قدرتی آفات اور معاشرتی ایثار


قدرتی آفات انسانی معاشرے کی صلاحیت اور مسائل کو جانچنے کا بہترین موقع فراہم کرتی ہیں۔ پچھلے تین مہینوں سے دنیا ایک نادیدہ آفت COVID۔ 19 کی زدمیں ہے۔ چشم زدن میں یہ آفت چین سے نکلنے کے بعدپوری دنیا میں پھیل گئی۔ لاکھوں لوگ اس کی وجہ سے بیمار پڑ گے ہیں۔ دنیا کی ایک تہائی آبادی اس وقت قرنطینہ (Quarantine) میں ہے۔ سکول، کالج اور یونیورسٹیاں بند ہیں۔ کاروبار کم سے کم سطح پر آ گے ہیں۔ بین الاقوامی بارڈر بند ہو گئے ہیں۔ پروازیں معطل ہیں اور ایک شہر سے دوسرے شہر کی ٹریفک مکمل یا جزوی طور پر بند ہے۔ دنیا اس وقت عملاً (Standstill) کی حالت میں ہے۔

ایسی صورتحال، سوشیالوجی کے طالب علموں کو دعوت دیتی ہے کہ وہ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ بنیادی معاشرتی ادارے مثلاً خاندان، حکومت، معیشت، تعلیم اور مذہب وغیرہ ان حالات میں کیا کردار ادا کرتے ہیں؟ یہ ادارے موجودہ سماجی نظم (Social order) کو کیسے قائم رکھتے ہیں؟ یا پھر نئی صورت حال کے پیش نظر اپنے آپ کو کیسے (Adjust) کرتے ہیں؟ لیکن بظاہر نظر آنے والے ان اداروں کے علاوہ کچھ نظر نہ آنیوالی طاقت Invisible forces) بھی ہیں جن کو معاشرے کی گہری حقیقت (Deeper reality) کہتے ہیں۔ یہ نظرنہ آنیوالی طاقتیں ہی دراصل معاشرے کا ایندھن ہیں۔ کارل مارکس نے انھیں معاشرے کی بالائی ساخت (Super structure) کا نام دیا۔ یہ بالائی ساخت دراصل ہمارے عقائد، معاشرتی اقدار، مشترکہ معمولات (Shared norms) رسوم و رواج، معاشرتی اور جذباتی تعلقات پر مشتمل ہیں۔ یہ نظرنہ آنیوالی طاقتیں معاشرے کو جوڑنے میں مدد دیتی ہیں اور معاشرتی زندگی کو ممکن بناتی ہیں۔

جیسے میں نے شروع میں لکھا کہا کہ آفات معاشرے کے بارے بہت سی سچائیوں کو آ شکار کرتی ہیں اور معاشرے کے مطالعہ کے لیے قدرتی تجربہ گاہ (Natural laboratory) کاکام سر انجام دیتی ہیں۔ مشکلات انسان کو بہترین صلا حیتیں استعمال کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ انھیں مشکلات کا سامنا کرنا سکھاتی ہیں اوردوسروں کی مدد اور سخاوت کاجذبہ ابھارتی ہیں۔ مشکل حالات میں نئے معاشرتی معمولات جنم لیتے ہیں جن کو ہنگامی معمولات (Emergent norms) کا نام دیا گیاہے۔ ایک دوسرے کی مدد کرنا اور معاشرتی ہم آہنگی اس کی دو بڑی مثالیں ہیں۔ مجموعی آزمائش کے اوقات میں انسانی معاشرے کی تاریخ مہربانی (Kindness) اور ایثار (Altruism) کی مثالوں سے بھری پڑی ہے اور ایک نیا ایثار پر مبنی معاشرتی نظام (Altruistic social system) وجود میں آتا ہے

آ ئیے کچھ معروضات پر غور کرتے ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں ایثار کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ جب کوئی قدرتی آفت ہمارے سماجی نظم (Social order) کو خراب (Disrupt) کرتی ہے ہم سب توقع کرتے ہیں کہا انسانیت پر یقین رکھنے والے لوگ آگے بڑھ کر ہماری مدد کو آئیں گے اور ہماری ڈھارس بندھائیں گے۔ اسی طرح دوسرے لوگ بھی ہم سے یہ توقع رکھتے ہیں۔ یہی وہ نقطہء آغاز ہے جہاں انسان ایک دوسرے کے بارے سوچنا شروع کرتے ہیں۔ اگرچہ COVID۔ 19 کی موجودگی میں سماجی فاصلہ (Social distance) بہت اہم قرار دیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی اہم قرار دیا گیا ہے کہ معاشرتی مدد (Social support) بھی ضروری ہے تا کہ معاشرے کے کمزور طبقے پر اثرات کم سے کم پڑیں۔ انسانی معاشرے میں مہربانی (Kindness) اور ایثار (Altruism) کے جذبات کو Taken for grantedنہیں لینا چاہیے بلکہ یہ جذبہ صدیوں کی انسانی تربیت (Socialization) اور ایک اعلی اخلاقی نظام کی مرہونِ منت ہے جس کے لیے خدانے دنیا میں پیغمبر بھیجے اور ارسطو نے زہر کا پیالہ پیا۔ موجودہ آفت بھی ہمیں یہ دعوت دیتی ہے کہ ہم اس سے مثبت سبق سیکھیں۔

۔ لیکن ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ محض کوئی آفت ایثار کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے کافی نہیں ہے جب تک ہمارے معاشرے کا تانہ بانہ (Social fabric) ایسے حالات پیدا کرنے کی خصوصیات نہیں رکھتا۔ اس مقصد کے لیے یہ بات بڑی اہم ہے کہ ہم آینوالے دنوں میں کیا کرتے ہیں اور کیسے سوچتے ہیں؟ ہمیں چاہیے کہ ڈاکٹروں اور سائنسدانوں کی ہدایات پر عمل کریں، صحت کانظام بہتر سے بہتربنائیں، بیماروں کو اچھا علاج مہیا کریں، کمزورطبقے کاخیال رکھیں اور معاشرتی تفریق کو ختم کریں۔

ہمیں ایک دوسرے پرانحصار (Interdependence) کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے اور اپنا اجتماعی احساسِ ذمہ داری (Collective sense of responsibility) کا ادراک کرنا چاہیے۔ اس طرح کے اقدامات معاشرتی بقا اورانسانی ترقی کو یقینی بنا سکتے ہیں اور معاشرتی ایثارکو فروغ د ے سکتے ہیں۔ ہم سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ معاشرے کو کون سی چیزمضبوط اور متحد رکھ سکتی ہے, ” صرف اور صرف ہم ’َ“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments