مردہ سوچ کو قرنطینہ کرنے کی ضرورت


ہمارے ہاں اتنی بیماریاں نہیں جتنی بیماروں کی بہتات ہے۔ کئی دفعہ تو چلتے پھرتے غیر مستند ڈاکٹر ڈگری رکھنے والوں کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں، اور اپنی قابلیت ظاہر کرنے کے لئے صحت مند انسان میں اچھی خاصی بیماریاں ڈھونڈ لیتے ہیں۔ جیسا کہ اگر کسی کا دھوپ میں رہنے کی وجہ سے رنگ کالا ہورہا ہو تو اسے آگاہ کر دیاجاتا ہے کہ تمھارا جگر کام کرنا چھوڑ رہا ہے، کسی کا رنگ ساس کے خوف کی وجہ سے پیلا ہورہا ہے تو اس کے لئے پیلا یرقان تشخیص کر لیا جاتا ہے، یا پھر اگر صحت مندی کی وجہ سے کسی کے گورے گال پچکے ہوئے نہیں بلکہ سرخ انار ہیں تو سو فیصد گارنٹی کے ساتھ اسے ہائی بلڈ پریشر کا مریض قرار دے دیاجاتا ہے۔

چار نعمتوں اور چھ رحمتوں کے بعد اگر گیارہویں کھلاڑی کی آمد کا سلسلہ موقوف ہے تو اس کے لئے خواتین کو علاج کروانے کا مشورہ دیا جاتا ہے، شادی کے ابتدائی ایام میں اگر میاں بیوی جلد اولاد کے خواہش مند نہ ہوں تو پوری برادری کو وختہ پڑجاتا ہے، دلہن کی طرف کی رشتہ دار خواتین کو تو یہ تک پتہ لگ جاتا ہے کہ دولہا نامرد ہے بلکہ کچھ خواتین تو اسے فوری طلاق کا مشورہ بھی دے ڈالتی ہیں، کہ طلاق میں دیر کرنے سے دوسری شادی جلد نہیں ہوگی، جبکہ اس بیچاری کی پہلی شادی ہی منتوں مرادوں سے ہوئی ہوتی ہے، دولہا کی اماں تو ولیمہ پر ہی دلہن کی الٹیوں کے انتظار میں بیٹھ جاتی ہے، لیکن اگر ایک ماہ گزرنے پر بھی کوئی امید نظر نہ آئے تو سارا خاندان مل کرخلوت کی باتیں جلوت میں پوچھتا ہے اور نابالغوں کے سامنے نامردی و بانجھ پن جیسے پوشیدہ امراض کی علامتیں بتا کر عورتوں کو آستانوں اور مردوں کو حکماء کے پتے دے رہا ہوتا ہے۔

حکمت پر یقین کی بڑی وجہ بادشاہوں کی شادیوں کو کامیاب بنانے والے شاہی طبیبوں کے نسخے ہیں۔ اسی لئے اَسی سال کا بوڑھا بھی مطب خاص سے ہی رجوع کرتا ہے، یہ حکما کی نظر ہی ہے جو جوانی میں قدم رکھنے والے انجان نوجوانوں کو بذریعہ اشتہارات مطلع کرتی ہے کہ وہ اپنی جوانی کھو چکے ہیں۔ ہمارے ہاں نیم حکیم اور عطائی ڈاکٹر کوالیفائیڈ سرجنوں سے بھی زیادہ مقبول ہیں کہ بقول ان کے وہ نبض پکڑتے ہی بتا سکتے ہیں کہ موصوف یا موصوفہ کی کون سی بیماری کس خطرناک سٹیج پر پہنچ چکی ہے، نبض پکڑنے پر ان کو وہ بیماریاں بھی پتہ چل جاتی ہیں جو کسی اعلٰی جدید ترین لیبارٹری سے سے بھی تشخیص نہیں ہوتی، اسی لئے ڈاکٹروں سے زیادہ یہ نیم حکیم مقبول ہیں کہ ہمارے ہاں بیشتر افراد کی نظر میں قابل طبیب وہ ہے جو اچھے بھلے انسان میں بیماری ڈھونڈ لے، کئی لوگ ایسے بھی ہیں جن کی رپورٹ لیبارٹری سے مثبت نہ آئے تو اس پر شکر کرنے کی بجائے سوگ مناتے ہیں کہ ٹیسٹ کے پیسے ضائع گئے۔

میرے ایک جاننے والے پیٹ درد کی شکایت لے کر ڈاکٹر کے پاس گئے تو ڈاکٹر نے انھیں ایک لمبا پرچہ لکھ کر دینے کی بجائے کم کھانے کا مشورہ دیا تو موصوف ڈاکٹر کی قابلیت پہ شک کرتے حکیم کے پاس چلے گئے، اور اب وہ دو سال سے پیٹ درد کا علاج حکیم سے کروا رہے ہیں۔ اپنی فیلڈ میں لمبا عرصہ گزارنے کے بعد ہائی کوالیفائیڈ ڈاکٹر تھوڑے بہت مرض کو ہلکا لیتے ہیں، لہذا ان کی ڈگری کے ساتھ انھیں بھی مشکوک سمجھا جاتا ہے۔ ایک موصوفہ کئی برس سے گلے کے خود ساختہ مرض میں مبتلا تھیں لیکن حکیموں پر بھروسا بھی نہیں کرتی تھیں، ایسی بیبیوں کی وجہ سے ہی لیبارٹریاں چل رہی ہیں ورنہ تو تشخیص کے لئے حکما کے بقول ان کی نظر ہی کافی ہے، ہاں تو بات ہورہی تھی اس مریضہ کی، وہ بی بی اپنے مرض کی وجہ سے خاصی پریشان مختلف ڈاکٹروں کے نسخوں کے ساتھ ہر دوسرے کلینک میں پائی جاتیں، موصوفہ کے گلے میں انفیکشن تھا جس پر موصوفہ کا ایمان تھا کہ اسے گلہڑ ہے لیکن ڈاکٹر نے انھیں بتایا کہ انھیں تھائی رائیڈ نہیں وہم ہے، چونکہ مریضہ اپنے مرض کے حوالے سے خاصی مایوس تھیں، روتے ہوئے بولیں مجھے تو چار سال سے یہ مسئلہ ہے، جس پر ڈاکٹر نے خاصا تسلی بخش جواب دیا، بی بی پچھلے چار سال سے اگر تھائی رائیڈ ہوتا تو اب تک آپ فوت ہوچکیں ہوتیں آپ چونکہ زندہ ہیں اور چلنے پھرنے کی سکت بھی ٹھیک ہے تو ابھی آپ گلے سے زیادہ دماغی علاج پر دھیان دیں، جس کے لئے ڈاکٹر نے نفسیاتی ڈاکٹر کو دکھانے کا مشورہ دیا، جس کے جواب میں مریضہ نے ڈاکٹر کو پاگل پن کا زبانی سرٹیفیکیٹ دے دیا۔

ہمارے ہاں یہ بڑا المیہ ہے کہ جو ڈاکٹر زیادہ لمبا پرچہ لکھ کر دے وہ زیادہ قابل سمجھا جاتا ہے اور پھر مریض دوائیاں گن گن کر لوگوں کو فخر سے بتاتا ہے کہ وہ اتنا بیمار ہے کہ ڈاکٹر نے اسے دس دوائیاں دی ہیں پھر بھی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ اکثر لوگ جب بیمار نہیں ہوتے تب کوشش کرتے ہیں کہ بیمار سمجھ کر انھیں خاص اہمیت ملے، لیکن جب اصل میں بیمار ہوتے ہیں تب بیماری کو سنجیدہ نہیں لیتے اور اسے چھپانا شروع کر دیتے ہیں، مکمل پرہیز کی ہدایت پہ کھل کے بد پرہیزی کرتے ہیں اور اگر بچوں کی صحت کے پیش نظر انھیں بچوں سے ذرا فاصلہ رکھنے کو کہا جائے تو اس کا برا مان لیتے ہیں۔

جانے کیوں ہمارے ہاں لوگ کسی بھی معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ یہی حال ان دنوں دیکھنے میں آرہا ہے، پوری دنیا میں کرونا نے تباہی مچا رکھی ہے، کتنے کتنے سو ایک ہی دن میں اس کا شکار ہورہے ہیں، دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں، لاکھوں افراد اس مرض میں مبتلا ہو کہ ہسپتالوں میں پڑے ہیں لیکن ہمیں اس وقت بھی شغل میلے کی پڑی ہے اور کرونا پر لطیفے بنانے ہی سے فرصت نہیں۔ کہیں کرونا کو للکارا جارہا ہے تو کہیں اس کو جھوٹا خوف پھیلانے کی سازش قرار دیا جارہا ہے، تو کہیں بیماری کو چھپایا جارہا ہے۔

جتنا احتیاط کرنے کا کہا جا رہا ہے اتنا ہی گھل مل کر یہ لوگ ابتلا کو خود دعوت دے رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال عمرہ سے آنے والے مردان کے رہائشی کی ہے، جس نے بیماری کی علامتیں محسوس کرنے اور حکومتی اعلانات کے باوجود خود کو تنہا نہیں کیا، خود تو مرگیا لیکن اپنے ساتھ ملنے والوں کو بھی لے ڈوبا۔ اب جانے کتنے لوگ اس مرض میں مبتلا ہوں گے یہ تو آہستہ آہستہ پتہ چلے گا۔ ایسے ہی کئی لوگ اس بیماری کی علامتیں محسوس کرنے کے باوجود نہ ٹیسٹ کروارہے ہیں اور نہ خود کو قرنطین کر رہے ہیں بلکہ کئی لوگ قرنطینہ سے بھاگنے کوشش کر رہے ہیں، اور کئی غلط پتے بتا کر بھاگ چکے ہیں، سب اپنی اپنی من مرضی کر رہے ہیں۔

سوشل ڈسٹنس رکھنے کے لئے سکول دفاتر بند لیکن گلی محلوں میں کرکٹ کھیلی جارہی ہے، دکانوں کے تھڑوں پہ بیٹھ کے کرونا پر تبصرے کیے جا رہے ہیں، لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں دعوتیں اڑارہے ہیں اور اگر غلطی سے کوئی خود محتاط رہنے کی کوشش کرے تو اس کا بھی برا منا لیتے ہیں کہ ہم سے پرہیز کی جا رہی ہے۔ اللہ کے بندو اتنا احساس کر لو کہ ملک کتنے دن لاک ڈاؤن ہو سکتا ہے، زندگی مفلوج ہو کے رہ چکی ہے، کتنے دن تک کاروبار بند رہ سکیں گے، ان لوگوں کو ایک بار ذہن میں رکھ لو جن کے گھروں میں تم لوگوں کی بے احتیاطی کی وجہ سے فاقے بڑھ جائیں گے اگر چند دن بس تھوڑی سی احتیاط کرلی جائے تو سب کچھ اللہ کے حکم سے جلد ٹھیک ہو جائے گا۔

جانے کیا لوگ ہیں روز اٹلی اور ایران کے حالات دیکھ کر توبہ تو کرتے ہیں لیکن تائب نہیں ہورہے۔ سب مرشد کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ کسی جادوئی پھونک کے ذریعے ٹھیک کر دے لیکن ہمیں کچھ نہ کرنا پڑے، یہ کوئی نہیں سوچ رہا کہ اگر یہی غیر سنجیدگی رہی تو اس کا ازالہ پھر کسی مرشد کے پاس نہیں ہوگا، لوگوں کو سامنے کی بات نہیں سمجھ آرہی کہ پورا ملک کس وجہ سے بند ہے اگر احتیاط کر لیں تو آنے والے مشکل وقت سے بچ جائیں گے ورنہ صورتحال اٹلی اور ایران سے زیادہ ہولناک ہوگی، نہ مریضوں کے لئے بستر ہوں گے نہ علاج کے لئے ڈاکٹر، بس بیماری ہوگی اور بھوک ہوگی۔

ہاسے آں چ یار گنوایا، تے ہوکے آ چ لبھ دی پھراں

اگر بے احتیاطی کا یہی عالم رہا تو پھر ہوکے بھرنے کے لئے بھی سانسیں نہیں ہوں گی۔ عجب مزاج کے مردہ سوچ والے زندہ لوگ جنھیں دوسرے کی جان کی پرواہ ہے نہ اپنی صحت کی فکر، معاملے کے سنگینی کا احساس تک نہیں، مصیبت کی چاپ سن رہے ہیں نہ وقت کا چلن سمجھ رہے ہیں۔ بس بے حسی کی پوشاک پہنے جیئے جارہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments