گھاس کھا کر بھی مسیحاوں کو بچائیے


اس وقت وطن عزیز کرونا وائرس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا پوا ہے۔ دنیا کی ایک بہت بڑی آبادی کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ ہمارے حکمران اس آفت سے نبرد آزما ہونے کے قابل نہیں، وزیراعظم قوم سے خطاب میں اس کا برملا اظہار بھی کر چکے ہیں (اس کے کتنے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں یہ ایک الگ بحث ہے ) ۔

اب ایک ایسی وبا پھیل چکی ہے جس کا علاج دنیا بھر میں نہیں تو کم از ان ممالک کی تقلید ہی کر لینی چاہیے جو ہم سے زیادہ بہتر اس صورتحال کو سمجھ سکتے ہیں مگر حکومت کوئی فیصلہ نہیں کر پارہی۔

ہمارے تاجروں کا یہ حال ہے کہ ماسک، سینیٹائزرس اور جراثیم کش ادویات سے لے کر پیناڈول تک ہر چیز کی قیمت میں چار سو سے 6 سو فیصد اضافہ کردیا گیا ہے۔

منتخب نمائندے اس وقت بھی حکومت کی طرف سے فراہم کردہ صابن، ماسک، سینیٹائزر اور دیگر اشیاء من پسند لوگوں کو دینے کے فوٹوسیشن کر کے باقی سامان بیچ رہے ہیں۔

اب ذرا ہسپتالوں کی حالت زار کا جائزہ لیجیے، جہاں سہولیات کا فقدان ایک عفریت کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اگر میں صرف سندھ کی بات کروں تو پی ڈی ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق سرکاری اور نجی ہسپتالوں کو ملاکر چالیس ہزار مریضوں کو بیڈ فراہم کیے جا سکتے ہیں، جبکہ پورے صوبے میں چھے سو وینٹیلیٹرز موجود ہیں، (قابل استعمال کتنے ہیں کچھ پتہ نہیں ) ان میں سے بھی اس وقت کوئی فارغ نہیں ہے۔

ایک طرف تو آئسولیشن اور لاک ڈاؤن کے بعد نوبت کرفیو تک آن پہنچی ہے۔ سبب یہ کہ اس سے وائرس کو پھیلنے سے روکا جائے۔ دوسری طرف خطرناک صورتحال ہسپتالوں کی ہے، جہاں ڈاکٹرز اور طبی عملہ کو عالمی معیار کے سہولیات تو کجا اپنی حفاظت کے لئے پرسنل پروٹیکشن اکوپمنٹس PPE فراہم نہیں کیے جا رہے جن سے طبی ماہرین اور عملے کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ ایک ڈاکٹر صاحب اپنی جان دے چکے ہیں، کافی وائرس کا شکار ہیں جبکہ اچھی خاصی تعداد قرنطینہ میں ہے۔ نہ صرف اتنا بلکہ ڈاکٹرز اور طبی عملہ اس وائرس کا شکار ہو کر ایسے لوگوں کو بھی وائرس منتقل کر رہا ہے جو قرنطینہ میں ہیں یا ٹیسٹ کروانے کے لئے ہسپتالوں کا رخ کر رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ تیماداری یا طبی عملے سے آف ڈیوٹی میل ملاپ میں رہنے والے، گھر کے افراد اور اہل محلہ بھی اس مصیبت میں دھنستے جا رہے ہیں۔

بتایا یہ جارہا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں PPE کا اسٹاک ختم ہو چکا ہے، مارکیٹ میں دستیاب آخری اسٹاک متحدہ عرب امارات خرید کر چکا ہے۔ چلیے اسٹاک نہیں تو کچھ وقت میں نیا اسٹاک آ ہی جائے گا مگر کیا پاکستان اب بھی آرڈر کرنے کی تیاری کر رہا ہے؟ تو اس کا جواب بھی آئیں بائیں شائیں ہی پے۔

اس وقت ڈاکٹرز اور طبی عملہ ملک کے لئے فرنٹ لائن پر جنگ لڑ رہے ہیں، جس میں ڈاکٹر اسامہ شہید ہو چکے ہیں، کئی زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کی حفاظت اتنی ہی ضروری ہے جتنی فرنٹ لائن کے سپاہی کی ہوتی ہے۔

اگر خدانخواستہ مشرقی سرحدوں پر تناؤ ہوتا تو بہت سارے قلمی اور تجزیاتی مجاہدین گلا پھاڑ پھاڑ کر مطالبہ کر رہے ہوتے کہ سارا بجٹ دفاع کے لئے وقف کیا جائے، گھاس کھا کر جنگی ساز وسامان خریدا جائے اور بھی بہت کچھ۔ میں یہاں پر نہ تو یہ مطالبہ کر رہا ہوں کہ ڈاکٹرز کے لئے ہاؤسنگ سوسائیٹیز بنائیے، نہ یہ کہ ان کے لئے ڈاکٹرز فاونڈیشن ٹرسٹ بنائیے نہ ہی کوئی اور مطالبہ ہے، گزارش صرف اتنی ہے کہ ایک ایسی جنگ جو کہ دوسری عالمی جنگ سے بھی زیادہ سنگین ہے، انسانی جانوں کو بچانے کی کوشش کرنے والے ڈاکٹرز اور طبی عملہ کو بچانے کے لیے مکمل انتظامات کیجئے، بھلے قوم کو گھاس کھلائیے مگر اپنے مسیحاوں کو بچائیے۔ ایسا نہ ہو کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments