مختاریا۔ گھر بیٹھ: یہ کھیل ہرگز نہیں


مہذب قومیں سنجیدہ ہوا کرتی ہیں۔

یہ دنیا جب سے معرض وجود میں آئی حضرت انسان نے ہر دم خود کو بڑی توپ جانا۔ پل پل خالق حقییقی کو چیلنج اپنا وتیرہ بنایا۔ بے شک اللہ کی ذات رحیم اور غفور ہے۔ وہ انسانوں پر ظلم نہیں کرتا۔ مگر یہ بھی سچ ہے انسان متکبر اور ظالم ہے۔ اس نے ہر لمحہ خود کو صاحب اختیار مانتے ہوئے اپنی حدود سے تجاوز فرمانے کی عادت کو اپنایا۔

پھر وہ تو خدائے برحق ہے جو ہر چیز پر قادر ہے اس نے حضرت انسان کو اس کی اوقات سمجھانے خاطر اس دھرتی پر ذرا سی مصیبت نازل فرمائی تو انسانوں کو بے بس کر دکھایا۔

حضرت آدم کو جنت سے نکالا گیا تو انہوں نے ہزاروں بار استغفار کیا توبہ کی مگر اللہ کے حضور قبول نا ہوئیں۔ پھر اللہ نے خود حضرت آدم کو الفاظ سکھائے کہ ان الفاظ سے توبہ کیجئیے میں اللہ پھر آپ کو معاف کروں گا۔ وہ الفاظ یہ تھے

”اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ اور اگر تم نے ہمیں معاف نا فرمایا ہم پر رحم نا کیا تو بے شک ہم خسارے والوں میں ہوں گے۔

اس دعا کے الفاظ پر ذرا غور کیجئے تو ایک واضح پیغام ہمارے لئے موجود کہ یہ انسان ہی ہے جو اپنی جان پر ظلم کرتا ہے۔ خدا تعالی کی ذات غفور ہے رحیم ہے وہ ظلم ہرگز نہیں کرتا۔ یہ ہماری اپنی خطائیں اپنی لغزشیں جو اس گاہے بگاہے ہم پر وبا کی شکل میں وارد ہوتی ہیں۔

بہرحال ان تمام وباوں اور عذابوں سے حتمی نجات تو وہی خالق کل عطا کر سکتا ہے مگر کیونکہ اللہ تعالی نے انسان کو عقل اور تدبر سے کام لینے کی نصیحت فرما رکھی ہے اور پھر عقل جیسی نعمت سے نواز رکھا ہے۔

تو پھر جہاں بطور انسان ہمارا فرض ہے کہ ہم اللہ تعالی سے اپنے گناہوں پر مغفرت کی دعا مانگیں۔ یہ اعتراف کریں کہ ہم گنہگار ہیں ہم پر یہ وبا یہ مصیبت ہمارے گناہوں کی سزا ہے اس لئے اے باری تعالی ہمارے گناہوں سے درگزر فرما کر اپنی رحمت اور فضل برسا دے۔ وہاں ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ ہم اللہ تعالی کی عطا کردہ عقل اور نعمتوں کو بروئے کار لا کر احتیاطی تدابیر پر بھی عمل پیرا ہوں۔

میں پہلے بھی عرض کر چکا یہ کھیل ہرگز نہیں۔

قارئیں ن کرام کرونا کا پہلا کیس دسمبر 2019 کو رجسٹر ہوا۔ یہ چین کے صوبہ ووہان میں ظاہر ہوا۔ چائنہ بلاشبہ ایک ترقی یافتہ ٹیکنالوجی سے بھرپور ملک ہے۔ اس کے باوجود جب تک وہ اس مرض کی تشخیص تک پہنچا ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا تھا۔

چائنہ میں راتوں رات انسٹھ ہزار لوگ اس بیماری کا شکار ہوئے اور ان میں سے سینکڑوں لقمہ اجل بن گئے۔

پھر انہوں نے اس صورت حال کی کشیدگی کو بھانپتے ہوئے مناسب حل لاک ڈاون کو پایا اور انہوں نے کر دکھایا۔ سب سے پہلے انہوں نے اپنے اس صوبے کا رابطہ اپنے ہی دوسرے صوبوں سے منقطع کیا۔ نیشنل اور انٹرنیشنل فلائٹس پر روک لگائی۔ پورے ملک میں گلوز ؛ماسک اور سینیٹائزرز کی فیکٹریاں آب وتاب سے چلنے لگی اور انہوں نے وہ تمام پیداوار اس وبا سے لت پت صوبے تک پہنچائی۔ دوسرے مرحلے میں چائنہ نے لوگوں کو گھروں تک محدود کر کے رکھ دیا۔ انہوں نے اس دوران اپنے لوگوں کو جہاں گیس بجلی اور پانی کی سپلائی بڑھائی وہاں ان کے اکاونٹس میں رقم بھی منتقل کی اور حکومت کا فرض ادا کرتے ان کو سائبان بھی مہیا کیا۔

جہاں چائنہ اپنے ملک کے باشندوں کی حفاظت کے فرائض کو نبھا رہا تھا وہاں پوری دنیا کو ان خطرات سے آگاہ بھی کر رہا تھا۔ وہ لمحہ بہ لمحہ پوری دنیا کو اس بڑھتے ہوئے خطرات سے محتاط کر رہا تھا۔ وہ نا صرف لوگوں کو اس بیماری کی علامات کا علم دے رہے تھے بلکہ احتیاطی تدابیر بھی بلاتواتر بتا رہے تھے۔

سوال تو یہ ہے کہ ہم نے کیا سیکھا۔ ہم وہ ملک ہیں جنہوں نے اس بیماری کے تمام علامات اور بلخصوص کے چائینہ میں ہونے والے تمام واقعات کو بہت گہرائی سے جانا ہمارے ملک کے سب سے بڑھے صوبہ پنجاب کے وزیراعلی صاحب کے قول کے مطابق انہیں سات جنوری کو ہی اس ناگہانی آفت کی مکمل آگاہی تھی۔ میرے جیسے عام آدمی کے ذہن سے یہ خیال برآمد ہوتا ہے کہ اس سب کے باوجود کیا حکمت پنہاں تھی کہ ہم انتظار کرتے رہے۔

ہم اس بات کا انتظار کرتے رہے کہ یہ بیماری ہمارے ملک میں آئے تو ہم کوئی عملی اقدامات اٹھائیں۔ میں اس نازک وقت میں کسی بہتان تراشی سے کام نہیں لینا چاھتا مگر پھر بھی سوال کا حق میرے پاس محفوظ ہے کہ ہم نے اپنے چین میں رہنے والے ہموطنوں اور ایران سے آنے والے زائرین کے بارے میں پالیسی میں تضاد کیوں رکھا۔

ہم نے اس تفریق سے کس کی خوشنودی حاصل کی اور کیونکر اس وبا کو دعوت دی۔

میں مزید ان چیزوں میں الجھنا نہیں چاھتا مگر بہرحال اس بات کا اعتراف لازم ہے کہ بحیثیت حکمران کچھ کوتاہیاں سرزد ہوئیں ہیں۔ سب سے بڑھ کر لاک ڈاون میں تاخیر جیسا گناہ ہے جو کہ کم ازکم پندرہ دن تاخیر سے ہوا ہے۔

جلد یا بدیر حکومت نے اپنا فرض تا ہم ادا کر دیا ہے اب بحیثیت عوام ہمیں اس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ اور میں خود کے ساتھ اور اس ملک کے ساتھ محبت کا دعوی ہے تو پھر ہر صورت ہمیں انفرادی طور پر خود کو آئسولیٹ کرنا ہو گا سوشل ڈسٹیننگ پر عمل پیرا ہونا ہو گا۔

ندیم افضل چن صاحب کا وہ پیغام صرف مختارے کے لئے نہیں پوری قوم کے لئے ہے ”مختاریا۔ گھر بہہ“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments