کرونا کے بعد کی دنیا


پاس مت آنا۔ پیار ہو جائے گا۔ اور اس پیار میں دونوں مر جائیں گے۔ یہ بات اب حقیقی شکل اختیار کر چکی ہے۔ صرف پیار کا لفظ اضافی رہ گیا ہے۔

کرونا وائرس کی وبا کے بعد انسانی سوچ اور تصوراتی دنیا میں نئے زاوئیے تشکیل پا گئے ہیں۔ یہ جو کچھ ہو رہا ہے کبھی انسانی تاریخ میں نہیں ہوا کہ پوری دنیا یک دم بند ہوگئی ہو۔ آج دنیا کے طبقاتی نظام کا ٹائیٹینک کرونا کے آئس برگ سے ٹکرا کر ڈوب رہا ہے اور کوئی اسے ڈوبنے سے بچا نہیں پا رہا۔ نظام دنیا کی ٹرین پٹڑی سے اتر چکی ہے۔ بزنس کلاس، بی کلاس، اکانومی کلاس۔ سب مسافروں کے چہروں پہ ایک ہی رنگ جم چکا ہے۔ خوف اور حیرت کا رنگ۔

انسان، دنیا کا حکمران ہے۔ طاقت اور دولت کی دوڑ میں گم مرضی کا مالک ہے۔ زندگی کے نشے میں دھت، ہر درد کا معالج، ہر فن کا مولا۔ طوفانوں سے لڑنے کی تدبیر بھی ہے اور ہواؤں میں اڑنے کا ہنر بھی۔ انسان نے زمین کا ہر ٹکڑا اپنی ملکیت بنا لی۔ سمندر بھی جاگیر سمجھ کر تقسیم کر لئے۔ طاقت جتلانے کو افواج کھڑی کر لیں۔ دولت ہڑپنے کو ہتھیار بنا لئے۔ ڈرانے دھمکانے کو ایٹم بم کا پرچار کر لیا۔ تباہ کاری کا جب من ہوا تو ہیلے بہانے سے جہاں بھی چاہا گولا بارود کی برسات کرلی۔

غرض کہ خود غرضی کے پنجے روئے زمین کے ہر قدم پر گاڑ لئے۔ انسان نے اغراض و مقاصد کی من چاہی تشریحات کے مطابق دنیا کو سنوارا۔ طبقات میں تقسیم کیا۔ طاقت ور کی کمزور پر فوقیت قائم کی۔ سہی اور غلط، ظالم اور مظلوم کے اپنے اپنے پیمانے بنائے۔ یعنی حکمران بھی انسان۔ محکوم بھی انسان۔ ظلم بھی انسان کا۔ امید بھی انسان سے۔

مگر آج ”مملکت انسانی“ پر خوف کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ طبقات، مذاہب، نسل اور زمینی و طاقت کی تقسیم سے بالاتر ہو کر پوری انسانیت ذہنی اذیت میں مبتلا ہو چکی ہے۔ یعنی انسان بے بس کھڑا تاریخ کی سب سے بڑی تنہائی کا شکار ہو چکا یے۔ مشترکہ طور پر انسانی تصورات اور تخیلات آسیب زدہ ہو چکے ہیں۔ جذبات اور احساسات کے مشروب پھیکے ہو چکے ہیں۔ چاہتوں کے رشتے فاصلوں میں بدل رہے ہیں۔ سڑک پر پڑا ہو کوئی تو پڑا رہے۔ یہ تمام روئیے زندگی کے مختلف واقعات پر مبنی تھے مگر اب یہ روئیے حقیقی طور پر نوع انسانی کے فطری عمل میں داخل ہو رہے ہیں۔ کہ پرے پرے رہو قریب آؤ گے تو مر جاؤ گے۔

یہ سب یک دم ہورہا ہے۔ صدیوں سے جاری نظام دنیا، پلک جھپکتے ہی بدل رہا ہے۔ اب دیکھا جائے تو تہذیبی اعتبار سے کرونا وائرس گہرے اثرات چھوڑ کر جائے گا۔ انسانی روئیوں میں سوچ کے نئے نئے زاوئیے شامل ہوں گے۔ دنیا کو کٹھن معاشی صورت حال کا سامنا ہوگا۔ معیشت و زندگی کا پہیہ دوبارہ سے چلے گا تو دنیا بھر میں سماجی طور طریقوں، رسم و رواج میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ جس کے لئے انسان کو ذہنی طور پر تیار رہنا ہوگا۔ وگرنہ بچنے والا بھی نہیں بچے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments