کرونا سے جنگ، امیون سسٹم، میڈیکل سائنس اور اسلام


تاریخ نے کرونا کی شکل میں ایک بار اسلام کی حقانیت کو ظاہر کیا ہے اور دنیا ایک بار پھر اسلام کی دوراندیشی کو سلام پیش کر رہی ہے۔ سب سے پہلے یہ جان لیں کہ دنیا میں اس وقت تک کرونا کا کوئی بھی علاج دریافت نہیں ہو سکا ہے۔ جتنے مریض بھی ٹھیک ہوئے ہیں ان کی زندگی کسی دوا یا سائنس کی مرہون منت نہیں بلکہ اس میں ففٹی پرسنٹ کردار احتیاطی تدابیر کا ہے اور ففٹی پرسنٹ کردار ان کی قوت مدافعت کا ہے۔

انسانی جسم میں اللہ تعالی نے ایک خودکار دفاعی نظام وضع کر رکھا ہے جو مہلک وائرسوں سے انسان کی حفاظت کرتا ہے۔ اس نظام کو immune system کہا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب ہر انسان کے اندر خود ایک طرح کا دفاعی نظام موجود ہے تو بیرونی وائرس اس پر کس طرح ایک مہلک حملہ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں؟ ہوتا اس طرح ہے کہ جب کوئی وائرس انسان کے جسم میں داخل ہوتا ہے تو وہ اس کے خلیوں کے D۔ N۔ A کے اگلے مورچوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

جب وائرس حملہ کرتا ہے انسان کے immune system کی سپاہ فوراً حرکت میں آتی ہے اور حملہ اور وائرس کو مارنے کی کوشش کرتی ہیں اور اgر وہ مضبوط ہوں تو اس وائرس کو ہلاک کر دیتی ہیں۔ لیکن بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ حملہ آور وائرس بہت طاقتور ہوتا ہے جس کے سامنے انسانی امیون سسٹم کی سپاہ پسپا ہو جاتی ہیں اور وہ مہلک وائرس پورے جسم کے خلیوں پر قبضہ کر کے جسم کو تخریبی ہدایات دینا شروع کر دیتا ہے جس کا نتیجہ موت نکلتا ہے۔

اس بات پر میڈیکل سائنسز کا اتفاق ہے کہ انسان کا مدافعاتی نظام جس قدر مضبوط ہو گا اس میں کرونا سے لڑنے کی اتنی ہی صلاحیت ہو گی اور جس قدر یہ نظام کمزور ہوگا موت کے چانس اسی قدر زیادہ ہوں گے۔ یعنی موجودہ دور میں جبکہ کرونا کی ویکسین تک نہیں ہے، ضرورت اس امر کی ہے کی حفاظتی تدابیر اختیار کی جائیں اور امیون سسٹم کو مضبوط بنایا جائے۔ اب رہا یہ سوال کہ امیون سسٹم کو کیسے مضبوط بنایا جائے؟

امیون سسٹم یا قوت مدافعت کو بہتر بنانے پر جتنی ریسرچ ہوئی ہے اس کا نچوڑ امریکا کی مشہور ہاورڈ یونیورسٹی (Harvard University) کی ویب سائیٹ پر بھی موجود ہے اور اس کے علاوہ دنیا کی تمام میڈیکل سائنسز اور ہیلتھ سے متعلقہ ویب سائیٹ پر بھی اس سلسلے میں واضح ہدایات موجود ہیں۔ حال ہی میں امریکا کے صف اول کے اخبار نیویارک ٹائمز (The New York Times) کی بانی مدیر تارا پارکر پوپ نے اس پر ایک جامع آرٹیکل بھی لکھا ہے جس میں انہوں نے Carnegie Mellon University کے تحقیق کے ساتھ ساتھ Ohio State University میں ہونے والی ریسرچ کو مدنظر رکھا ہے۔

اس کے علاوہ انہوں نے داکٹر Ketherine Kung اور داکٹر Dipak Sarkar کی تحقیق کو بھی مدنظر رکھا ہے جبکہ چھوٹی سطح کی متعدد ریسرچ اس کے علاوہ ہیں۔ ان تمام ریسرچ اور میڈیکل کا سائنسز نے امیون سسٹم کو مضبوط بنانے کے لیے جن چیزوں کو اپنانے پر زور دیا ہے ان میں پہلی چیز سگریٹ نوشی (Smoking) سے اجتناب ہے۔ اس سے منہ، گلے اور پھیپھڑوں کا کینسر بھی ہوتا ہے اور موجودہ حالات میں کرونا کا سب سے شدید حملہ نظام تنفس پر ہی ہوتا ہے۔

اسلام نے صدیوں پہلے اس جانب توجہ دی اور ہر طرح کے نشے سے منع کر کے سموکنگ سے دور رہنے کی راہ ہموار کی۔ میڈیکل سائنس کی درجنوں ریسرچ نے سگریٹ نوشی کو جان کے لیے مہلک قرار دیا ہے۔ اسلام نے متعدد آیات اور احادیث کی صورت میں نہ صرف سموکنگ بلکہ ہر چیز سے منع کیا ہے جو مال اور جان کے ضیاع کا سبب بنے۔ امیون سسٹم کو مضبوط بنانے کے لیے دوسری چیز روزانہ کی بنیاد پر ورزش (Daily Exercise) ہے۔ میڈیکل سائنسز کے مطابق ورزش سے انسانی جسم نہ صرف مضبوط ہوتا ہے بلکہ اس میں بیماریوں سے لڑنے کی استعداد میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

اسلام نے سی کڑوں سال پہلے اس جانب نہ صرف انسان کی توجہ دلائی بلکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جانب عملی رہنمائی بھی فرمائی۔ آپ نے فرمایا ”اللہ کی بارگاہ میں قوی مومن کمزور مومن سے زیادہ محبوب ہے۔ مسند امام احمد میں ہے کہ کچھ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں کمزوری کی شکایت کی تو آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی اور انہیں تاکید کی تیز تیز چلا کرو۔ اس حدیث میں کمزور امیون سسٹم اور اس کے تدارک کے رہنما اصول موجود ہیں۔

آپ نے انسانی امیون سسٹم کو ورزش کے ذریعے نہ صرف مضبوط بنانے کی طرف رہنمائی کی بلکہ اس میں Graduality کی تکنیک بھی اپنائی جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر سے ایک مروی ایک روایت سے پتا چلتا کہ آپ نے گھڑدوڑ کا مقابلہ کرایا اور توانا و تیار گھوڑوں کے لیے مقام حفیاء سے ثنیة الوداع تک ( 5 میل) کا ٹریک منتخب فرمایا جبکہ کمزور گھوڑوں کے لیے ثنیة الوداع سے مسجد زریق (ایک میل) کا ٹریک چنا۔ فزیکل ہیلتھ کی جدید تعلیم کے مطابق نماز خود ایک جامع ورزشی کورس بھی ہے۔

میڈیکل سائنسز کی مطابق Immune System کو مضبوط بنانے کے لیے تیسری اور چوتھی بالترتیب شراب نوشی سے بچنا اور وزن کا معتدل ہونا ہے۔ ماڈرن میڈیکل ڈھیروں ریسرچ اس بات پر شاہد ہیں کہ انسان کا بالکل کمزور ہونا یا حد سے زیادہ موٹا ہونا اس کے لیے جان لیوا ہیں۔ موٹاپا اس ودر مہلک ثابت ہوا کہ اس کی بیخ کنی کے لیے مغرب میں سمارٹنیس کا جنون پیدا ہو گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انسان مختلف قسم کی ادویہ استعمال کرنے لگا جن کے مہلک اثرات نے اسے مختلف بیماریوں کی آماجگاہ بنا دیا۔

لیکن اسلام نے بہت کمزوری کی طرح موٹاپے کو بھی ناپسند فرمایا اور اس سلسلے میں افراط اور تفریط نامی دو اصطلاحیں دنیا میں متعارف کرائیں جو دنیا کے ہر شعبے کی طرح وزن کے سلسلے میں بھی رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ وزن کی افراط (موٹاپا) اور تفریط (کمزوری) دونوں سے بچو بلکہ اعتدال (Healthy Weight) کو اختیار کرو۔ آج ڈاکٹروں کا بنا ہوا ایک چارٹ ملتا ہے جس میں عمر کے اعتبار سے صحت مند وزن کی نشاندہی کی گئی ہے۔

آپ اپنے خاندان سے کسی صحت مند فرد کا انتخاب کریں جو وزن کی کمی یا زیادتی کا سکار نہ ہو اور اس کا وزن کریں۔ پھر ڈاکٹروں کا بنا ہوا وہ میڈیکل چارٹ دیکھیں جس میں عمر کے اعتبار سے صحت مند افراد وزن لکھا ہوتا ہے تو آپ اسلام کی عالمگیریت کے قائل ہو جائیں گے۔ اسی طرح اسلام نے شراب نوشی (Drinking) سے منع فرمایا۔ جب سے کرونا نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے وہ یورپ بھی اس سے منع کر رہا ہے جہاں اس ڈرنکنگ سے بغیر زندگی ادھوری سمجھی جاے ی ہے۔

آج وہاں کے ڈاکٹرز کی جاری کردہ ایڈوائزری کے مطابق کرونا سے لڑنے کے لیے درکار امیون سسٹم کو شراب سے بچانا بہت ضروری ہے۔ Immune Systems کی مضبوطی کے لیے پانچویں چیز انفیکشن سے بچنا ہے۔ جدید سائنسز کے مطابق انفیکشن سے بچنا صفائی سے ہی ممکن ہے اور اسلام نے بھی دن میں پانچ بار وضو، غسل اور کھانے سے پہلے اور بعد ہاتھ دھونے کی تعلیم دے کر انفیکشن سے بچنے کی راہ دکھائی۔ چھٹی چیز Stress دے بچنا ہے اور اسلام نے ”خود کو تباہی میں نہ ڈالو“ کہہ کر اس جانب بھی اشارہ کیا۔ ساتویں چیز غذا کا مناسب استعمال ہے۔ نبی کریم نے اس جانب بھی رہنمائی فرمائی کہ پیٹ کے تین حصے کرو، ایک خوراک، دوسرا پانی اور تیسرا ہوا کے لیے۔

میڈیکل سائنسز کے مطابق مدافعاتی نظام کو مضبوط بنانے اور کرونا وائرس سے لڑنے کے لیے آٹھویں چیز مناسب نیند (Adequate Sleep) ہے جس کی مقدار کم از کم چھ سے آٹھ گھنٹے ہے۔ اسلام نے ”اور ہم نے تمہاری نیند کو باعث سکو بنایا“ سورہ النباء۔ غزوہ بدر کے دن جب مسلمان نیند کی کمی سے لڑکھڑا رہے تھے تو اللہ تعالی نے ان پر ایک اونگھ طاری کی جس سے ان کی نیند پوری ہو گئی اور دشمن سے لڑنے کے لیے ان کا امیون سسٹم تروتازہ ہوگیا۔

اس کو اللہ تعالی نے ”امنہ“ کہہ کر دنیا پر واضح کیا کہ امیون سسٹم کے مامون و محفوظ رہنے کے لیے نیند کا پورا ہونا ضروری ہے۔ اسلام نے نماز عشاء اور فجر کی صورت میں انسان کے سونے اور جاگنے کو ریگولر بھی کیا۔ کرونا آیا، اس کی ویکسین نہ بن سکی اور دنیا نے بچاؤ کے لیے امیون سسٹم کی مضبوطی اور حفاظتی تدابیر کی ایک لسٹ بنائی۔ دنیا نے جب اس لسٹ کو دیکھا تو خود کو اسلام کی آغوش میں پایا۔ جس طرح ہر تخریب میں تعمیر کا پہلو بھی ہوتا ہے اسی طرح کرونا کی تخریب سے تعمیر کا یہ پہلو بھی برآمد ہوا کہ غیرمسلم تو غیرمسلم خود مسلمان اسلام کے ایک نئے زاویے سے متعارف ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments