کرونا اور ہماری عادات


چین سے شروع ہونے والا کرونا وائرس پوری دنیا کو ہی اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے پوری دنیا کی معیشت جمود کا شکار ہو گئی ہے، صحت کا نظام شدید دباؤ میں ہے۔ کرونا ہمیں کچھ اور سکھائے نہ سکھائے لیکن ہاتھ دھونے کی عادت ضرور ڈال کر جائے گا۔ دین اسلام جس کے مطابق صفائی نصف ایمان ہے اس دین کے ماننے والے پاکستانیوں کے گلی محلوں میں روز بروز بڑھتی گندگی اور غلاظت کے ڈھیر دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ذرا سوچیں ہم اپنے بچوں کو صفائی کی کتنی عادت ڈال رہے ہیں۔

ہمارے تعلیمی ادارے بچوں کو صفائی کی کتنی ترغیب دیتے ہیں۔ تعلیمی نظام پر تو پھر کسی کالم میں روشنی ڈالوں گا ابھی صرف صفائی کی عادت کو ہی دیکھ لیتے ہیں۔ عرصہ پہلے ہمارے گاؤں کی گلیاں پختہ بنائی گئیں اور آج وہاں پکی سڑک کے آثار برآمد کرنے کے لیے اچھی خاصی کھدائی کرنی پڑے گی کیونکہ اہل علاقہ نے وہاں پر اتنا کوڑا پھینکا ہے کہ پختہ سڑک کہیں نیچے ہی دب گئی ہے۔ یہ حال آپ کو پورے ملک میں ہی نظر آئے گا۔

صفائی کی اہمیت سے نابلد قومیں کرونا وائرس سے لڑ ہی لیں تو ایک ماہ بعد ڈینگی سے ملاقات ہو جائے گی۔ وہاں سے نکلے تو اسہال اور ہیضہ کی وبائیں گلے پڑ جائیں گی۔ ذرا ہوٹلوں اور ریسٹورنٹ کے کچن ہی دیکھ لیں۔ چھوٹے ڈھابوں اور چھپڑ ہوٹلوں کو چھوڑیں فائیو سٹار ہوٹلوں کے بھی کچن دیکھنے کے بعد آپ کا کھانا کھانے کو دل نہیں کرے گا۔ ذرا بیکریوں کی مٹھائی بنتے دیکھ لیں ساری زندگی مٹھائی کھانا بھول جائیں گے۔ بازار میں کچھ بھی اٹھا لیں ملاوٹ شدہ ملے گا۔

دودھ میں یوریا کی ملاوٹ، مرچوں میں رگڑی ہوئی اینٹوں کی ملاوٹ، گھی میں ملاوٹ، غرض کہ کھانے پینے کی ہر چیز میں آپ کو ملاوٹ ہی نظر آئے گی۔ اور تو اور یہاں جذبے بھی خالص نہیں رشتوں میں منافقت کی ملاوٹ، ہنسی میں کینے کی ملاوٹ، محبت میں غرض کی ملاوٹ۔ انسان کی کردار سازی میں ماحول کا بہت اثر ہوتا ہے جیسا ماحول ویسی عادات۔ اب جب کہ ماحول ہی ملاوٹ شدہ ملے تو کردار میں خالص پن کہاں سے آئے گا۔ بات ہو رہی تھی صفائی کی جس سے بحیثیت قوم ہم خود بھی دور رہے اور اپنے بچوں میں بھی یہ عادت ڈالنے کی زحمت نہیں کی۔

کتنے گھر ہوں گے جہاں کوڑا کے لیے الگ سے ٹوکری رکھی ہوئی ہو گی؟ کتنے فیصد لوگ کوڑے کو گلی کے نکڑ میں ڈالنے کے بجائے کوڑے دان میں ڈالتے ہوں گے؟ سنگاپور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پورے شہر میں آپ ننگے پاؤں بھی گھوم سکتے ہیں اور یہاں ہمارے شہروں میں آپ جوتوں سمیت بھی نہیں گھوم سکتے۔ اب آپ کہیں گے کہ کرونا وائرس تو جدید اور صاف ستھرے ملکوں میں بھی پھیل چکا ہے تو عرض یہ ہے کہ چونکہ یہ وبائی مرض ہے اور جب وبا چلتی ہے تو سب کو ہی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔

اور ہاں صفائی کی عادت رکھنے والے ملکوں میں کرونا سمیت تمام بیماریوں کو شکست دینا آسان ہے نسبتاً صفائی کی عادت سے ناواقف ملکوں کے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری کا احساس کریں۔ صفائی کو اپنا شعار بنا لیں۔ بچوں کو بچپن سے ہی صفائی کا درس دیں، ان میں شروع سے ہی صابن سے ہاتھ دھونے کی عادت ڈال دیں۔ گھروں کے ساتھ ساتھ گلی محلوں کو بھی صاف رکھنا اپنا فرض بنا لیں۔ یقین مانیں صرف صفائی کی عادت اپنا کر ہی ہم اپنے ملک کو خوبصورت بنانے کے ساتھ ساتھ بیماریوں کو بھی شکست دے سکتے ہیں اور آپ کو یہاں اوسط عمر میں اضافہ بھی دیکھنے کو ملے گا۔

ریحان نواب
Latest posts by ریحان نواب (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments