قدرت توازن قائم کر رہی ہے


اقوام عالم کی تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی دنیا میں ابنائے دہر نے قدرت کے معاملات میں رخنہ اندازی یا رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی یا پھر نظام فطرت کو بدلنے کے درپے ہوئے ربِ کبریا کی جلالت کو جوش آیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے عالم کا نقشہ بدل کے رکھ دیا۔ کبھی طوفانِ نوح کی صورت میں، کبھی بستیوں کو تباہ وبرباد کر کے، کبھی ابنائے عصر کی اشکال کو بدل کر، کبھی زلزلوں، ہواؤں، سیلابوں کے ذریعے سے انسان کو سبق سکھانے کے ساتھ ساتھ فطرت میں توازن کی فضا کو برقرار رکھنے کے لئے بھی قدرت نے ایساکیا۔ لیکن اگر انسان سمجھے تو پھر تاریخ ہمارے لئے مشعل ِ راہ کے ساتھ ساتھ سبق سے بھی بھری پڑی ہے۔

عصرِ حاضر میں کرونا وائرس نے اب تقریبا پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے یعنی دنیا میں دوصد سے زائد ممالک میں سے ایک صد بانوے کے قریب اس موذی مرض کا شکار ہوچکے ہیں۔ تاحال اس کی کوئی دوائی یا ویکسین دریافت نہیں ہو سکی اور قیاس یہ ہے کہ آئندہ اٹھارہ ماہ سے قبل کوئی ویکسین مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہو پائے گی یعنی اس کی تیاری، ٹیسٹ اور فائنل ہونے تک اسے ڈیڑھ سال کا عرصہ درکار ہوگا۔ لیکن اس وقت تک اس وائرس کی نوعیت، حجم، وزن اور اس کے پھیلاؤ کی طاقت کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹرز اور چین کے عملی تجربہ سے یہ بات دنیا کے سامنے آئی ہے کہ اس کا واحد علاج اپنے آپ کو قرنطینہ میں لے جانے میں مضمر ہے۔

اپنے قارئین کی معلومات کے لئے مختصر طور پر یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ قرنطینہ کیا ہے؟ اور اس کی مختصر تاریخ کیا ہے۔ قرنطینہ کا لفظ اطالوی زبان کے لفظquaranta giorni سے نکلا ہے جس کا مطلب چالیس دن کے ہوتے ہیں۔ ریکارڈڈ ہسٹری میں طاعون کا مرض تین بار انسانوں کو ایسا نگل گیا کہ ملکوں کو صفایا کردیا۔ 1384 میں جب طاعون پھیلا تو چار سال کے عرصہ میں 25 ملین افراد کو نگل گیا یعنی یورپ کی ایک تہائی آبادی سے زائد، اس دوران جو جہاز شہر وینس کی بندرگاہ پر آتے تھے ان پر موجود تاجر اور عملہ کو چالیس دن تک جہاز پر ہی رکھا جاتا۔ جس کا مقصد ان لوگوں کو شہری آبادی سے دور رکھنا ہوتا تھا، تاکہ اس دوران اگر کسی شخص میں طاعون کی علامات ظاہر ہو جائیں تو اسے الگ کر کے اس کا علاج کیا جا سکے۔ اس طرح طاعون زدہ شخص بھی اور اس سے دوسرے لوگ بھی محفوظ ہو جاتے۔ اس عمل کو اطالوی زبان میں قرنطینہ کہتے ہیں۔

پاکستان میں بھی دیگر ممالک کی طرح حکومت، سوشل میڈیا، ڈاکٹرز اور سماجی فلاحی تنظیموں کی طرف سے لوگوں کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ گھروں میں رہیں، کیونکہ احتیاط ہی اس کا علاج ہے، سوشل ڈسٹنس (سماجی فاصلہ) سے آپ خود اور اپنے پیاروں کو بچا سکتے ہیں۔ نتیجہ کے طور پر اب لوگوں نے اس بات کو محسوس کرنا شروع کردیا ہے کہ اپنے آپ کو دوسروں سے الگ تھلگ کرنے میں ہی اپنی اور دوسروں کی بقا ہے۔ پھر پورے ملک میں مکمل لاک ڈاؤن کردیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ صرف ان دکانوں کو کھولا جائے گا جس کے بغیر زندگی کا گزارہ نہیں جیسے میڈیکل اور فوڈ وغیرہ۔ اب ہوا کیا کہ جب سب نے ہی اپنے آپ کو اپنے اپنے گھروں میں مقید کرلیا ہے تو میدان، پارکس، مارکیٹس اور چائے وغیرہ کی دکانیں انسانوں اور ان کے پھیلائے جانے والے کچرے سے بالکل پاک اور صاف ہو گئے ہیں۔ یعنی اب انہیں بھی سانس لینے میں آسانی ہوگی۔

اب اگر انسانی تنہائی کا عمیق نظر سے مطالعہ کریں تو انسان کے اپنے گھر میں قید ہونے سے معاشرہ، ماحول اور بنی نوع انسان پرکیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ انسانوں نے کرونا کے خوف سے اپنے آپ کو صاف ستھرا رکھنا شروع کردیا، سڑکوں پر گاڑیوں کا بے ہنگم ہجوم دیکھنے میں نہیں آرہا، لوگ جگہ جگہ گندگی نہیں پھیلا رہے، تھوک نہیں رہے، پان سگریٹ کے استعمال کی شرح کم ہوئی ہے، لوگوں کا سماجی ہجوم ختم ہونے سے ایک دوسرے کو لگنے والی بیماریوں کے روک تھام کے ساتھ ساتھ انسان کی سانس سے نکلنے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کم ہوئی ہے، گاڑیوں کے دھوئیں کی کمی سے کاربن مونو آکسائیڈ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں بھی کافی حد تک کمی آنے سے گرین ہاؤس ایفیکٹ کو بھی قدرے سکون نصیب ہوا ہوگا، کوڑا کرکٹ اور کچرا کے ڈھیروں سے ماحول نے بھی سکھ کا سانس لیا ہوگا۔

گویا قدرت نے ایک وبائی مرض کی صورت میں انسانوں کو سبق سکھانے کے ساتھ ماحول کو سانس لینے کا بھی موقع فراہم کیا۔ کیونکہ انسان تو درختوں کی بے دریغ کٹائی، گاڑیوں کے بے تحاشا استعمال، اور مختلف اقسام کی آلودگی پھیلا کر اپنا دشمن آپ ہی بنا ہوا ہے۔ اور ان سب عوامل سے گلوبل وارمنگ اور گرین ہاؤس ایفیکٹ جیسی تبدیلیاں پورے ماحول کو تبدیل کرنے کا باعث بنے ہوئے ہیں جس سے جلداور پھیپھڑوں کی بیماریوں میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا تھا، ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے نباتات کے پھیپھڑوں کو سکون مہیا کرنے اور بنی نوع انسان کو سبق سکھانے کی غرض سے ایک وائرس کا ایسا خوف دل میں ایسے بٹھا دیا ہے کہ اب ہر کوئی باری تعالیٰ کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ لا شعوری طور پر نباتات کی زندگیوں کو خوش حال کرنے میں ممدو معاون ہورہا ہے۔

لیکن کیا ہی اچھا ہو اگر انسان، ذکر خدا، حقوق العباد، ماحول اور اخوت کو اپنے کردار وافعال میں مستقل طور پر شامل کر لے، کہ کل کو اگر ایسی کوئی قدرتی آفت آتی ہے تو سب مل کر اس کا مقابلہ کرسکیں، نہ کہ حکومت وقت کی طرف دیکھتے رہیں کہ کب کوئی امداد آئے تو ہمارا کاروبارِ زندگی چلے۔ اس سے قبل کہ ہم اس دنیا سے چلے جائیں ہمیں اپنی آنے والی نسل کوان کا محفوظ مستقبل اور صاف شفاف ماحول ان کے ہاتھوں میں دینا ہے تاکہ قدرت ان پر ہمیشہ مہربان رہے۔ موجودہ صورت حال میں قدرت نے ہم پر مہربانی اسی میں رکھی ہے کہ ہم اپنے آپ سے دوسروں کو محفوظ رکھیں۔ خدا ہم سب کا حامی وناصر ہو، آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments