پانچ دریاؤں کی سرزمین سے پانچ قومیتوں کی مخالفت تک


پنجابی زبان کے لفظ پنج اور فارسی زبان کے لفظ آب سے ملکر بننے والا لفظ پنجاب، پنجابی اور فارسی زبانوں کے ملاپ کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ قیام پاکستان کے کچھ ہی عرصہ بعد پاکستان میں شامل اکائیوں کے درمیان چھوٹے موٹے اختلافات پیدا ہونا شروع ہو گئے۔ اگر یہ اختلافات مثبت مقابلے اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور ملکی تعمیر کے جذبے سے سرشار ہوتے تو ملک کے لئے خیر کا باعث ثابت ہو سکتے تھے۔ لیکن صد افسوس کہ چند سیاسی گھرانوں کے ذاتی مفادات نے ان اختلافات کو ملکی مفاد کی بجائے اپنے لالچ اور حرص کی جنگ بنا دیا۔

ملکی وسائل کی غیر مساوی اور کسی حد تک غیر منصفانہ تقسیم اور حکومتی رویے کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ غریب اور پسماندہ علاقوں میں احساس محرومی بڑھتا چلا گیا۔ اور کچھ مفاد پرست عناصر نے اسے مزید ہوا دی۔ وطن عزیز میں طاقت کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کو یہ بات سمجھنی پڑے گی کہ اگر طاقت اور اسلحہ کی بنا پر ملکی وحدت قائم رہ سکتی تو روس جیسی سپر پاور کا شیرازہ نہ بکھرتا۔

پاکستان میں ملکی وسائل کا آئینی اور قانونی طریقہ NFC Award، نیشنل فائنانس کمیشن ایوارڈ ہے، جس کے مطابق وفاق کا حصہ 42.5 ٪ اور صوبوں کا حصہ 57.5 ٪ ہے۔ سنہ 2010 تک این ایف سی کا فارمولہ صرف اور صرف آبادی کی بنیاد پر تھی، جس کا مطلب تھا کہ ملکی وسائل کا زیادہ حصہ پنجاب کو ملتا تھا۔ لیکن 2010 میں اس فارمولے پہ نظرثانی کی گئی اور صرف اور صرف آبادی کی بجائے تین بنیادی نکات کی بنیاد پہ وسائل کی تقسیم کا فارمولہ طے ہوا۔

1۔ آبادی کی بنیاد پہ حصہ 82 فیصد۔

2۔ غربت اور پسماندگی کی بنیاد پہ حصہ 10.3 فیصد۔

3۔ ریوینیو اور ٹیکس کولیکشن کی بنیاد پہ 2.7 فیصد۔

4۔ آبادی کی الٹ کثافت (d Inverse Population Density) کی بنیاد پہ 5 فیصد۔

ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں پنجاب نے اپنے حصے کا 5.62 فیصد باقی صوبوں کے لئے وقف کر دیا۔ لیکن اس کے باوجود 82 فیصد حصہ چونکہ آبادی کی بنیاد پر ملنے کی وجہ سے حصہ باقی صوبوں سے کہیں زیادہ ہے۔

مالی وسائل کے تقسیم کے بعد اگلا نمبر آتا ہے قومی اسمبلی میں نشستوں کا، کل 272 جنرل نشستوں میں سے صرف پنجاب سے قومی اسمبلی کی 148 نشستیں ہیں۔ جبکہ بلوچستان 14، خیبر پختونخواہ 35 اور سندھ کی 61 نشستیں ہیں۔ یعنی کہ باقی تینوں صوبوں سے کلین سوئیپ کرنے کے باوجود کوئی پارٹی حکومت نہیں بنا سکتی جب تک اسے پنجاب سے سپورٹ حاصل نا ہو۔ اس عنصر نے بھی پنجاب مخالف نظریات کو مزید ہوا دی۔ اور یوں وقت کی بے رحم موجوں نے پانچ دریاؤں کی سرزمین، سونا اگلتے کھیتوں اور سادہ لوح جاٹوں کی زمین کو ملک بھر کی باقی قومیتوں کی مخالفت اور نفرت کا نشانہ بنا دیا۔ عام پاکستانی چاھے پنجاب سے ہو یا سندھ اور بلوچستان سے ملک کی مقتدرہ کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا لیکن اس کے باوجود اس نفرت اور مخالفت کا شکار عام پاکستانی ہی ہوتا ہے۔

اگر مشرقی پنجاب (انڈین پنجاب) کی بات کی جائے تو وہ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے پاکستانی پنجاب سے چھوٹا ہونے کے باوجود تین صوبوں میں تقسیم ہو چکا لیکن ہمارے ہاں کچھ لوگوں کا اکھنڈ پنجاب والا کیڑا انہیں چین نہیں لینے دے رہا۔ اگر پنجاب کو کو تین سے چار صوبوں میں تقسیم کر دیا جائے ملکی وسائل کا 60 فیصد لوٹ لینے کے الزام سے پنجاب کو مکتی مل جائے گی۔ عین ممکن ہے سینٹرل پنجاب کے حصے میں مجموعی آمدن کا 25 سے 30 فیصد آئے جو کہ بمشکل سندھ کے برابر حصہ بنے گا۔ 20 سے 25 فیصد سرائیکی صوبہ اور 15 سے 20 فیصد پوٹھوھار کے حصے میں آئے گا۔ بالکل اسی طرح قومی اسمبلی کی 42 سے 45 سیٹیں سرائیکی صوبہ جبکہ 20 سے 25 سیٹیں پوٹھوھار جبکہ 80 سے 85 سیٹیں پنجاب کے حصے میں آئیں گی جس سے یہ تاثر بھی ختم ہو جائے گا کہ ایوان اقتدار کا رستہ تخت لاھور سے ہو کر گزرتا ہے۔

آج کا پاکستانی دو راھے پر کھڑا ہے، عجیب کنفیوژن کا شکار ہے اسے یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اس نے ملک کے لئے بات کرنی ہے اپنے علاقے اور لسانیت کی بنیاد پہ جدوجہد کرنی ہے۔ بطور پاکستانی ہمیں یہ بات سمجھنی پڑے گی کہ ملکی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ہر شہری اپنی اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھائے، کوئی بھی قوم ایک اکائی کی طرح ہوتی ہے چنانچہ اسے مضبوط اور منظم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہر شخص دوسرے کی حقوق کا خیال رکھے اور ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments