کرونا وائرس، کیا سازش کیا حقیقت


بقول شاعر

یہاں مرض کا سبب ہے غلامی و تقلید
وہاں مرض کا سبب ہے نظامِ جمہوری
(ڈاکٹر علّامہ محمد اقبل، ضربِ کلیم۔ مشرق و مغرب )

دسمبر 2019 میں چین کے شہر ووہان سے سر اٹھانے والی اس وباء نے جہاں 21 ہزار دوسو پچانوے جانوں کو لقمہء اجل بنایا ہے وہیں دانشوروں، مورخوں اور اصحاب الرائے کی ایک جماعت نے اس مرض سے جڑی پہیلیوں کو کھوجنے کے لیے بھی کمر کس لی ہے۔ دوسری طرف جہاں ”میرا جسم میری مرضی“ کا نعرہ اور اس نعرے کے مفہوم میں الجھے پاکستانی عوام کی سمجھداری تفتان کے راستے ایران سے درآمد ہونے والے کرونا وائرس کے ساتھ امڈ کر باہر آئی وہیں عالمی سطح پر پھیلے اس مرض نے سب کو ایک ہی پلٹ فارم پر اکٹھا کردیا ہے۔

پورا یورپ اس کے آگے بے بسی کی تصویر بنا نظر آتا ہے۔ مگرسوچنے کی بات یہ بھی ہے کیا واقعی ہماری سپر پاورز لاچار ہیں؟ گوکہ ان حالات میں ایک طرف تو ایسی باتیں کرنا بے مقصد لگتا ہے مگر دوسری طرف یہی وقت ہے کہ اپنے اوپر آنے والی اس آفت کے محرکات پر غور کیا جائے کہ آیا یہ سازش ہے، اللہ کا عذاب یا اللہ کی جانب سے ایک تنبیہ؟

وائرس (SarCov۔ 19 ) کے حملے کے کچھ عرصے بعد یہ باتیں بھی گردش میں آنا شروع ہوگئیں کہ یہ یہود کی سازش ہے، یا یہ امریکہ کی چین کی معیشت کو تباہ کرنے کے لیے ایک منصوبہ بندی ہے۔ چلئے ان باتوں کی توثیق کرتے چند مزید حقائق کا جائزہ لیتے ہیں 1989 سے جاری ہونے والے سمپسن کارٹونز میں کی گئی پیشن گوئیوں سے حالاتِ حاضرہ میں دلچسپی رکھنے والا تقریباً ہر شخص ہی واقف ہوگا۔ اکتیس سیزنز اور سات سو کے قریب اقساط پر مشتمل ان کارٹونز سیریز میں 16 سے 18 مقامات پر ایسے واقعات کی پیشن گوئی کی جاچکی ہے جو تیس سال کے عرصے میں مختلف اوقات میں حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ کارٹونز میں صرف بیان کی حد تک ہی پیش گوئی نہیں کی گئی بلکہ ٹائمنگز، مقامات اور طریقہ کار بھی بالکل ویسا ہی رہا ہے جیسا کچھ عرصے بعد حقیقت میں رونما ہوتا آیا، مثال کے طور پہ چاہے وہ سیزن 10 کی قسط نمبر پانچ ( 1998 ) میں کی گئی ڈزنی فاکس ٹیک آور کی نشاندہی ہو جو ( 2017 ) میں سچ ہوئی یا سیزن 6 کی قسط 19 ( 1995 ) میں سمارٹ واچز کی دریافت کی پیش بینی ہو جو 2014 میں سچ ثابت ہوئی،

چاہے وہ سیزن 11 کی قسط نمبر 17 ( 2000 ) میں کی گی ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کی پیشن گئی ہو جو سولہ سال بعد 2016 میں سچ ہوئی یا 1993 کی ہی ایک قسط میں بہت ذہانت سے دکھائی گئی کرونا وائرس کے حملے کی ایک جھلک ہو۔

یہ واقعات محض اتفاق نہیں ہیں سمپسن کارٹونز سیریز میں ہونے والی پیشن گوئیاں جو سچ ثابت ہورہی ہیں یقینًا ایک باقاعدہ پلاننگ کا حصہ ہیں۔ مگر یہ بھی یاد رکھیں کہ ان چالسازوں کو اختیاردینے والی ذات سب سے بڑی اور بہترین منصوبہ ساز ہے۔ اور ہم محض یہ کہہ کر کبوتر کی طرح آنکھیں نہیں بند کرسکتے کہ یہ یہود کی سازش ہے اور کچھ نہیں۔

مانا کہ پتھر خواہ اچانک لگے یا نشانہ باندھ کر لگایا جائے مگر اس کے نتیجے میں بنے زخم کو مرہم کہ ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ ناسور نہ بن جائے۔ اس لیے عقل مند لوگ اچانک اور منصوبہ بندی کے تحت لگنے والے وار میں فرق کی پہچان رکھتے ہوئے اس سے بچنے کے لیے حکمتِ عملی تیار کرتے ہیں اور بحیثیتِ مسلمان احتیاط کے ساتھ ساتھ ہمیں اللہ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ مان لیجئیے کہ جس تکلیف سے اس وقت مسلمان قوم گزرر رہی ہے اس کی بہترین دوا، ہوش و خِرد، دعا اور توبہ ہے۔ کیونکہ یہ بھی مقامِ شکر ہے ہمارا حال اب تک اطالیہ، ہسپانیہ اور امریکہ کی ریاستوں جیسا نہیں ہوا جو ہمارے لیے عبرت پکڑنے کو کافی ہے یعنی ہم ابھی بارڈر لائن سے کافی پیچھے ہیں۔ ورنہ قرآن مجید سے ثابت ہے کہ ہدایت آچکنے کے بعد بھی جن اقوام نے بے راہ روی کا وتیرہ اپنائے رکھا اللہ نے انہیں ان کی ہٹ دھرمی کے سبب عذاب میں میں مبتلا کیا

جیسے قوم سبا ایک پسندیدہ قوم تھی جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازا تھا، پر وہ اللہ کے ناشکر گزار تھے۔ وہ اللہ کی ان بے شمار نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے بجائے ناشکری کرنے لگے تو اللہ نے ان پر بھی اپنا عذاب نازل کیا۔ وہ باغات جس میں مختلف انواع و اقسام کی نعمتیں تھیں وہ جھاڑیوں میں تبدیل ہو گئیں۔ اسی طرح اہل مدین کاروباری معاملات کے دوران ناپ تول میں کمی کیا کرتے تھے۔ اچھا مال دکھاکر ناقص مال دیتے تھے اور کاروباری معاملات میں چوری کیا کرتے تھے اور زمین میں فساد پھیلاتے تھے اور عبادت میں شرک کیا کرتے تھے۔

”جب ہمارا حکم (عذاب) آ پہنچا، ہم نے شعیب کو اور ان کے ساتھ (تمام) مومنوں کو اپنی خاص رحمت سے نجات بخشی اور ظالموں کو سخت چنگھاڑ کے عذاب نے دھر لیا، جس سے وہ اپنے گھر وں میں اوندھے پڑے ہوئے ہو گئے۔ “ گویا کہ وہ ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہ تھے ” (سورۃ ہود ) حضرت لوطؑ کی قوم پر عذاب اور اس کے اسباب کا ذکر بھی قرآن پاک میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے۔

یہ بھی سچ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک صرف قرنطینہ اور ہاتھ دھونے میں مصروف نہیں ہیں ان کے اذہان وہاں تک سوچتے ہیں جہاں تک ہم چاہ کر بھی رسائی حاصل نہیں کرسکتے کیونکہ اقبال کے مطابق،

ہے نزع کی حالت میں یہ تہزیبِ جواں مرگ
شاید ہوں کلیسا کے یہودی متولّی

اور ہم تو اب اس فہرست میں بھی نہیں آتے کہ اس وائرس کی ویکسین کی ایجاد کے بارے میں سوچ بھی سکیں مگر کیا ہمارے لیے یہ لمحہء فکریہ نہیں کہ ہم اتنے بے بس کیوں ہیں اس سپر پاورکے سامنے جو کسی اور سپر پاور کے ماتحت ہے؟ اور ہم کیوں اس قدر لاچار ہیں اس محمدؐ کی امت ہوتے ہوئے جس نے اللہ سے اپنی امت کے لیے ہدایت اور بخشش مانگی۔

بقول شاعر
لذت ایمان فزاید در عمل
مردہ آن ایمان کہ ناید در عمل


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments