خوف پھیلائیں نہ بے جا ڈھارس بندھائیں


جب تک زبان سے صرف اور صرف سچ نہ کہا جائے اس وقت تک یہ سمجھ لینا کہ سچ ہی غالب ہو کر رہے گا یہ سراسر غلط اور اپنے آپ کو دھوکا دینے والی بات ہے۔

اس وقت، وقت کا سب سے بڑا اشو کورونا کی وبا ہے جس سے پاکستان ہی نہیں پوری دنیا نمٹنے میں مصروف ہے اور حقیقتاً کسی بھی ملک کو یہ بات سمجھ میں آکر نہیں دے رہی کہ اس سے کس انداز میں نمٹا جائے۔ دنیا کا ہر ملک اپنے اپنے وسائل اور صلاحیتوں کے مطابق اس بلا سے زور آزمائی کرنے میں مصروف ہے لیکن لگتا ہے کہ ساری تدبیریں الٹی ہو تی جا رہی ہیں اور کوئی دوا بھی کام دکھانے کے لئے تیار نہیں۔

پاکستان تو دنیا کے ان ممالک میں ہے جو وسائل کے اعتبار سے دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک سے بہت پیچھے ہے اس لئے پاکستان میں (اللہ نہ کرے ) جو بھی کچھ گزر جائے وہ دنیا کے جدید، بیشمار وسائل رکھنے والے، ترقی یافتہ اور بہر لحاظ طاقت و قوت والے ممالک کے مقابلے میں بہت ہی کم ہوگا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کے بہت سارے ممالک پاکستان سے کہیں زیادہ وسائل رکھتے ہیں لیکن اللہ نے پاکستان کو جو سب سے بڑی نعمت دی ہے وہ لوگوں کا جذبہ ہمدردی ہے اور یہ جذبہ رکھنے والے کبھی اس بات کی پرواہ نہیں کیا کرتے کہ وہ جس آگ میں جلنے سے لوگوں کو بچانے کی جد و جہد کر رہے ہیں وہ آگ خود انھیں بھی بھسم کر کے رکھ سکتی ہے بلکہ وہ اس بات کو فخر سمجھتے ہیں کہ وہ ہمدردی اور خلوص کے جذبے کے ساتھ اگر اس راہ میں کام آجائیں تو یہ دکھ یا غم کی بات نہیں، شہادت کا درجہ پانے کا اعزاز ہے۔

دنیا میں جہاں جہاں بھی یہ وبا یا جوج ماجوج کی طرح ہر بلندی و پستی سے پھوٹ پڑی ہے وہاں اس کا مقابلہ صرف اور صرف حکومت کے اہل کار ہی کرتے نظر آ رہے ہیں۔ سارے ممالک میں ایک نفسا نفسی مچی ہوئی ہے اور ہر کوئی ایک دوسرے کو فرشتہ اجل دکھائی دے رہا ہے لیکن پاکستان میں نہ جانے کتنے افراد، بلا کسی لالچ اور خوف، ایک دوسرے کی مدد کے لئے نکل کھڑے ہوئے ہیں اور انھیں اس بات کی کوئی پرواہ ہی نہیں ہے کہ وہ دوسروں کی مدد کرتے کرتے خود بھی اس وبا کا شکار ہو سکتے ہیں۔

ہمارا میڈیا رات دن کورونا کے متعلق اپ ڈیٹ کرتا ہوا دکھائی دے رہا اور افراد کو آگاہی دے رہا ہے کہ اس کا کس کس طرح مقابلہ کرنا چاہیے۔ پاکستان کے عوام کو کورونا سے متعلق ہر قسم کی معلومات کے علاوہ ملک کی تازہ ترین صورت حال کو بھی سامنے لایا جا رہا تاکہ لوگ اپنے اپنے متعلق پیش بندیاں عمل میں لا سکیں۔ کیونکہ دنیا بھر میں اٹھائے جانے والے حکومتی اقدام اور پاکستان میں صورتِ حال کو قابو میں رکھنے کے لئے جو جو بھی تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں وہ نہایت کڑی ہیں اس لئے عوام میں ایک خوف اور سہم کا پھیل جانا کوئی ایسی بات نہیں جو خلافِ فطرت ہو۔ خوف و ہراس کی اس فضا میں کچھ ایسی اطلاعات اور خبریں بھی عوام تک پہنچائی جا رہی ہیں جو لوگوں کی امیدوں کو نا امیدیوں میں بدلنے کی راہ میں ایک اچھی پیش رفت ہے۔ لوگوں تک اچھی اور امید افزا خبروں کو پہنچانا ایک اچھا عمل ہے جس کو بہر صورت سراہنا چاہیے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ایسی خبر جس میں اس وبا کے پھیل جانے کی اطلاع ہوتی ہے وہ افراد کے ذہنوں میں بیشمار خلفشار کا سبب بن جاتی ہے لیکن اگر ان تک درست معلومات نہ پہنچائی جائیں تو اس بات کا احتمال بھی رہتا ہے کہ کہیں عوام ”سب اچھا ہے“ کے فریب میں کسی لاپرواہی کا شکار ہو جائیں۔ لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ جہاں غیر ضروری طور پر ایسی اطلاعات یا خبریں نہ پھیلائی جائیں جو افراد کے ذہنوں کو خلفشار کی آماج گاہ بنادیں وہیں ایسا بھی نہ کریں کہ اتنی امید افزا خبریں دینا شروع کردی جائیں کہ لوگ خوشی میں رقص کرتے، ناچتے گاتے گلیوں اور شاہراہوں پر نکل کھڑے ہوں۔

اگر ان تمام پہلوؤں کو سامنے رکھا جائے تو الیکٹرونک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا، ان کی ذمہ داریاں بہت ہی بڑھ جاتی ہیں کہ وہ تمام خبریں شائع کرنے یا نشر کرنے سے پہلے اچھی طرح تصدیق کر نے کے بعد، خواہ نا امیدی کی صورت میں ہوں یا امید کی صورت میں، عوام تک پہنچایا کریں۔ اگر اس میں اپنی جانب سے ذرا بھی مرچ مصالحہ ملایا گیا یا خوامخواہ حوصلہ بڑھانے کی کوشش میں خبروں کی حقانیت چھپانے کی کوشش کی گئی تو اس کے اثرات کسی صورت میں مثبت نہیں آ سکیں گے۔ لہٰذا ہر قسم کے میڈیا سے گزارش ہے کہ وہ جو خبر بھی شائع کرے یا سوشل میڈیا اور نجی و سرکاری چینلوں پر نشر کرے، اسے نہایت دیانتداری اور سچائی کے ساتھ نشر کرے اور عوام تک اتنی ہی آگاہی پہنچائے جتنی عوام کے علم میں لانا ضروری ہو۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں فرمایا ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ”بے شک میں ہی مرض دیتا ہوں اور میں ہی شفا بھی دیتا ہوں“۔ حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ کوشش کرنا اور حالات کا مقابلہ کرنا بے شک انسان کا فرض ہے لیکن کسی بھی فرد کا یہ سمجھ لینا کہ طبیب اور دواؤں کے نتیجے میں کسی کو شفا مل جایا کرتی ہے، وہ درست نہیں جس کا سب سے بڑا ثبوت ایک ہی جیسے مریضوں کا ایک ہی جیسی دوائیں کھلائے جائے کے باوجود کسی کا مر جانا اور کسی کا صحتیاب ہو جانا ہے۔ اس لئے ہمیں جو کچھ بھی طلب کرنا ہے اسی سے طلب کرنا چاہیے۔

آج بروز جمعہ، جماعتِ اسلامی کی جانب سے اپیل کی گئی ہے کہ پورا پاکستان صبح 10 بجے اللہ سے اس آفت کے ٹل جانے کے لئے دو رکعت نماز ادا کرے۔ تمام افراد کے علم میں یہ بات بہت اچھی طرح ہونی چاہیے کہ اس قسم کی جتنی بھی بیماریاں، مصیبتیں اور آزمائشیں عذاب کی صورت میں انسانوں پر مسلط ہوا کرتی ہیں وہ صرف تدبیروں اور دواؤں سے دور نہیں ہو جایا کرتیں بلکہ ان کے لئے اللہ سے خطاؤں کی معافیاں بھی طلب کرنا پڑتی ہیں اور دعائیں بھی مانگنا پڑتی ہیں۔

اس لئے سب انسانوں کو چاہیے کہ وہ اس آفتِ نا گہانی کے ٹل جانے کی اللہ کے حضور اپنے اپنے گناہوں کی بخشش بھی طلب کریں اور اس کے ٹل جانے کی دعائیں بھی مانگیں۔ اگر ہر فرد نے تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے اپنے رب سے صدقِ دل کے ساتھ مغفرت اور نجات طلب کی تو کوئی وجہ نہیں کہ اللہ اس آفتِ ناگہانی سے ہم سب کو محفوظ نہ رکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments