پنجابی سے خوفزدہ پنجاب کے باسی


کلچر کسی بھی قوم کی سب سے بڑی پہچان ہوتا ہے۔ زبان، لباس، رہن سہن اور لوک رنگ سے ثقافتی ڈھانچہ مکمل ہوتا ہے۔ یہی وہ بنیادی چیزیں ہیں جو ایک قوم کو شجاع و غیور اور خود مختار بنا دیتی ہیں اور ان کا فقدان قوم کو بزدل اور حقیر بنا دیتا ہے۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میں ہر معاشرے کی زبان اور ثقافت کو میڈیا وار کا سامنا ہے، اسی لیے مختلف اقوام اپنے زبان اور ثقافت کو زندہ رکھنے کے لئے گاہے بگاہے کلچر ڈے کی طرز کی تقریبات منعقد کرتی رہتی ہیں۔ کسی معاشرے کی ثقافت وہاں بسنے والے لوگوں کے رویوں کی تشکیل کرتی ہے۔ پاکستان میں بسنے والی اقوام جن میں سندھی، بلوچی، کشمیری، پشتون شامل ہیں ہر سال کلچر ڈے مناتی ہیں، جس کا مقصد ناصرف اپنی تقافت کو زند ہ رکھنا ہے بلکہ آنے والی نسل کو بھی اپنے رہن سہن کے حوالے سے روشناس کروانا ہے۔

پنجابیوں کو اپنے منفرد لوک ورثہ، صوفی روایت، لباس، کھیل، گیت اور لوک داستانیں کے باعث پوری دنیا میں منفرد حیثیت حاصل ہے۔ امن، بھائی چارہ، مہمانوں کی خاطرداری اور خاص طور پر خواتین کی عزت و تکریم پنجابی کلچر کا خاصا ہے۔ بھنگڑایورپ سمیت دنیا کے ہر خطے میں پنجابیوں کی پہچان بن چکا ہے، بھنگڑے کی منفرد بات یہ ہے کہ اس میں تمام ذات پات سے بلند ہو کر حصہ لیا جا تا ہے، چاہے وہ گاؤں کا چوہدری ہو یا پھر نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والا کو ئی شخص، سب مل کر ڈھول کی تھاپ پر قدم سے قدم ملاتے ہوئے شامل ہوتے ہیں۔

اس سال 14 مارچ کو ملکی تاریخ میں پہلی بارپنجاب کلچر ڈے منایا گیا ہے، اس کے قبل 21 فروری کو مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر صوبہ پنجاب میں چند پنجابی سر گرم کارکن صرف جلسے جلوس ہی کرتے تھے۔ پنجاب ڈے منانے کے لئے سب سے زیادہ تگ ودو پنجاب نیشنل پارٹی اورپنجابی پرچار نامی تنظیم نے کی۔ اس کے علاوہ دیگرتنظیموں جن میں دل دریا پاکستان، رواداری تحریک، پنجابی ادبی بیٹھک، پنجابی ادبی بورڈ، لوکائی، بھلیکھا، پنجابی سٹوڈنٹس ایسوی ایشن اورپنجاب نیشنلسٹ فورم شامل تھیں، نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

پنجابی پرچار تنظیم کے سربراہ احمد رضا نے پنجابی کلچر ڈے سے قبل اپنے ایک ویڈیو پیغام میں بتایا کہ پنجابی کلچر ڈے کے حوالے حکومتی اداروں کی جانب سے کافی رکاوٹیں حائل کی گئی ہیں۔ ڈی سی لاہور سے ضلعی انتظامیہ کی سرپرستی اور این او سی حاصل کرنے کے لئے بار باردرخواست دی گئی لیکن ہر بار حیلے بہانوں کے ذریعے اسے مسترد کیا جاتا رہا۔ احمد رضا کے مطابق حکومتی اداروں کی جانب سے تمام اعتراضات دراصل پنجابی کلچر ڈے کے راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کے لئے تھے۔

پنجاب حکومت دوسرے صوبوں کے کلچر ڈے کو مکمل طور پر سپورٹ کرتی ہے اور تقریبات اور دیگر سرگرمیوں کے لئے بھاری فنڈ بھی جاری کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انفارمیشن کلچر ڈیپارٹمنٹ کو بھی درخواست کی گئی ہے کہ سرکاری سطح پر پنجاب کی ثقافت کے حوالے سے کچھ تقریبات منعقد کی جائیں لیکن اُنہوں نے بھی خاطرخواہ کوئی دلچسپی نہیں لی ہے۔

بدقسمتی سے پنجاب کے کلچر کا منفی مفہوم میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں بسنے والی دیگر اقوام اپنی ثقافت پر فخر محسوس کرتی ہے۔ پنجابی زبان اور کلچر کومعاشرے کا تہذیب یافتہ طبقہ غیر مہذب قرار دیتا ہے یہی وجہ ہے یہاں پر بسنے والے لوگ اس کے استعمال سے حد درجہ کتراتے ہیں۔ پنجابی زبان کے استعمال کو جنسی ہراسگی اور بد تمیزی کے معنوں میں لیا جاتا ہے۔ روزمرہ زندگی میں پنجابی سے نفرت کی بے مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ چند روز قبل اسلام آباد میں ایک خاتون کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ پولیس اہلکارسے محض اس لیے جھگڑا کر رہی تھی کہ اس نے پنجابی میں گاڑی کا شیشہ نیچے کرنے کو کہا تھا۔

اپنے رہن سہن اور زبان سے دوربھاگنے والی قوم کی مثال اُس مسافر کی ہے جن کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔ دربدر گھومنے کے بعد بھی اس کے حصے میں صرف ذلت و رسوائی ہی آتی ہے۔ اگر پنجابیوں کا جائزہ لیا جائے تو صورتحال کچھ مختلف نہیں ہے۔ دفتری زبا ن کے لئے انگریزی زبان کا استعمال کرتے ہیں، جبکہ روزمرہ زندگی میں اردو کی گردانیں دہرائی جاتی ہیں، پنجابی کو محض اس لیے نظر انداز کیا جاتا ہے کہ اس سے جاہل اور ان پڑھ کا تاثرپیدا ہوتا ہے۔

معاشرے میں ظاہری طور پر خود کو معتبر بنانے کے لئے پنجاب کے فوک میوزک کو پسند نہیں کیا جاتا۔ خود پر ماڈرن ازم کا لبادہ اوڑے چہرو ں کو مارکیٹوں، سکولوں، کالجوں اور دفاتر میں پنجابی زبان کے استعمال پر شرمندگی محسوس کی جاتی ہے۔ ظاہری رکھ رکھاؤ کے چکر میں ہم اپنی اصل سے بہت دور آ چکے ہیں۔ پنجاب کے حکمرانوں نے بھی مادری زبان کو کبھی پرائمری سکول کے نصاب کا حصہ بنانے کی کوشش نہیں کی ہے اور نہ ہی صوبائی سطح پر اس کی کبھی سر پرستی ہوئی ہے۔

پنجاب کا کلچر اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ پاکستان میں بسنے والی دیگر اقوام کا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ صرف ترقی پسند پنجابیوں کوہی اپنی زبان، رہن سہن، لباس اور کھیلوں سے شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ بحیثیت قوم ہمیں اپنے رویوں میں بدلاؤ لانے کی اشد ضرورت ہے۔ آپ زندگی کے جتنے بھی بلند مقام پر پہنچ جائیں، جتنی بھی کامیابیا ں سمیت لیں تو پھر بھی لوگ آپ کے بارے میں کچھ نہ کچھ ٖ براضرور کہتے رہیں گے، اس لیے پنجابی کلچر کے حوالے سے پھیلے خوف کو نظر انداز کیجیے اور اپنے رسم و رواج کو روزمرہ زندگی کا حصہ بنایئے۔ اگرآپ کو پنجابی زبان کے استعمال پر پینڈو اورجاہل جیسے الفاظ سننے کو ملیں تو سینہ تانیے اور فخر محسوس کیجیے۔ یہ رویہ ناصرف پنجابی معاشرے میں خود اعتمادی پیداکرے گا بلکہ جدت پسندی کا لبادہ اوڑنے والوں پر بھی کاری وار ثابت ہو گا۔

پہلا پنجاب کلچر ڈے تو عوامی سطح پر منایا گیا ہے جس میں وسیم اکرم پلس حکومت نے عین موقع پر چند پمفلٹ اور پینافلیکس چھپوا کر کریڈٹ لینے کی بھرپور کوشش کی ہے لیکن امید کرتے ہیں اگلے سال ناصرف عوامی بلکہ حکومتی سطح پر بھی پنجابی ثقافت کو پروان چڑھانے کے لئے بھرپورکوشش کی جائے۔ پنجابی تنظیموں کے علاوہ کلچر انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ بھی نوجوان نسل کو اپنے رسم و رواج اورزبان کی اہمیت کو روشناس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں پھیلے خوف کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments