کرونا کا سنگ میل: تاریخ کا بدلتا دھارا


نادیدہ کرونا وائرس نے تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ دیا ماہرین سماجیات ششدر بتا رہے ہیں کہ 2020 انسانی تاریخ کا ایسا سنگ میل بن جائے گا جب تاریخ کا تعین قبل از مسیح یا بعد از مسیح کے سنہ عیسوی کی بجائے کرونا کی آمد سے پہلے کی دنیا اور کرونا تباہی کے بعد کی کائنات سے کیا جایا کرے گا

‏Before Christ یا After Christ

کی بجائے قبل از کرونا یا بعد از کرونا کا نیا سنگ میل! وقت کے تعین کے لئے استعمال کیا جایا کرے گا

اب کرونا کی ہلاکت آفرین آمد انسانیت کے لئے نیا نشان منزل بن رہی ہے

دانش مغرب کی علامت ’کالم نگار ‎تھامس ایل فریڈ مین نے نیویارک ٹائمز میں‘ ہماری نئی تاریخی تقسیم ’کے عنوان سے لکھا ہے جس میں‘ قبل مسیح ’ (اے سی اور بی سی) کو‘ قبل کورونا ’اور‘ بعداز کورونا ’کا نیا نام دیا ہے۔ انہوں نے کورونا کی آمد سے قبل اور بعد کی دنیا کے فرق کو بیان کیا ہے

کورونا نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ مغرب ومشرق، شمال وجنوب میں انسانوں کے بہتے آنسو ’چاروں اور، اس کی بے بسی کا نوحہ پڑھ رہے ہیں۔ کرونا کی خاموش ہلاکت خیزی نے عالمی سطح پر قیامت برپا کردی ہے اور قرب قیامت کی تمام نشانیاں اور اس سے جڑے واقعات کسی فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے آشکار ہوچکے ہیں۔ لیکن یہ فلم نہیں یہ دردناک حقیقت ہے جس کی ہر روز ایک نئی سے نئی پرت کھل کر سامنے آرہی ہے۔ دنیا کے گرد سٹیلائٹس کے گھیراؤ سے پیدا ہونے والی برقی لہروں اور دیگر سائنسی تاویلات سے لے کر اللہ کے عذاب تک دلائل کا انبار ہے۔ الامان الحفیظ کہ انسانیت کا ایسا منظر میدان حشر کی روح اور جسم کو ادھیڑ دینے والی کیفیت دکھا رہا ہے۔

جس طرح کورونا وائرس کے جراثیموں کے گروہ، ایک جتھے کا نام ہے، اسی طرح ایک سے ایک نئی تاویل اس مرض سے جنم لے رہی ہے۔ ہر کوئی اسے اپنی آنکھ، اپنی سمجھ، اپنی عینک سے دیکھ رہا ہے۔ آج کی صورتحال اور عالمی سطح پر بھانت بھانت کی بولیوں کو دیکھ کر بے ساختہ جنگل میں گئے ان اندھوں کا قصہ یاد آگیا ہے جنہیں ہاتھی دیکھنے اور اس کی ہئیت جاننے کا شوق تھا۔ جس اندھے کے ہاتھ میں سونڈ آئی اس نے پکارا کہ یہ رسی یا سانپ کی طرح کا ہے، ایک کے ہاتھ میں کان آیا تو اس نے تردید کرتے ہوئے گواہی دی کہ نہیں یہ تو مختلف ہے، تیسرے کے ہاتھ ٹانگ تھی، اس لئے اس نے ہاتھی کو گول قرار دیا جبکہ چوتھے نے تینوں کو جھٹلاتے ہوئے ہاتھی کو دیوار کی مانند بیان کیا کیونکہ اس کے ہاتھ اس کے پیٹ سے ٹکرائے تھے۔

لیکن ان سب دلائل، مباحث اور زور بیان میں ایک حیقیقت بڑی دردناک ہے کہ درباری مولوی طارق جمیل سے لے کر اٹلی کے وزیراعظم تک سب کے بہتے آنسو اس وبا کے ہاتھوں انسانوں کی بے بسی کی داستان بیان کررہے ہیں۔

ترک صدر طیب اردگان کی یہ پکار بھی کلیجہ چیردینے والی ہے۔ صدر اردگان نے دعا کی ہے کہ یا اللہ ہمارے میناروں اور مساجد سے اپنی کبریائی کی آواز بند نہ فرما۔ ہماری جبینوں کو اپنی بارگاہ میں جھکنے کی عزت سے محروم نہ فرما۔ ہمارے گھروں، محلوں، شہروں کو ویران نہ فرما۔

ہمارے ایسے بھی آتش بیان، پیشگوئیاں کرتے اور جبہ ودستار سے آراستہ مہربان موجود ہیں جو کبوتر کے پوٹے کی جھلی سے کورونا کو ختم کرنے کے اعلانات کررہے ہیں، ایک ایسے مولوی صاحب کا بیان بھی دیکھا جو اپنے پیروکاروں کو فرما رہے تھے کہ آپ کو کچھ ہوا تو مجھے چوک میں پھانسی دے دی جائے۔ مولانا طارق جمیل نے ٹی وی پر رقت آمیز دعا کرائی۔ اللہ تعالی ان کی دعا قبول فرمالے لیکن ایک سوال لوگ یہ ضرور پوچھ رہے ہیں کہ حضرت جس جماعت کے اکابر میں شمار ہوتے ہیں، اس کے اجتماع کے نتیجے میں کچھ افراد کے متاثر ہونے کا ذمہ دار کسے ٹھرایا جائے؟

ہمارے مقابلے میں ہندوستان میں جو ڈرامہ چل رہا ہے، وہ جہالت کے تمام ہی ریکارڈ توڑ چکا ہے۔ ”گائے موتر“ یعنی پیشاب کو کورونا کا مجرب علاج بتایا جارہا ہے۔ ایک شخص کو پکڑا گیا جو ”گاؤ موتر“ اور گوبر بیچ رہا تھا کہ یہ کرونا سے محفوظ رہنے اور اس کے علاج کا تیر بہدف نسخہ ہے۔

لیکن مغرب میں اس معاملے پر آراءاور دلائل کا انداز علمی اور سائنسی نوعیت کا ہے۔ جو مشرق اور مغرب میں عوام، محقیقین کے فرق کو بھی نمایاں کرتا ہے اور سازشی نظریات کو نئے انداز سے بیان کرتا ہے۔

نوے کی دہائی میں سابق عراقی صدرصدام کے حوالے سے بھی سوشل میڈیا پر ایک کلپ وائرل ہے جس میں دعوی کیا گیا کہ امریکہ نے عراق پر کورونا وائرس کے حملے کی دھمک دی تھی۔

یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ جس وائرس نے 2020 ءمیں دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اس کے بارے میں بل گیٹس کو 2015 ءمیں کیسے پتہ تھا؟

2015 ءمیں بل گیٹس نے ایک لیکچر میں شرکاءکو ایٹمی دھماکے کی تصویر دکھاتے ہوئے یہ بات کہی تھی کہ اگر دنیا میں تباہی ہوئی تو اس کی شکل اس طرح کی نہیں ہوگی اور پھر کورونا وائرس کی تصویر دکھاتے ہوئے کہاتھا کہ تباہی کی شکل اس مرتبہ ایسی ہوگی۔ مائکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس نے یہ بھی کہاتھا کہ اگلے دس سال میں اگر ایک کروڑ سے زائد لوگوں کو کوئی چیز ہلاک کرسکتی ہے تو وہ ایک مہلک وائرس ہوگا، یہ جنگ نہیں ہوگی۔ یہ میزائل نہیں ہوں گے بلکہ مائیکروبز ہوں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم اگلی عالمی وباءکے لئے تیار نہیں۔

بل گیٹس کے مطابق یہ ایبولا کی طرز کا کوئی وائرس یا پھر حیاتیاتی جراثیمی حملہ ہوسکتا ہے۔ 1918 ءسپین کے زکام کی طرز پر پوری دنیا میں انتہائی تیزی سے پھیل جائے جس سے ماضی میں تین کروڑ لوگ لقمہ اجل بن گئے تھے۔

ایک اور امریکی محقق ڈاکٹر تھامس کوآن نے 1918 ءکے سپین کے زکام کے حوالے سے ایک نیا انکشاف کرکے نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ صحت سے متعلق ایک کانفرنس میں ان کا موقف تھا کہ دنیا میں ریڈیو ایکٹو یا برقی ومقناطیسی لہروں کے نتیجے میں انسانی خلیوں اور جسم کی اندرونی ساخت پر گہرے اور انتہائی مضر اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ان کے تجزیہ کے مطابق دنیا میں جتنی تیزی سے سٹلائٹ اور دیگر برقی آلات کے نتیجے میں برقی ومقناطیسی لہروں کا جال بچھ گیا ہے، یہ انسان کے اندر کے نظام کو توڑ پھوڑ رہا ہے۔

ڈاکٹر تھامس کوآن کا کہنا ہے کہ وائرس دراصل خلیے کے خود کو گندگی سے پاک کرنے کے عمل کا نتیجہ ہے۔ یہ خلیے کا کچرا ہوتے ہیں۔ ان کی دلیل ہے کہ 1918 میں جب سپین کا زکام پھیلا تھا تو ریڈیو ایکٹو لہروں کا اجرا ہوا تھا، یہی وجہ تھی کہ ان لہروں کا دور دراز علاقوں میں بھی بہت جلد ہوا تھا حالانکہ سفر کے ذرائع انتہائی سست رفتار تھے۔ یہی وجہ تھی کہ سپین کے زکام کے نام سے یہ تاریخ میں مشہور ہونے والی یہ وباءپوری دنیا میں دیکھتے ہی دیکھتے پھیل گئی تھی۔ ان کے تجزئیے کے مطابق دنیا میں جب ریڈار ٹیکنالوجی شروع ہوئی تو ہانگ کانگ میں زکام کی وباءپھیلی تھی۔

انہوں نے اپنے نظریے یا تحقیق کے حق میں یہ دلچسپ حقیقت بھی بیان کی ہے کہ کورونا وائرس کی تازہ عالمی وباءدنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والے بیس ہزار سٹلائٹ ہیں جن کے ذریعے دنیا فائیو جی ٹیکنالوجی کی جدید ترین سہولت سے فیض یاب ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کورونا وائرس جس شہر ووہان سے پھیلا ہے وہ دنیاکا پہلا فائیو جی شہر تھا۔ انہی مقناطیسی شعاعوں کا اثر ہے کہ یہ دنیا بھر میں اتنی تیزی سے پھیلا ہے کیونکہ ہر شخص ان لہروں کی زد میں ہے اور موبائل تو ہر جیب میں موجود ہے۔ ڈاکٹر تھامس کوآن کے مطابق اس وقت دنیا میں انسان کے طورپر زندہ رہنا مشکل ہے اور اس ضمن میں روحانیت سے ناتا جوڑنا ہوگا کیونکہ روحانیت ہی آپ کو انسان بناتی ہے۔

تھامس ایل فریڈ مین نے نیویارک ٹائمز میں ’ہماری نئی تاریخی تقسیم‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا ہے جس میں ’قبل مسیح‘ (اے سی اور بی سی) کو ’قبل کورونا‘ اور ’بعداز کورونا‘ کا نیا نام دیا ہے۔ انہوں نے کورونا کی آمد سے قبل اور بعد کی دنیا کے فرق کو بیان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کورونا کے آنے سے پہلے وہ اکیسویں صدی کی سیاسی جماعتوں کے موضوع پرکتاب لکھنے کا سوچ رہے تھے لیکن کورونا کے آنے کے بعد دنیا اس قدر بدل جائے گی، یہ ہمارے حاشیہ خیال میں نہ تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ذہن یہ قبول کرنے کو تیار نہیں کہ اگلر ہم نے ابھی لاک ڈاون نہ کیا تو کورونا کے پانچ ہزار مریضوں کی تعداد بڑھ کر دس لاکھ ہوجائے گی۔

ان ٹیل کمپیوٹر کے شریک بانی گورڈن مور کے ایک اصول کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کمپیوٹر کی رفتار اور امور کو انجام دینے کی صلاحیت میں جس رفتار سے ترقی ہوئی ہے، وہ حیرت انگیز ہے۔ ووکس ویگن بیٹل گاڑی جسے عرف عام میں ’ڈڈو کار‘ کہاجاتا ہے، کی 1971 ءسے اب تک ترقی کو کمپیوٹر کی ترقی کے بیان کے لئے مثال کے طورپر بیان کیاجائے تو انجینئرز کا کہنا ہے کہ اس گاڑی کی رفتار آج تین لاکھ میل فی گھنٹہ ہوتی۔ ایک گیلن میں یہ گاڑی بیس لاکھ میل کا سفر کرتی اور اس کی لاگت صرف چار سینٹ ہوتی۔ یہ ہے کمپیوٹرز کی ترقی کی رفتار۔

ایک اور امریکی محقق کو امید ہے کہ سارس، ایچ ون این ون، ایبولا اور زیکا وائرس کے بعد اب کورونا جس تیزی سے پھیل رہا ہے، باصلاحیت ذہین لوگ بایولاجیکل اور وبائی امراض کی سائنس کی طرف آئیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جس طرح کمپیوٹرز نے ترقی کی ہے، کیا اسی رفتار سے ان وبائی امراض کی دوائی بھی تیار ہوپائے گی؟ ہارورڈ کینیڈی سکول سینٹر برائے پبلک لیڈرشپ کے ایک محقق گوتم مکنڈا کے مطابق ایچ آئی وی اور ملیریا کی بھی ویکسین اب تک نہیں آئی۔ اس میں وقت لگے گا۔

یہ لطیفہ بھی جاری ہے کہ اس مرتبہ صدارتی انتخاب کے موقع پر ری پبلکن سیاستدانوں کو اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ کہنے کا تکلف نہیں کرنا پڑے گا کہ ”ہائے، میں حکومت کی طرف سے ہوں اور میں آپ کی مدد کے لئے موجود ہوں۔ “ یہ تجزیہ بھی کیاجارہا ہے کہ پرانی نسل نے جنگ عظیم دوم کے بعد خامیوں کو دور کیاتھا لیکن کیا آج کی نسل ایسا کرپائے گی۔ کورونا کے آنے کے بعد امریکی معاشرہ اپنے کلچر کو جتنا سخت کرے گا اور اپنے پرس کو ڈھیلا یعنی خیرات کرے گا معاشرہ اتنا ہی مضبوط اور رحم دل ہوگا۔

پاکستان میں بحث جاری ہے کہ لاک ڈاون ہونا چاہیے یا نہیں؟ سندھ میں لاک ڈاون شروع ہوگیا ہے، وزیراعظم فرمارہے ہیں کہ ایسا نہیں کروں گا۔

عجب مرض ہے جس کی دوا ہے تنہائی

بقائے شہر ہے اب شہر کے اجڑنے میں

بشکریہ نوائے وقت

اسلم خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اسلم خان

محمد اسلم خاں گذشتہ تین دہائیوں سے عملی صحافت کے مختلف شعبوں سے منسلک رہے ہیں اب مدتوں سے کالم نگار ی کر رہے ہیں تحقیقاتی ربورٹنگ اور نیوز روم میں جناب عباس اطہر (شاہ جی) سے تلمیذ کیا

aslam-khan has 57 posts and counting.See all posts by aslam-khan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments