غیرمعمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات


پاکستان سمیت دنیا اس وقت بڑی عالمی وبا کرونا وائرس سے نمٹنے کی کوشش کررہی ہے۔ وہ ممالک جو بہت زیادہ ترقی اور وسائل رکھتے ہیں ان کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ہمارے جیسے ممالک جہاں سماجی اور معاشی ڈھانچے کمزور ہیں وہاں تو حالات اور زیادہ مخدوش دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ بالخصوص حالات سے نمٹنے کے لیے جو بنیادی نوعیت کی سہولیات اور ڈھانچہ ہمیں درکار ہے اس کا فقدان ریاستی و حکومتی سطح پرغالب ہے۔ ایسے میں ہماری ریاستی او رحکومتی توجہ کا مرکز مخیر حضرات یا وہ سماجی ادارے ہیں جو عمومی طور پر مشکل حالات میں لوگوں کی مدد کے لیے سامنے آتے ہیں۔ کیونکہ ہم اپنے کمزور معاشی صورتحال کے پیش نظر عام اور غریب طبقات جو اس حالیہ وبا کے بحران کا معاشی شکار ہوئے ہیں ان کی بڑی مدد کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ عمومی طور پر بڑے سنگین نوعیت کے بحران کبھی بھی حکومت یا ریاست تن تنہا نہیں کرسکتی او راسے سماج کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کرونا وائرس کے تناظر میں ہم ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔ لیکن ایسی صورتحال میں صرف دو ہی راستے ہیں۔ اول ہم بحران میں خود داخلی یانفسیاتی طور پر مزید بحران کا شکار ہوکر خود کو بھی او رسماج کو بھی ایک غیر یقینی کیفیت میں مبتلا کردیں۔ یہ صورتحال لوگوں میں نہ ضرف ایک بڑا بحران پیدا کرے گی بلکہ جو ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت ہوتی ہے اسے بھی شدید طور پر متاثر کرتی ہے جو ہمیں پیچھے کی طرف لے جاتی ہے۔ دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ بحران سے نمٹنے کے لیے نہ صرف آپ غیر معمولی صورتحال کا سامنا کرتے ہیں بلکہ نفسیاتی طور پر اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ خود بھی کھڑے ہوتے ہیں اور دوسروں میں بھی حالات سے نمٹنے کی صلاحیت پیدا کرکے مسائل سے نمٹتے ہیں۔

بدقسمتی سے ہم اگر پاکستان کی صورتحال کا تجزیہ کریں تو اس میں ہمیں ایک طرف وہ لوگ ریاستی، حکومتی، ادارہ جاتی او رسماجی سطح پر انفرادی یا اجتماعی سطح پر نظر آتے ہیں جو کسی نہ کسی شکل میں محدود وسائل کے باوجود کچھ نہ کچھ کرنے کی جستجو میں مگن ہیں۔ خود حکومتی سطح پر بہت تنقید ہوسکتی ہے۔ مگر ان نامساحد حالات میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے دیر سے جاگنے کے باوجود جو اقدامات ایک غیر معمولی حالات میں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اسے کسی نہ کسی شکل میں پذیرائی ملنی چاہیے۔

سماجی سطح پر الخدمت فاونڈیشن کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ الخدمت کے سربراہ عبدالشکور صاحب اور برادرم سید احسان اللہ وقاص صاحب قابل تعریف ہیں جو ہر مشکل اور سنگین حالات میں خود بھی متحرک نظر آتے ہیں اور قوم کو بھی متحرک کرکے مسائل میں گھرے لوگوں کی مدد میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ الخدمت یہ کام کوئی پہلی بار نہیں کررہا جب بھی اس ملک میں کوئی وبا، آفت یا حادثہ پیش ہوتا ہے تو یہ لوگ اپنی متحرک اور فعال ٹیم کے ہمراہ میدان میں نظر آتے ہیں۔

اسی طرح جناب ڈاکٹر امجد ثاقت کا ادارہ اخوت بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں۔ پہلے ہی دن سے اس وبا سے متاثر ہونے والے افراد، خاندان کے سماجی، معاشی اور انتظامی مسائل میں ڈاکٹر امجد ثاقب نمایاں نظر آتے ہیں۔ وہ پہلے بھی بہت اچھا کام کررہے ہیں او رلوگوں کی معاشی خوشحالی میں ان کا کام قابل تعریف ہے او رحالیہ بحران میں بھی وہ کافی سرگرم ہیں۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے سید عامر جعفری بھی اس عمل میں پیچھے کی طرف کھڑے ہونے کی بجائے آگے کھڑے ہونے میں نمایاں نظر آتے ہیں۔

کام تو تعلیمی میدا ن میں کررہے ہیں لیکن اس نازک موقع پر وہ بھی ان لوگوں کی مدد بالخصوص معاشی مدد کرنے میں بھرپور کوششیں کررہے ہیں۔ ایسے ہی لاتعداد ادارے او ربھی ہیں جو کسی نہ کسی شکل میں کام کررہے ہیں۔ بالخصوص انفرادی سطح پر لوگ محلوں کی سطح ان لوگوں کی مدد کررہے ہیں جو لاک ڈاون کی صورت میں معاشی بدحالی کا شکار ہوئے ہیں۔

سیاسی محاذ پر جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق او ر سیکرٹری جنرل برادرم امیرالعظیم، نائب امیر لیاقت بلوچ اس کام میں پیچھے نہیں ہیں اور بطور جماعت تمام سرگرمی کا محور اس وقت کرونا وائرس سے نمٹنے سے جڑا ہوا ہے۔ جماعت اسلامی کے تمام ہسپتال او ران کا عملہ، ٹیسٹوں کو یقینی بنانا، راشن، ماسک اور لوشن سمیت دیگر سہولیات کی فراہمی میں پیش پیش ہیں۔ جماعت اسلامی کو یہ کریڈیٹ جاتا ہے کہ ووٹ کی عملی سیاست سے بالاتر ہوکر وہ مشکل وقت میں لوگوں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے اور اس کے متحرک کارکن اس عمل کا حصہ ہوتے ہیں جن کی ہر سطح پذیرائی ہونی چاہیے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں ہمیشہ سے حکمرانی کا بحران رہا ہے او رہماری ترجیحات میں عام او کمزور افراد کو مستحکم کرنے کی سیاست یا ان کو بنیادی سہولیات کی فراہمی بھی سوالیہ نشان ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ریاست یا حکومت جب کسی بڑے بحران کا شکار ہو تو ہمارا مجموعی رویہ مسائل سے نمٹنے یا اس میں مدد کرنے کی بجائے ایک محازآرائی کو پیدا کرکے ایک بڑی غیر یقینی کی صورتحال کو پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اس کھیل میں ہم سیاسی اسکورنگ کے بھی قائل ہوتے ہیں او ریہاں بھی کچھ لوگ کچھ صوبائی حکومتوں کے درمیان بلاوجہ کی مقابلہ بازی کی فضا قائم کرکے سیاسی دوریوں کو بڑھارہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر مایوسی کا ایک بڑا طوفان ہے او ر بظاہرلگتا ہے کہ یہاں ریاست، حکومت اور معاشرہ نام کا کوئی وجود نہیں یا یہ لوگ گھروں میں جاکر بیٹھ گئے ہیں۔ خود ہمارے رسمی میڈیا میں بھی ریٹنگ کی سیاست نے قومی نوعیت پر مبنی مسائل میں جو شدت پیدا کی ہے وہ لوگوں میں مسائل سے نمٹنے کی بجائے خوف کی فضا کو پیدا کرتی ہے۔

اگر ہمیں واقعی کرونا وائرس کے خلاف جنگ جیتنی ہے تو اس کام میں سب فریق کو اپنا اپنا مثبت حصہ ڈالنا ہوگا۔ خود لوگوں کو اپنے آپ کو لاک ڈاون کرنا ہوگا او رتنہائی میں جاکر خود کو گھروں تک محدود کرنا ہوگا۔ ہمیں مجموعی طو رپر مسائل سے نمٹنے کی جنگ میں ایک بڑے سپاہی کا کردار خود بھی ادا کرنا ہے اور دوسروں کو بھی ترغیب دینی ہوگی کہ وہ خود کو ذمہ دار شہری کے طور پر پیش کریں۔ ہر کام اگر ہم نے ریاستی ڈنڈے کی بنیاد پر کرنا ہے تو اس سے معاشرے کی شکل ایک ہجوم کی صورت میں نکلتی ہے۔ اگر ہم نے واقعی کرونا وائرس کے مریضوں کی درست طو رپر شفاف نشاندہی کرنی ہے تو ہمیں اپنے صوبائی اور ضلعی ہیڈ کواٹرز کو زیادہ متحرک او رفعال کرنا ہوگا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور ضلعی انتظامیہ کے درمیان ایک موثر رابطہ کاری اور درست معلومات کا تبادلہ لازمی ہے۔

علمائے کرام او ردینی جماعتوں کو سوچنا ہوگا کہ وہ ریاست اور حکومت سے تعاون میں آگے بڑھیں اپنے واعظوں کو سماجی شعور کے ساتھ جوڑ کر ایک بڑے ذمہ دار فریقین کے طور پر کام کریں۔ دنیا میں مساجد کی بندش اور جمعہ کی نماز پر پابندی میں اپنی انا کی بجائے مسئلہ کو درست طور پر نمٹنے سے دیکھا جائے۔ بعض مذہبی لوگوں نے کرونا کے مسئلہ کو سنجیدگی سے لینے کی بجائے اس میں بلاوجہ کی اپنی ضد کو دکھایا ہے جو کسی بھی طور پر ریاست یا معاشرہ کے مفاد میں نہیں ہے۔ سماجی تنظیموں کا کردار اہم ہے او رزیادہ سے زیادہ یہ تنظیمیں باہرنکلیں او را س مشکل وقت میں لوگوں کی مدد سمیت سماجی شعور کو بڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس میں خاص طور پر صوبائی حکومتوں کو سماجی تنظیموں کے ساتھ مل کر کوئی مشترکہ کمیونٹی سروسز کی شفافیت یا سماجی آگہی کا نظام ترتیب دینا ہوگا۔

ہمیں اس موقع پر اپنے ڈاکٹروں، نرسوں، پیرا میڈیکل سٹاف، پولیس، رینجرز اور فوجی جوانوں سمیت ہر اس فرد یا ادارہ کی بھی پذیرائی کرنی چاہیے جو اس مشکل میں قوم کی خدمت کررہے ہیں۔ کیونکہ جو لوگ بھی چاہے ان کا تعلق کسی بھی شعبہ سے ہے فرنٹ لائن پر موجود ہیں او ر عملا مقابلہ کررہے ہیں وہ ہی ریاستی ہیرو ز بھی ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتوں او رارکان پارلیمنٹ کا کردار محدو دہے اس کو مقامی حلقوں کی سطح پر زیادہ فعال کرنے کی ضرورت ہے۔

ہنگامی بنیادوں پر ہنگامی اقدمات ہی درکار ہیں۔ خاص طور پر ہمیں نوجوانوں کو اس مہم کا حصہ بنانا ہوگا او ران کی مدد سے اس جنگ سے نمٹنے کا ایک خاص منصوبہ بندی درکار ہے۔ ریاست او رحکومت کو اپنی سنجیدگی اپنے وسائل سے بھی دکھانی ہوگی او رزیادہ سے زیادہ وسائل اس جنگ میں لانے ہوں گے او رغیر ضروری ترقیاتی اخراجات کو ختم کرکے اس جنگ سے نمٹنا ہوگا۔ یہ ہی عملی صورت میں ہمیں کرونا وائرس کی جنگ سے نمٹنے میں مدد بھی دے گی او رہم جیت بھی سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments