کیا وبائیں آسمان سے اترتی ہیں؟


میرے ایک ادیب دوست نے مجھے گزشتہ دنوں حالیہ کرونا کی وباء کے حوالے ان سوالات اور جوابات پر مبنی ایک پیغام بھیجا :

میرے خیال میں کرونا وائرس کوئی بیماری نہیں۔ یہ اللہ کی ناراضگی کا اظہار ہے۔ یہ اللہ کا نازل کردہ عذاب ہے۔

اللہ نے خدائی کا دعوی کرنے والے نمرود کو ایک مچھر سے ہلاک کیا۔

کیوں؟ اس کی حقیقت دکھانے کے لیے۔

پچھلے دنوں ایک نعرہ سننے کو ملا تھا: ”میرا جسم میری مرضی“ میں جو چاہوں کروں۔ اب کوئی پوچھے کس کی مرضی چل رہی ہے؟ کوئی روک کر دکھائے۔

فلسطین کے ایک معصوم بچے نے اسرائیلی بمباری سے شہید والے اپنے باپ کی میت کے پاس بیٹھ کر کہا تھا:

میں اللہ کے پاس جا کر سب بتاوں گا۔

کیا اللہ اب بھی پکار نہ سنتا؟

صحرائے تھر میں بھوک سے تڑپتے مرتے بچوں میں سے ایک بچی نے کہا: ”میں مرنا چاہتی ہوں تا کہ جنت میں جا کر کھانا کھا سکوں۔ “

کیا اللہ اب بھی پکار نہ سنتا؟

دلی میں حالیہ دنوں میں مسلم کشی کی بہیمانہ کوششوں میں کتنے مسلمانوں کو لاٹھیوں سے مار مار کر ہلاک کر دیا گیا اور عالمی نمبر ایک طاقت نے کہا: یہ انڈیا کا اندرونی معاملہ ہے۔ کسی ملک نے کوئی آواز نہیں اٹھائی۔

دلی کی مسجدوں پر چڑھ کر مینار توڑ کر ان کی بے حرمتی کی گئی۔

کیا اللہ اب بھی ناراض نہ ہوتا؟

روہنگیا مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ آگ برسائی گئی۔ کون ان کی مدد کو آیا؟

کوئی نہیں۔

کشمیری مسلمان چھ ماہ سے گھروں میں قید ہیں۔ گھر سے خوراک اور دوائی لینے کے لئے نکلنے والا ہمیشہ کی نیند سلا دیا جاتا ہے۔

کیا خدا اب بھی خاموش رہتا؟

خدا را کچھ تو سمجھیں۔ یہ وباء نہیں، خدا کا عذاب ہے۔ ”

”آپ کا اس بارے کیا خیال ہے؟ “

میں اپنے ادیب دوست کی مذہبی عقیدت کا دل سے احترام کرتا ہوں اور ان کی رائے کا بھی۔

اس لیے میں کسی مذہبی بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔

جہاں تک دنیا میں کمزور اور بے بس لوگوں کے بنیادی حقوق سلب کیے جانے کا تعلق ہے، میں اس بات سے بھی اتفاق کرتا ہوں کہ اس ہر قوم کو اپنی زندگی اپنی رضا و منشا سے گزارنے کا حق بھی حاصل ہے۔ اور دنیا میں جہاں کہیں لوگوں پر مظالم ہو رہے ہیں ان کو بند ہونا چاہیے۔

پاکستان کے جنوب مشرق کے ’‘ صحرائے تھر ”میں لوگوں کو صاف پانی، خوراک اورعلاج معالجے کی سہولیات بہم پہنچانا حکومت سندھ کی ذمہ داری ہے جو اس کو پوری کرنی چاہیے۔

اب جہاں تک یہ بات کہ کرونا وائرس کوئی وباء نہیں بلکہ آسمان سے اترا ہوا کوئی عذاب ہے۔ اس کو تاریخی حوالے سے دیکھنے سے شاید بات واضح ہو سکے۔

تاریخ شاہد ہے کہ جو تکلیف، دُکھ یا ابتلا انسانی عقل سے ماورا ہو وہ اس کو کسی ماورائی قوت سے منسوب کرتا آیا ہے۔

مثال کے طور پر جب انسان سائنسی تحقیق اور علم سے محروم تھا اس دور میں انسان کو بارشیں، ہوائیں، گرمی اور سردی بھی عذاب لگتی تھی۔ قدیم مصر میں لوگ اپنی فصلوں کو دریائے نیل کی تباہیوں سے بچانے کے لیے بارش کے دیوتا سے اپنے گناہ کی معافی اور سیلابوں سے بچنے کے لیے پانی کے دیوتا کے حضور دریا میں کنواری لڑکیوں کو ذبح کر کے بہا دیتے تھے۔ یہ چڑھاوا تھا جو دیوتاوں کو خوش کرنے کے لیے کیا جاتا تھا۔ وہ لوگ بجلی چمکنے پر خوف سے کانپ اٹھتے اور تیز آندھیوں سے بھی ڈر جاتے تھے۔

مگر جوں جوں انسان کا علم ترقی کرتا گیا۔ اس پر سے خوف کے سائے بھی چھٹتے گئے۔ اس نے قوانین فطرت سے آگاہی حاصل کر لی اور قدرت کی وہ طاقتیں جن سے کبھی خوف کھا کر سہم جاتا تھا، اپنے علم کی طاقت سے مسخر کر لیں۔

اب وہ پانی، ہوا اور بجلی سے ڈرنے کی بجائے ان کو اپنے استعمال میں لے آیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آج کا انسان قدرتی عوامل، فطری تغیرات اور قدرت کی پوشیدہ طاقتوں کو لگام ڈالے ہوئے ہے۔ اب وہ پانی کو تباہی نہیں مچانے دیتا بلکہ دریاوئں پر ڈیم بنا کر کئی طرح کے فوائد حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح انسان نے اپنی عقل اور شعور سے زلزلوں، سردی، گرمی اور مختلف وبائی امراض کا علاج بھی دریافت کر لیا ہے۔ اس کے ساتھ اس نے زندگی کے باقی شعبہ ہائے زندگی میں اپنے علم، تجسس اور تحقیق کی عرق ریزیوں کے طفیل قدرت کے سر بستہ رازوں کو بے نقاب کر دیا، بلکہ اپنے مفاد میں استعمال کر رہا ہے۔ حتیٰ کہ طب میں ترقی اور علاج معالجوں کی سہولیات کی وجہ سے انسان نے اپنی عمر کو بھی طویل کر لیا ہے۔

گزشتہ ہفتوں میں دنیا بھر میں برپا ہونے والی وباء کی وجوہات بارے حتمی رائے ابھی تک سامنے نہیں سکی۔ ابھی تک دو سو سے اوپر جانوروں کے جینز کے ساتھ کرونا وائرس کے جینز کا موازنہ کیا جا چکا ہے۔ جوں ہی موازنہ کامیاب ہو گیا۔ اس جانور کے جینز سے اس وائرس کی اینٹی باڈیز سے ویکسین تیار کر لی جائینگی۔ اس وقت تک ماہرین کی طرف سے دی گئی احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کیا جانا ضروری ہے۔ میری حقیر رائے میں انسانوں کا خدا سے تعلق بلا واسطہ نہیں، بلکہ بالواسطہ ہے اور وہ واسطہ قوانین فطرت ہیں، جو اٹل ہوتے ہیں۔

جو اقوام ان قوانین پر عمل کرتی ہیں وہ دنیا میں ترقی و خوشحالی کی منازل طے کرتی جاتی ہیں اور جو ان قوانین سے رو گردانی کرتی ہیں وہ پسماندگی اور درماندگی کی حالت میں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ خواہ ان کا ایمان خدا پر کتنا ہی پختہ کیوں کہ نہ ہو اور وہ کتنی ہی شدت سے عبادات کیوں نہ کرتے ہوں۔

قوانین فطرت سماجی سائینسدان، فلسفی اور عام سائینسد ان معلوم کرتے ہیں اور ان کو انسانوں کے فائدے میں استعمال کرنے کے طریقے بھی بتاتے ہیں۔

کرونا وائرس ایک قدرتی وباء ہے جس پر طب سے متعلق سائینسدان جلد قابو پا لینگے۔ ماضی میں بھی ایسی وبائیں پھوٹتی رہی ہیں اور ان پر علم اور طبی حکمت سے قابو بھی پا لیا جاتا تھا۔ مثال کے طور پرای بولہ، سوائن فلو سارس، مرس، برڈ فلو، چیچک اور طاعون وغیرہ۔

جب اٹلی کے وزیر اعظم سے منسوب آسمانوں کی طرف دیکھنے والی خبر سنی تو مجھے جون ایلیا کا شعر یاد آگیا :

”یوں جو تکتا ہے آسمان کو تُو

کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا؟ ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments