پوری قوم مردانہ کمزوری کا علاج ڈھونڈ رہی ہے


گلی کُوچے، بازار، عمارتوں کی دیواروں پہ لکھی تحریریں، عبارتیں اور اخبارات میں چھپے اشتہارات قوموں کے ذوق، فن اور ترجیحات کا پتہ دیتے ہیں۔

آج پرانی کتابوں کی الماری سے کچھ اخبارات نظر سے گزرے یہ اخبارات لگ بھگ بیس سال پرانے بھی تھے اور کچھ چند ماہ پرانے جن پر سرسری نگاہ ڈالی تو محسوس ہوا کہ ارضِ پاک کے باسیوں کے حوالے سے مندرجہ بالا مشاہدہ سو فیصد درست ہے کیونکہ ان رسائل اور اخبارات میں چھپے اشتہارات بیس سال پہلے جن مسائل کی نشادہی کر رہے تھے آج بھی اشتہارات میں وہی مسائل سر اٹھائے کھڑے ہیں۔

ان اشتہارات کی بدولت ہماری ترجیحات ہماری سوچ اور قومی ذوق کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ ذوق اور یہ مسئلے اگرچہ پوری قوم کے نہیں لیکن جس تواتر سے یہ اشتہارات ہماری اخبارات کی زینت بنتے چلے آ رہے ہیں اُس کو دیکھ کے تو یہی لگتا ہے کہ مردمِ پاکستان کی ایک خاصی تعداد کو اس مسئلے کے حل کی تلاش ہے۔ اوران اشتہارات کا تسلسل کے ساتھ چھپنا اس بات کی بھی غمازی کرتا ہے کہ اس عظیم قوم کو ایک خطرہ ہمہ وقت لاحق ہے جس کے پیش نظر اس قوم کے سپوت دن رات اس موذی مرض کے تدارک کے لیے اپنی جان ہتھیلی پہ رکھے نہ کوئی دیوار چھوڑ رہے ہیں اور نہ کوئی مقام۔ ان مجاہدین کی لگن اور یکسوئی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ اسکول و کالج، دفاتر اور مارکیٹیں تو کجا مساجد کے باہر بھی دشمن سے برسر پیکار ہیں۔

یہ غازی اور پراسرار بندے دن رات اس جستجو میں لگے ہیں کہ خلقِ خدا کو درپیش اس اولین مسئلے کے حل کا مجرب نسخہ تلاش کریں۔

یہ انسان دوست لوگ چلتی گاڑیوں، سمندر پہ ڈولتی کشتیوں اور ہوا میں مہلک جہازوں کی آہنی دیواروں پر بھی یہ پیغام تحریر کرنا چاہتے ہیں کہ پریشان نہ ہوں ”مردانہ کمزوری کا شافی علاج اب ممکن ہے“ اور یہ پبلک سروس میسج پوری دنیا تک پہنچانا ہے۔

طب کے اس شعبے میں جو کارنامے ہم نے انجام دہیے ہیں اقوامِ عالم اس کے لیے ہمارے ممنون بھی ہیں اور مشکور بھی اور کسی حد تک ہماری یہ کامیابی ان اقوام کو کھٹکتی بھی ہے۔

مگر یہ اقوام برملا اظہار کی جرأت نہیں کر پاتیں اور جرأت کریں بھی تو کیسے اگر ہم نے اپنی مصنوعات کی سپلائی بند کر دی تو ان کی داستاں تک نہ ملے گی داستانوں میں ہماری ان مصنوعات میں سرِفہرست ہے ”پشاوری سلاجیت“ سے بنی شباب آور گولیاں جن کی تشہیر کے لیے یہ سر بکف سر بلند سپاہی اب چاند پہ کمند ڈالنے کے خواب دیکھ رہے ہیں طب کے شعبے میں اتنی ترقی شاید ہی کسی ملک کے حصے میں آئی ہو گی۔

طب کے اس شعبے میں ہماری خدمات کا اور انتھک محنت کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ہم اگرچہ آبادی کے لحاظ سے ٹاپ ٹین کی لسٹ میں شامل ہیں لیکن اگر یوں ہی اس کارِ خیر کو جاری وساری رکھا تو اس لسٹ میں نمبر ون ہونا ہمارے لیے کوہی بعید نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments