار طاق نسیاں ہو گئیں

گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے

رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے

اور اس شعر پر مجھے ناصر ہی کا شعر یاد آ گیا:

تھا میں گلدستہءاحباب کی بندش کی گیاہ

متفرق ہوئے میرے رفقا میرے بعد

(دوستوں کے درمیاں

وجہ دوستی ہے تو

ناصر)

غالب کے شعر میں احباب کو گلدستے کے پھولوں سے تشبیہہ دی گئی ہے جنہیں اکٹھا رکھنے کے لیے کسی بیرونی عنصر کی ضرورت ہوتی ہے۔ ’بندش‘ کا لفظ پابندی، بلکہ کسی حد تک مجبوری کو ظاہر کرتا ہے۔ بالعموم احباب کے حلقے میں کوئی شخص ایسا ہوتا ہے جو سب کو اکٹھا کرنے کا اہتمام کرتا رہتا ہے۔ اس کے لیے اس کے پاس وسائل بھی ہوتے ہیں اور اس میں کوئی ایسا وصف بھی ہوتا ہے جس کے سبب سب اس سے وابستہ رہنا چاہتے ہیں۔ افراد حلقہ کا آپس میں رابطہ زیادہ تر اسی کے طفیل ہوتا ہے ورنہ وہ ایک دوسرے سے تقریباً بے نیاز ہی رہتے ہیں۔ جب تک اس ’گیاہ‘ کی بندش قائم رہتی ہے احباب جڑے رہتے ہیں، گویا وہ اس کے رفقا ہوتے ہیں، آپس میں رفیق ہوں نہ ہوں۔ اس کے ’بعد‘ ان کا رابطہ ختم ہو جاتا ہے۔خیال کے ساتھ ساتھ کرافٹ کے معاملے میں بھی شعر لاجواب ہے۔ منتشر کی بجائے متفرق کا استعمال خصوصی داد کا متقاضی ہے۔ احباب بکھر نہیں گئے بلکہ الگ الگ ہو گئے۔ پھر ایک تو یہ لفظ شاعری میں بہت کم دیکھنے میں آتا ہے، دوسرے اس کا اور رفقا کا صوتی اشتراک ، حروف ’م‘ اور ’ر‘ کی خوشگوار تکرار کے ساتھ، شعر کی تاثیر بڑھا رہا ہے۔ لفظ ’میرے‘ دہرایا گیا ہے لیکن دونوں جگہ پوری طرح صرف ہو رہا ہے۔

ناصر کا شعر جون 1971میں لکھی گئی غزل سے ہے۔ اس میں ’وجہ دوستی‘ کی ترکیب نئی اور فکر انگیز ہے۔ دوستوں میں دوستی کی وجہ خارجی بھی ہو سکتی ہے اور داخلی بھی، عارضی بھی اور مستقل بھی۔ اور یہ مجبوری کی بجائے اختیار یا اتفاق کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ وجہ کوئی شخص، علاقہ، شغل، پیشہ، فن، ہنر، مزاج، نصب العین، ادارہ، جماعت، کچھ بھی ہو سکتی ہے اور دوستوں کا رابطہ قائم نہ رہ سکنے کے باوجود انہیں ’باندھ‘ کے رکھتی ہے۔ شعر سہل ممتنع کی عمدہ مثال ہے۔ اتنی سہولت سے اتنی گہری بات کر دینا آسان بات نہیں۔

جو الفاظ، تراکیب ، اشعار کے ٹکڑے یا پورے مصرعے ناصر نے انڈر لائن کیے ہیں، اگرچہ ان کی نشاندہی انتخاب میں دیئے گئے اشعار کے ساتھ بھی کی گئی ہے لیکن انہیںیہاں ایک ساتھ بھی پیش کر رہا ہوں:

ایک بیکسی تجھ کو، آفت آہنگ، بیگانہءوفا ہے ہوائے چمن ہنوز (پورا مصرع خط کشیدہ)، گل کھلے غنچے چٹکنے لگے اور صبح ہوئی/ سر خوش خواب ہے وہ نرگس مخمور ہنوز (پورا شعر خط کشیدہ)، چراغان دوالی، عزلت آباد صدف ، کاسہءدریوزہءمسرت، عمر کم مایہ، خواہش زیست ہوئی آج دوبارا ہم کو (پورا مصرع خط کشیدہ)، فکر مضامین متین، شاعری جز ساز درویشی نہیں حاصل نہ پوچھ (پورا مصرع خط کشیدہ) ساز فسانگی، دعوی چمن نسبی، مشق تیرہ روزی، لوح دبستاں، جیب خود شناسی، سایہءدیوار سیلاب درودیوار ہے (پورا مصرع خط کشیدہ)، خط رخسار ساقی تا خط ساغر چراغاں ہے (پورا مصرع خط کشیدہ)، رگ بستر کو ملی شوخی مژگاں مجھ سے (پورا مصرع خط کشیدہ)، وہ فرنگی زادہ، نام والائے علی تعویذ بازو، جیب خود شناسی، بعشق ساقی کوثر بہار بادہ پیمائی (پورا مصرع خط کشیدہ)، بیعت بیدل بکف، دوستان لباسی، گلدام، بارگہ شوکت گل۔

ناصر کاظمی غالب کے بھی اتنے ہی معتقد تھے جتنے میر کے۔ اس کی تصدیق ان کی نثر کے مجموعے ’خشک چشمے کے کنارے‘ میں شامل ان کے غالب پر ریڈیو فیچر؛ شیخ صلاح الدین، انتظار حسین اور حنیف رامے کے ساتھ کیے گئے مکالموں اور سجاد باقر رضوی کے شعری مجموعے کے دیباچے سے ہوتی ہے۔ ناصر ”نسخہءحمیدیہ“ کی افادیت کے بھی بہت قائل تھے۔ مکالمہ ’خوشبو کی ہجرت‘ میں کہتے ہیں:

”شیخ صاحب نے غالب کی جو تصرف پسندی کی طرف اشارہ کیا ہے دراصل وہ صرف غالب ہی تک محدود نہیں، وہ تو ہر انسان چاہتا ہے۔ غالب کی یہ معصوم اور عظیم آرزوئیںہم تک اس لیے پہنچیں کہ ایک چیز اب بھی سراپردہءروایت میں موجود ہے جسے نسخہءحمیدیہ کہتے ہیں۔ اصل غالب تو اسی نسخے میں ہے۔ عوامی غالب تو مصور ایڈیشنوں میں بھی مل جاتا ہے۔“

چنانچہ ’نے ناشنیدہءغالب‘ میں ناصر کی غیر معمولی دلچسپی قابل فہم ہے۔ اس کتاب میں زیادہ ترغالب کی طبع دشوار پسند کی جولانیاں دیکھنے کو ملتی ہیں لیکن ایسے قارئین کے لیے بھی بہت سا سامان ہے جو ان سے ”آسان کہنے کی“ فرمائش کرتے تھے۔ ناصر کے منتخب کردہ اشعار کلام غالب کے اہم پہلوﺅں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ناصر کو مزید سمجھنے میں بھی معاون ثابت ہوں گے۔

 انتخاب کلام

حصہ اول

(ٹک کیے گئے اشعار)

کہتے ہو نہ دیں گے ہم ، دل اگر پڑا پایا

دل کہاں کہ گم کیجے، ہم نے مدعا پایا

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم ،یارب؟

ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا

بے دماغ خجلت ہوں، رشک امتحاں تا کے؟

ایک بے کسی تجھ کو عالم آشنا پایا

(خط کشیدہ: ’ایک بے کسی تجھ کو ‘ )

شب نظارہ پرور تھا خواب میں خیال اس کا

صبح موجہءگل کونقش بوریا پایا

(نسخہءعرشی اور کالی داس گپتا کے دیوان غالب میں مصرع اولی میں ’خیال‘ کی بجائے ’خرام‘ ہے۔ ب س ک)

ہے نگیں کی پاداری ، نام صاحب خانہ

ہم سے، تیرے کوچے نے نقش مدعا پایا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

چند تصویر بتاں چند حسینوں کے خطوط

بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا

(معروف شعر ہے لیکن کلام غالب کے کسی بھی نسخے میں نہیں ہے۔شاید مرتب نے حافظے کی مدد سے شامل متن کیا اور ناصر نے ٹک بھی کر دیا، کوئی وضاحتی نوٹ لکھے بغیر۔ ب س ک )

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

رہ خوابیدہ تھی گردن کش یک درس آگاہی

زمیںکو سیلی استاد ہے نقش قدم میرا

نہ ہو وحشت کش درس سراب سطر آگاہی

میں گرد راہ ہوں بے مدعا ہے پیچ و خم میرا

(نسخہءعرشی اور دیوان کالی داس گپتا میں ’میں گرد راہ ہوں‘ کی بجائے ’غبار راہ ہوں‘ ہے۔ ب س ک)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

دیدہ تا دل ہے یک آئینہ چراغاں، کس نے

خلوت ناز پہ پیرایہءمحفل باندھا

ناامیدی نے بتقریب مضامین خمار

کوچہءموج کو خمیازہءساحل باندھا

یار نے تشنگی شوق کے مضموں چاہے

ہم نے دل کھول کے دریا کو بھی ساحل باندھا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ضعف جنوں کو وقت تپش در بھی دور تھا

اک گھر میں مختصر سا بیاباں ضرور تھا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اے آہ میری خاطر وابستہ کے سوا

دنیا میں کوئی عقدہءمشکل نہیں رہا

ہر چند میں ہوں طوطی شیریں سخن، ولے

آئینہ آہ میرے مقابل نہیں رہا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اسد خاک در میخانہ اب سر پر اڑاتا ہوں

گئے وہ دن کہ پانی جام مے کا تا بہ زانو تھا

(تین ٹک)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

عشق میں ہم نے ہی ابرام سے پرہیز کیا

ورنہ جو چاہیے اسباب تمنا سب تھا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پھر وہ سوئے چمن آتا ہے خدا خیر کرے

رنگ اڑتا ہے گلستاں کے ہوا داروں کا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اسد ارباب فطرت قدردان لفظ و معنی ہیں

سخن کا بندہ ہوں لیکن نہیں مشتاق تحسیں کا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

دہان تنگ مجھے کس کا یاد آیا تھا

کہ شب خیال میں بوسوں کا اژدہام رہا

(نسخہءعرشی اور دیوان کالی داس گپتا میں ’اژدہام ‘ کی بجائے ’ازدحام‘ ہے۔ عرشی نے ’اژدہام ‘ کو سہو کاتب قرار دیاہے۔ ب س ک)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آفت آہنگ ہے کچھ نالہءبلبل ورنہ

پھول ہنس ہنس کے گلستاں میں فنا ہو جاتا

(خط کشیدہ: آفت آہنگ)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مستقل مرکزغم پر بھی نہیں تھے ورنہ

ہم کو اندازہءآئین دعا ہو جاتا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

چشم خوں نابہ فشاں، آج نظر آتا ہے

شفق صبح کے دامن میں گریباں میرا

فصل اردی نہ غم دے ہے یہاں پر غالب

نزہت باغ سے بہتر ہے بیاباں میرا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

محمل پیمانہءفرصت ہے بر دوش حباب

دعوی دریا کشی و نشّہ پیمائی عبث

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

تا صبح ہے بہ منزل مقصد رسیدنی

دود چراغ خانہ غبار سفر ہے آج

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

دریا بساط دعوت سیلاب ہے اسد

ساغر بہ بارگاہ دماغ رسیدہ کھینچ

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

زندگانی نہیں بیش از نفس چند اسد

غفلت آرائی یاراں پہ ہے خنداں گل و صبح

(نسخہءعرشی اور دیوان کالی داس گپتا میں ’آرائی ‘ کی بجائے ’آرامی ‘ ہے۔ ب س ک)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

تھا میں گلدستہءاحباب کی بندش کی گیاہ

متفرق ہوئے میرے رفقا میرے بعد

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

تو پست فطرت اور خیال بسا بلند

اے طفل خود معاملہ قد سے عصا بلند

ویرانیے جز آمد و رفت نفس نہیں

ہے کوچہ ہائے نے میں غبار صدا بلند

رکھتا ہے انتظار تماشائے حسن دوست

مژگان بازماندہ سے دست دعا بلند

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جواب سنگدلی ہائے دشمناں ہمت

زدست شیشہءدل ہائے دوستاں فریاد

(نسخہءعرشی اور دیوان کالی داس گپتا میں ’شیشہءدل ‘ کی بجائے ’شیشہ دلی ‘ ہے۔ ب س ک)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اسد کی طرح میری بھی، بغیر از صبح رخساراں

ہوئی شام جوانی اے دل حسرت نصیب آخر

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اے چرخ، خاک بر سر تعمیر کائنات

لیکن بنائے عہد وفا استوار تر

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پائے بند عشق رسم دہر سے آزاد ہیں

کر رہے ہیں ذکر تیرا سبحہ گردانی بغیر

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

فانوس شمع ہے کفن کشتگان شوق

در پردہ ہے معاملہءسوختن ہنوز

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہجوم فکر سے دل مثل موج لرزے ہے

کہ شیشہ نازک و صہبائے آبگینہ گداز

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

گل کھلے ،غنچے چٹکنے لگے اور صبح ہوئی

سر خوش خواب ہے وہ نرگس مخمور ہنوز

(خط کشیدہ : پورا شعر )

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

برہم ہے بزم غنچہ بیک جنبش نشاط

کاشانہ بسکہ تنگ ہے غافل ہوا نہ مانگ

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بقدر حوصلہءعشق جلوہ ریزی ہے

وگرنہ خانہءآئینہ کی فضا معلوم

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بسکہ وہ چشم و چراغ محفل اغیار ہے

چپکے چپکے جلتے ہیں جوں شمع ماتم خانہ ہم

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

گذرا جو آشیاں کا تصور بوقت بند

مژگان چشم دام ہوئے خارو خس تمام

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

لوں وام بخت خفتہ سے یک خواب خوش ولے

غالب یہ خوف ہے کہ کہاں سے ادا کروں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بوسے میں وہ مضائقہ نہ کرے

پر مجھے طاقت سوال کہاں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہے نزاکت فصل گل میں بسکہ معمار چمن

قالب گل میں ڈھلی ہے خشت دیوار چمن

(نسخہءعرشی اور دیوان کالی داس گپتا میں مصرع اولی یوں ہے:ہے نزاکت بسکہ فصل گل میں معمار چمن۔ ب س ک )

وقت ہے گر بلبل مسکیں زلیخائی کرے

یوسف گل جلوہ فرما ہے بہ بازار چمن

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

دل لگا کر آ گیا ان کو بھی تنہا بیٹھنا

بارے اپنی بیکسی کی ہم نے پائی داد یاں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

زمانہ سخت کم آزار ہے بہ جان اسد

وگرنہ ہم تو توقع زیادہ رکھتے ہیں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

گل، غنچگی میں غرقہءدریائے رنگ ہے

اے آگہی فریب تماشا کہاں نہیں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

دیروحرم آئینہءتکرار تمنا

واماندگی شوق تراشے ہے پناہیں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کیفیت دیگر ہے فشار دل خونیں

اک غنچے سے صد ساغر گل رنگ نکالوں

گر ہو بلد شوق مری خاک کو وحشت

صحرا کو بھی گھر سے کئی فرسنگ نکالوں

فریاد، اسد، غفلت رسوائی دل سے

کس پردے میں فریاد کی آہنگ نکالوں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیدہ ہوں

میں دشت غم میں آہوئے صیاد دیدہ ہوں

ہوں گرمی نشاط تصور سے نغمہ سنج

میں عندلیب گلشن ناآفریدہ ہوں

میں چشم وا کشادہ و گلشن نظر فریب

لیکن عبث کہ شبنم خورشید دیدہ ہوں

(بقول عرشی ،غالب خرشید بھی لکھتا تھا۔ عرشی نے اس مقام پر غالب کا اتباع کیا ہے۔ ب س ک)

تسلیم سے یہ نالہ موزوں ہوا حصول

اے بے خبر میں نغمہءچنگ خمیدہ ہوں

جو چاہیے نہیں وہ مری قدرو منزلت

میں یوسف بقیمت اول خریدہ ہوں

ہرگز کسی کے دل میں نہیں ہے مری جگہ

یعنی کلام نغز و نے ناشنیدہ ہوں

( دیوان مہر، میں مصرع ثانی یوں ہے: ہوں میں کلام نغز،ولے ناشنیدہ ہوں۔ ب س ک )

اہل ورع کے حلقے میں ہر چند ہوں ذلیل

پر عاصیوں کے فرقے میں میں برگزیدہ ہوں

(دیوان مہر، میں ’فرقے‘ کی بجائے ’زمرے‘ ہے۔ ب س ک)

پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد

ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

غفلت دیوانہ جز تمہید آگاہی نہیں

مغز سر خواب پریشاں ہے سخن کی فکر میں

(دو ٹک)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

فتادگی میں قدم استوار رکھتے ہیں

برنگ جادہ سر کوئے یار رکھتے ہیں

طلسم مستی دل آں سوئے ہجوم سرشک

ہم ایک میکدہ دریا کے پار رکھتے ہیں

بساط ہیچ کسی میں برنگ ریگ رواں

ہزار دل بہ وداع قرار رکھتے ہیں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

خزینہ دار مسرت ہوئی ہوائے چمن

بنائے خندہ ءعشرت ہے بر بنائے چمن

صدائے خندہءگل تا قفس پہنچتی ہے

نسیم صبح سے سنتا ہوں ماجرائے چمن

گل ایک کاسہءدریوزہءمسرت ہے

کہ عندلیب نوا سنج ہے گدائے چمن

(خط کشیدہ: کاسہءدریوزہءمسرت)

بہار راہرو جادہءفنا ہے اسد

گل شگفتہ ہیں گویا کہ نقش پائے چمن

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کرم ہی کچھ سبب لطف و التفات نہیں

انہیں ہنسا کے رلانا بھی کوئی بات نہیں

زبان حمد کی خوگر ہوئی تو کیا حاصل

کہ تیری ذات میں شامل تری صفات نہیں

خوشی، خوشی کو نہ کہہ، غم کو غم نہ جان اسد

قرار داخل اجزائے کائنات نہیں

 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 اب منتظر شوق قیامت نہیں غالب

دنیا کے ہر اک ذرے میں سو حشر بپا ہیں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

وضع نیرنگی آفاق نے مارا ہم کو

ہو گئے سب ستم و جور گوارا ہم کو

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نے سرو برگ آرزو،نے رہ و رسم گفتگو

اے دل و جان خلق تو ہم کو بھی آشنا سمجھ

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

لگاﺅ اس کا ہے باعث قیام ہستی کا

ہوا کو لاگ بھی ہے کچھ مگر حباب کے ساتھ

ہزار حیف کہ اتنا نہیں کوئی غالب

جو جاگنے کو ملا دیوے آ کے خواب کے ساتھ

(دو ٹک)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ضبط جنوں سے ہر سر مو ہے ترانہ خیز

یک نالہ بیٹھیے تو نیستاں اٹھایئے

نذر خراش نالہ،سرشک نمک اثر

لطف کرم بدولت مہماں اٹھایئے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مجھے معلوم ہے جو تو نے میرے حق میں سوچا ہے

کہیں ہو جائے جلد اے گردش گردون دوںوہ بھی

(کتاب میں کتابت کی غلطی ہے۔’ گردوں وہ بھی‘ لکھا گیا ہے ۔ ناصر نے ’گردوں‘ میں نون کا نقطہ اور اس کے نیچے اضافت ڈال کے اوپر ’دوں‘ لکھا ہے۔ ب س ک )

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہے یاس میں اسد کو ساقی سے بھی فراغت

دریا سے خشک گزرے مستوں کی تشنہ کامی

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نظر بہ نقص گدایاں، کمال بے ادبی ہے

کہ خار خشک کو بھی دعوی چمن نسبی ہے

(خط کشیدہ: دعوی چمن نسبی )

امام ظاہر و باطن، امیرصورت و معنی

علی ، ولی، اسد اللہ، جانشین نبی ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

تاچند پست فطرتی طبع آرزو؟

یارب ملے بلندی دست دعا مجھے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہم زباں آیا نظر فکر سخن میں تو مجھے

مردمک ،ہے طوطی آئینہءزانو مجھے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

عاشق، نقاب جلوہءجانانہ چاہئے

فانوس شمع کو پر پروانہ چاہئے

ہے وصل، ہجر، عالم تمکین و ضبط میں

معشوق شوخ و عاشق دیوانہ چاہئے

پیدا کریں دماغ تماشائے سرو و گل

حسرت کشوں کو ساغر و مینا نہ چاہئے

دیوانگاں ہیں حامل راز نہان عشق

اے بے تمیزگنج کو ویرانہ چاہئے

ساقی بہار موسم گل ہے سرور بخش

پیماں سے ہم گذر گئے پیمانہ چاہئے

جادو ہے یار کی روش گفتگو اسد

یاں جز فسوں نہیں، اگر افسانہ چاہئے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جو کچھ ہے محو شوخی ابروئے یار ہے

آنکھوں کو رکھ کے طاق پہ دیکھا کرے کوئی

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بہت سہی غم گیتی شراب کم کیا ہے

غلام ساقی کوثر ہوں مجھ کو غم کیا ہے

کٹے تو شب کہیں، کاٹے تو سانپ کہلاوے

کوئی بتائے کہ وہ زلف خم بہ خم کیا ہے

جو حشر و نشر کا قائل نہیں کسی صورت

خدا کے واسطے، ایسے کی پھر قسم کیا ہے

( دیوان مہر اور دیوان کالی داس گپتا میں مصرع اولی یوں ہے: نہ حشر و نشر کا قائل، نہ کیش و ملت کا ۔ ب س ک )

سخن میں خامہءغالب کی آتش افشانی

یقیں ہے ہم کو بھی لیکن اب اس میں دم کیا ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہے عرض جوہر خط و خال ہزار عکس

لیکن ہنوز دامن آئینہ پاک ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہمیشہ مجھ کو طفلی میں بھی مشق تیرہ روزی تھی

سیاہی ہے مرے ایام میں لوح دبستاں کی

(خط کشیدہ: تیرہ روزی ،لوح دبستاں)

ہنر پیدا کیا ہے میں نے حیرت آزمائی میں

کہ جوہر آئینے کا ہر پلک ہے چشم حیراں کی

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 وہم غفلت مگر احرام فسردن باندھے

ورنہ ہر سنگ کے باطن میں شرر پنہاں ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

برنگ شیشہ ہوں یک گوشہءدل خالی

کبھی پری مری خلوت میں آ نکلتی ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

وہ دیکھ کے حسن اپنا مغرور ہوا غالب

صد جلوہءآئینہ یک صبح جدائی ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بہ پائے خامہءمو،طے رہ وصف کمر کیجے

کہ تار جادہءسر منزل نازک خیالی ہے

اسد اٹھنا قیامت قامتوں کا وقت آرائش

لباس نظم میں بالیدن مضمون عالی ہے

(دوسرے شعر پہ تین ٹک)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اسد بند قبا ئے یار ہے فردوس کا غنچہ

اگر وا ہو تو دکھلا دوںکہ یک عالم گلستاں ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یارب ہمیں تو خواب میں بھی مت دکھائیو

یہ محشر خیال کہ دنیا کہیں جسے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پھونکتا ہے نالہ ہر شب صور اسرافیل کی

ہم کو جلدی ہے مگر تونے قیامت ڈھیل کی

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نہاں ہے گوہر مقصود جیب خود شناسی میں

کہ یاں غواص ہے تمثال ،اور آئینہ دریا ہے

(خط کشیدہ: جیب خود شناسی)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پر افشاں ہو گئے شعلے ہزاروں

رہے ہم داغ اپنی کاہلی سے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اے غنچہءتمنا یعنی کف نگاریں

دل دے تو ہم بتا دیں مٹھی میں تیری کیا ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

رخسار یار کی جو کھلی جلوہ گستری

زلف سیاہ بھی شب مہتاب ہو گئی

غالب زبسکہ سوکھ گئے چشم میںسرشک

آنسو کی بوند گوہر نایاب ہو گئی

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 خبر نگہ کو نگہ چشم کو عدو جانے

وہ جلوہ کر کہ نہ میں جانوں اور نہ تو جانے

نفس بہ نالہ رقیب و نگہ بہ اشک عدو

زیادہ اس سے گرفتار ہوں کہ تو جانے

نہ ہووے کیونکہ اسے فرض قتل اہل وفا

لہو میں ہاتھ کے بھرنے کو جو وضو جانے

زباں سے عرض تمنائے خامشی معلوم

مگر وہ خانہ براندازگفتگو جانے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آرزوئے خانہ آبادی نے ویراں تر کیا

کیا کروں گر سایہءدیوار سیلابی کرے

Delhi Street Scene – 1875

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

شکل طاﺅس، گرفتار بنایا ہے مجھے

ہوں وہ گلدام کہ سبزے میں چھپایا ہے مجھے

(خط کشیدہ: گلدام)

پر طاﺅس، تماشا نظر آیاہے مجھے

ایک دل تھا کہ بصد چشم دکھایا ہے مجھے

حیرت کاغذ آتش زدہ ہے جلوہءعمر

تہ خاکستر صد آئینہ پایا ہے مجھے

لالہ و گل بہم آئینہءاخلاق بہار

ہوں میں وہ داغ کہ پھولوں میں بسایا ہے مجھے

بے دماغ تپش و عرض دو عالم فریاد

ہوں میں وہ خاک کہ ماتم میں اڑایا ہے مجھے

جام ہر ذرہ ہے سرشار تمنا مجھ سے

کس کا دل ہوں کہ دو عالم سے لگایا ہے مجھے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

گدائے طاقت تحریر ہے زباں تجھ سے

کہ خامشی کو ہے پیرایہءبیاں تجھ سے

اسد بہ موسم گل در طلسم کنج قفس

خرام تجھ سے، صبا تجھ سے، گلستاں تجھ سے

( دیوان مہر اور دیوان کالی داس گپتا میں مصرع اولی یوں ہے:اسد طلسم قفس میں رہے، قیامت ہے! ب س ک)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یونہی افزائش وحشت کے جو ساماں ہوں گے

دل کے سب زخم بھی ہم شکل گریباں ہوں گے

گردش بخت نے مایوس کیا ہے لیکن

اب بھی ہر گوشہءدل میں کئی ارماںہوں گے

باندھ کر عہد وفا اتنا تنفر؟ ہے ہے

تجھ سے بے مہر کم اے عمر گریزاں ہوں گے

اس قدر بھی دل سوزاں کو نہ جان افسردہ

ابھی کچھ داغ تو اے شمع ،فروزاں ہوں گے

خوگر عیش نہیں ہیں ترے برگشتہ نصیب

ان کو دشوار ہیں وہ کام جو آساں ہوں گے

موت پھر زیست نہ ہو جائے یہ ڈر ہے غالب

وہ مری نعش پہ انگشت بہ دنداں ہوں گے

(کتاب میں ’دنداں‘ کی بجائے ’خنداں‘ چھپا ہے لیکن ناصر نے اسے انڈرلائن کر کے اس کے نیچے ’دنداں‘ لکھا ہے۔ دیوان مہر اور دیوان کالی داس گپتا میںبھی ’دنداں‘ ہے۔ ب س ک )

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بھولے ہوئے جو غم ہیں انہیں یاد کیجیے

تب جا کے ان سے شکوہءبیداد کیجیے

حالانکہ اب زباں میں نہیں طاقت فغاں

پر دل یہ چاہتا ہے کہ فریاد کیجیے

بس ہے دلوں کے واسطے اک جنبش نگاہ

اجڑے ہوئے گھروں کو پھر آباد کیجیے

کچھ دردمند منتظر انقلاب ہیں

جو شاد ہو چکے انہیں ناشاد کیجیے

بیگانہءرسوم جہاں ہے مذاق عشق

طرز جدید ظلم کچھ ایجاد کیجیے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

درد ہو دل میں تو دوا کیجے

دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے

ہم کو فریاد کرنی آتی ہے

آپ سنتے نہیں تو کیا کیجے

رنج اٹھانے سے بھی خوشی ہوگی

پہلے دل درد آشنا کیجے

دشمنی ہو چکی بقدر وفا

اب حق دوستی ادا کیجے

موت آتی نہیں کہیں غالب

کب تک افسوس زیست کا کیجے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

حصہ دوم

[ڈیش (۔) لگے ہوئے اشعار]

تنگی رفیق رہ تھی عدم یا وجود تھا

میرا سفر بہ طالع چشم حسود تھا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اصطلاحات اسیران تغافل مت پوچھ

جو گرہ آپ نہ کھولی اسے مشکل باندھا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

انداز نالہ یا د ہیںسب مجھ کو پر اسد

جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا

 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اے آبلہ کرم کر ،یاں رنجہ اک قدم کر

اے نور چشم وحشت ،اے یادگار صحرا

( نسخہءعرشی اوردیوان کالی داس گپتا میں ’اے آبلہ‘ کی بجائے’اے آبلے‘ہے اور عرشی، مہر اور گپتا، تینوں کے ہاں ’اک قدم‘ کی بجائے ’یک قدم‘ ہے۔ ب س ک)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نہ پوچھ حال شب و روز ہجر کا غالب

خیال زلف و رخ دوست صبح و شام رہا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہزار آفت و یک جان بے نوائے اسد

خدا کے واسطے اے شاہ بیکساں فریاد

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہو ندامت، آشنائے عشق ممکن ہی نہیں

فکر ایجاد گریباں ذوق عریانی بغیر

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

زبسکہ جلوہءصیاد حیرت آرا ہے

اڑی ہے صفحہءخاطر سے صورت پرواز

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آئی یک عمر سے معذور تماشا نرگس

چشم شبنم میں نہ ٹوٹا مژہءخار ہنوز

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

غالب، ہے رتبہ فہم تصور سے کچھ پرے

ہے عجز بندگی جو علی کو خدا کہوں

(نسخہءعرشی اور کالی داس گپتا کے دیوان غالب میں مصرع ثانی یوں ہے:ہے عجز بندگی کہ علی کو خدا کہوں۔ ب س ک)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نے سبحہ سے علاقہ نہ ساغر سے واسطہ

میں معرض مثال میں دست بریدہ ہوں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہووے ہے جادہءرہ، رشتہءگوہر ہر گام

جس گذرگاہ میں میں آبلہ پا جاتا ہوں

(دیوان کالی داس گپتا میں ’گذرگاہ میں‘ کی بجائے ’گذرگاہ سے‘ ہے۔ ب س ک)

سرگراں مجھ سے سبک رو کے، نہ رہنے سے رہو

کہ بیک جنبش لب، مثل صدا جاتا ہوں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اے نوا ساز تماشا سر بکف جلتا ہوں میں

اک طرف جلتا ہے دل اور اک طرف جلتا ہوں میں

(نسخہءعرشی اور دیوان کالی داس گپتا میں ’اک طرف‘ کی بجائے ’یک طرف‘ ہے۔ ب س ک)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نگاہ دیدہءنقش قدم ہے جادہءراہ

گزشتگاں، اثر انتظار رکھتے ہیں

جنون فرقت یاران رفتہ ہے غالب

بسان دشت، دل پر غبار رکھتے ہیں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہے وطن سے باہر اہل دل کی قدرومنزلت

عزلت آباد صدف میں قیمت گوہر نہیں

(خط کشیدہ: عزلت آباد صدف ۔ حاشیے میں میر لکھا ہے)

ہے فلک بالا نشین فیض خم گردیدنی

عاجزی سے ظاہرارتبہ کوئی برتر نہیں

کب تلک پھیرے اسد لب ہائے تفتہ پر زباں

طاقت لب تشنگی اے ساقی کوثر نہیں

(نسخہءعرشی اور دیوان کالی داس گپتا میں ’طاقت لب تشنگی‘ کی بجائے ’تاب عرض تشنگی‘ ہے۔ ب س ک)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ نغمہ سنجی بلبل متاع زحمت ہے

کہ گوش گل کو نہ راس آئے گی صدائے چمن

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کہاں سے لاکے دکھائے گی عمر کم مایہ

سیہ نصیب کو وہ دن کہ جس میں رات نہیں

(خط کشیدہ: عمر کم مایہ)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جوں شمع ہم اک سوختہ سامان وفا ہیں

اور اس کے سوا کچھ نہیں معلوم کہ کیا ہیں

جس رخ پہ ہوں ہم، سجدہ اسی رخ پہ ہے واجب

گو قبلہ نہیں ہیں مگر اک قبلہ نما ہیں

ہر حال میں ہیں مرضی صیاد کے تابع

ہم طائر پر سوختہءرشتہ بہ پا ہیں

ہم بے خودی و شوق میں کر لیتے ہیں سجدے

یہ ہم سے نہ پوچھو کہ کہاں ناصیہ سا ہیں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

عجز ہی اصل میں تھا حامل صد رنگ عروج

ذوق پستی مصیبت نے ابھارا ہم کو

صور محشر کی صدا میں ہے فسون امید

خواہش زیست ہوئی آج دوبارا ہم کو

( مصرع ثانی پورا خط کشیدہ)

تختہ گور سفینے کے مماثل ہیں اسد

بحر غم کا نظر آتا ہے کنارا ہم کو

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہم عشق فکر وصل و غم ہجر سے اسد

لائق نہیں رہے ہیں غم روزگار کے

(عرشی، مہر اور گپتا، تینوں کے ہاں ’عشق ‘ کی بجائے ’ مشق‘ ہے۔ ب س ک)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

عرض سرشک پر ہے فضائے زمانہ تنگ

صحرا کہاں کہ دعوت دریا کرے کوئی

وہ شوخ اپنے حسن پہ مغرور ہے اسد

دکھلا کے اس کو آئینہ توڑا کرے کوئی

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

خدایا کس قدر اہل نظر نے خاک چھانی ہے

کہ ہیں صد رخنہ ،جوں غربال ،دیواریں گلستاں کی

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مرا دل مانگتے ہیں عاریت اہل ہوس، شاید

یہ جانا چاہتے ہیں آج دعوت میں سمندر کی

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کیا ہے ترک دنیا کاہلی سے

ہمیں حاصل نہیں بے حاصلی سے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اشک ہے آسائش ارباب غفلت پر اسد

پیچ و تاب دل، نصیب خاطر آگاہ ہے

(عرشی، مہر اور گپتا، تینوں نے ’اشک ‘ کی بجائے ’رشک‘ لکھا ہے۔ ب س ک)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جس جگہ ہو مسند آرا جانشین مصطفی

اس جگہ تخت سلیماں نقش پائے مور ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

فکر سخن، بہانہءپرداز خامشی

دود چراغ، سرمہ ءآواز ہے مجھے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

عجز و نیاز سے تو نہ آیا وہ راہ پر

دامن کو اس کے آج حریفانہ کھینچیے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

وہ تشنہءسرشار تمنا ہوں کہ جس کو

ہر ذرہ بہ کیفیت ساغر نظر آوے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

وقار ماتم شب زندہ دار ہجر رکھنا تھا

سپیدی صبح غم کی دوش پر رکھ کر کفن لائی

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

حصہ سوم

(صرف خط کشیدہ الفاظ یا حاشیے میں تحریر والے اشعار)

بسکہ عاجز نارسائی سے کبوتر ہو گیا

صفحہءنامہ، غلاف بالش پر ہو گیا

(خط کشیدہ: کبوتر)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بیگانہءوفا ہے ہوائے چمن ہنوز

وہ سبزہ رنگ پر نہ اگا، کوہ کن، ہنوز

( مصرع اولی پورا خط کشیدہ)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہے تماشاگاہ سوز تازہ، ہر یک عضو تن

جوں چراغان دوالی صف بہ صف جلتا ہوں میں

(خط کشیدہ : چراغان دوالی۔ حاشیے میں دوالی لکھا ہے۔)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

دیکھئے مت چشم کم سے سوئے ضبط افسردگاں

جوں صدف پردر ہیں، دنداںدر جگر افشردگاں

(خط کشیدہ: ’چشم کم‘ اور’ جوں‘؛ حاشیے میں میر لکھا ہے)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

واسطے فکر مضامین متیں کے غالب

چاہیے خاطر جمع و دل آرامیدہ

(خط کشیدہ: فکر مضامین متیں)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

تا تخلص جامہءشنگرفی ارزانی اسد

شاعری جز ساز درویشی نہیں، حاصل نہ پوچھ

( مصرع ثانی پورا خط کشیدہ)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نغمہ بیدلی اسد ساز فسانگی نہیں

بسمل درد خفتہ ہو، گریہءماجرا سمجھ

(خط کشیدہ: ساز فسانگی)

(نسخہءعرشی اور دیوان کالی داس گپتا میں یہ شعر یوں ہے:

نغمہ بیدلاں، اسد، ساز فسانگی نہیں

بسمل درد خفتہ ہوں، گریے کو ماجرا سمجھ

ب س ک)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

خانماں ہا، پائمال شوخی دعوی اسد

سایہءدیوار، سیلاب درودیوار ہے

( مصرع ثانی پورا خط کشیدہ)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کجا مے؟ کو عرق؟ سعی عروج نشہ رنگیں تر

خط رخسار ساقی، تا خط ساغر چراغاں ہے

( مصرع ثانی پورا خط کشیدہ)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

خواب جمعیت مخمل ہے پریشاں مجھ سے

رگ بستر کو ملی شوخی مژگاں مجھ سے

( دوسرا مصرع پورا خط کشیدہ)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مدعا در پردہ یعنی جو کہوں باطل سمجھ

وہ فرنگی زادہ کھاتا ہے قسم انجیل کی

(خط کشیدہ: وہ فرنگی زادہ)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اسد گر نام والائے علی تعویذ بازو ہو

غریق بحر خوں، تمثال در آئینہ رہتا ہے

( مصرع ثانی پورا خط کشیدہ)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

خرابات جنوں میں ہے اسد وقت قدح نوشی

بعشق ساقی کوثر، بہار بادہ پیمائی

( مصرع اولی پورا خط کشیدہ)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہے خامہ فیض بیعت بیدل بکف اسد

یک نیستاں قلم رو اعجاز ہے مجھے

(خط کشیدہ: بیعت بیدل بکف)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نگاہ یار نے جب عرض تکلیف شرارت کی

دیا ابرو کو چھیڑ اور اس نے فتنے کو اشارت کی

(حاشیے میں نوٹ: زمین میر)

(نسخہءعرشی اور دیوان کالی داس گپتا میں ’نگاہ یار‘ کی بجائے’نگاہ ناز‘ ہے۔ ب س ک)

دیدار دوستان لباسی ہے ناگوار

صورت بہ کارخانہءدیبانہ کھینچیے

(خط کشیدہ: دوستان لباسی)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جوش فریاد سے لوں گا دیت خواب اسد

شوخی نغمہءبیدل نے جگایا ہے مجھے

(خط کشیدہ: شوخی نغمہءبیدل)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہر غنچہ اسد بارگہ شوکت گل ہے

دل فرش رہ ناز ہے بیدل اگر آوے

(خط کشیدہ: بارگہ شوکت گل)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کتابیات

1۔ دیوان غالب (نسخہءعرشی)۔ مرتبہ امتیاز علی خان عرشی۔ مجلس ترقی ادب، لاہور، طبع دوم۔ 2011

2۔ دیوان غالب۔ مرتبہ مولانا غلام رسول مہر۔ شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور۔( س ن)

3۔ دیوان غالب (کامل)۔ مرتبہ، کالی داس گپتا رضا۔ انجمن ترقی اردو، پاکستان، اشاعت چہارم۔2012

4۔ مکمل شرح دیوان غالب۔ از عبدالباری آسی۔ صدیق بک ڈپو، لکھنﺅ۔ 1931 (ریختہ ڈاٹ کوم)

5۔ نوائے سروش (مکمل دیوان غالب مع شرح )۔ از غلام رسول مہر، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور۔( س ن)

6۔ نے ناشنیدہءغالب۔ مرتبہ، اکبر رضا جمشید۔ پٹنہ۔ 1969

(بشکریہ کتابی سلسلہ ’کولاژ‘ 11 ، کراچی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments