اسلاف کے دلچسپ اور پُرمزاح واقعات


بزرگانِ دین اور اولیاء اللہ اللہ تعالیٰ کی بندگی، تقویٰ اور پرہیز گاری کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہوتے ہیں۔ خوفِ خدا سے لرزاٹھتے ہیں۔ احکام دین پر استقامت، سنتِ رسول پر مداومت اور مستحبات و سنن کی کثرت ان کی زندگی کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کی زندگی کے بعض ایسے پہلو بھی ہیں جن سے ان کی زندگی میں سنجیدگی و متانت کے باوجود مزاح اور خوش طبعی کا اندازہ ہوتا ہے۔ مزاح اور خوش طبعی ایک ایسی کیفیت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں دویعت فرمائی ہے۔ بالفاظ دیگر مزاح انسانی فطرت کا ایک لازمی حصہ ہے۔ چند بزرگوں کے بعض ایسے دلچسپ اور پُرمزاح واقعات بھی سیرت و تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں جنہیں پڑھ کر قاری لطف حاصل کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی علیہ الرحمہ کی کتاب ”روحانی حکایات“ سے چند بزرگوں کے واقعات ملا حظہ ہوں :

مولانا جامی اور اناڑی شاعر:

مولانا عبد الرحمٰن جامی علیہ الرحمہ علم و کمال کے ساتھ ساتھ میدانِ شاعری کے بھی بہت بڑے شہسوار تھے۔ ایک دن ایک اناڑی شاعر اپنا دیوان لے کر آپ کے پاس آیا اور آپ کو اپنا کلام سنانے لگا۔ بڑی دیر تک وہ اپنے بے تکے اشعار سناسنا کر آپ کی سمع خراشی کرتا رہا اور آپ ناگواری کے باوجود اس کی دل جوئی کے لیے خاموش بیٹھے رہے۔ پھر وہ کہنے لگا: حضور میں اس دیوان کو سفر حج میں بھی ساتھ لے گیا تھا۔ اس کو غلافِ کعبہ میں کچھ دیر رکھنے کے بعد حجر اسود سے بھی مس کرکے لایا ہوں۔

یہ سن حضرت جامی علیہ الرحمہ کا پیمانۂ صبر چھلک پڑا۔ آپ نے نہایت سنجیدگی سے فرمایا: ایک کسر رہ گئی۔ کاش کہ تم نے اس دیوان کو زم زم شریف کے کنویں میں بھی غوطہ دے دیا ہوا تو بڑا ہی اچھا ہوتا کہ یہ دھل کر بالکل صاف ہوجاتا۔ اناڑی شاعر یہ سن کر بہت نادم ہوا اور منہ لٹکائے ہوئے وہاں سے رفو چکر ہوگیا۔

مولانا جامی اور مہمل گو شاعر:

اسی طرح مولانا جامی کا ایک واقعہ اور بھی ہے کہ ایک مہمل گو شاعر آپ کے پاس آکر اپنی بے تکی شاعری سنانے لگا۔ آپ اخلاقاً صبر کے ساتھ اس کے اشعار سنتے رہے، پھر اس نے فخریہ لہجے میں کہا کہ رات خواب میں حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت ہوئی اور انہوں نے میرے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا۔ حضرت مولانا جامی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے، وہ تمہارے منہ پر تھوکنے کے لیے آئے تھے، تم نے منہ کھول دیا اور تھوک تمہارے منہ میں چلا گیا۔

امام اعمش اور شاگرد:

امام الحدیث حضرت اعمش رحمۃ اللہ علیہ کی بیوی ہمیشہ امام موصوف سے کشیدہ اور بر گشتہ رہتی تھیں۔ ایک دن حضرت اعمش نے اپنے ایک شاگرد سے فرمایا کہ تم میری بیوی کے پاس جاکر میرے علمی کمالات کو اس طرح بیان کرو کہ نفرت دور ہوجائے اور وہ میری طرف راغب ہوجائے۔ شاگرد صاحب بہت ہی تفریح پسند اور مسخرے تھے۔ بیگم صاحبہ کے پاس حاضر ہوکر کہنے لگے کہ مادرِ مہربان! ہمارے شیخ امام اعمش بہت ہی بزرگ اور باکمال محدث ہیں۔ لہٰذا آپ ان کی چندھی آنکھ، پتلی پنڈلی، کمزور گھٹنے، بغل کی بدبو، منہ کی گندہ دہنی، کھردری ہتھیلیوں کو دیکھ کر ان سے بے رغبتی نہ رکھیے۔ امام اعمش چھپ کر شاگرد کی باتیں سن رہے تھے۔ غصے میں بولے کہ اٹھ! خدا تیرا برا کرے تو نے میری بیوی پر میرے وہ عیوب بھی ظاہر کردیے جن کو وہ نہیں جانتی تھی۔

امام ابویوسف اور خاموش سامع:

حضرت امام ابو یوسف علیہ الرحمہ کی درس گاہ میں ایک بڑے میاں پابندی سے حاضر ی دیتے تھے۔ روزانہ پورے درس میں شریک ہوکر مسائل سنا کرتے تھے مگر کبھی کچھ بولتے نہیں تھے۔ ایک مرتبہ امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ آپ کبھی کوئی سوال نہیں کرتے، ہمیشہ خاموش ہی کیوں رہتے ہیں؟ یہ سن کر ان بزرگ نے سوال کیا کہ اچھا بتائیے : روزہ کب افطار کرنا چاہیے؟ آپ نے فرمایا کہ جب سورج غروب ہوجائے۔ یہ بزرگ بولے کہ اگر آدھی رات تک سورج غروب نہ ہو؟ بڑے میاں کا یہ سوال سن کر امام ابو یوسف ہنس پڑے اور فرمایا کہ آپ کا خاموش رہنا ہی بہتر تھا۔ میں نے آپ کی زبان کھلواکر غلطی کی۔

خلیفۂ بغداد اور مہمان نواز بدوی:

خلیفہ بغداد مہدی ایک مرتبہ شکار میں اپنے ساتھیوں سے بچھڑ کر بہت دور نکل گیا۔ جب بھوک پیاس سے پریشان ہوا تو ایک بدوی کی جھونپڑی میں چلاگیا۔ مہمان نواز بدوی نے جو کی روٹی اور دودھ پیش کیا۔ جب مہدی کھا چکا تو بدوی نے کھجور کا شربت پلایا۔ ایک گلاس پی کر مہدی نے کہا کہ تم جانتے ہو میں کون ہوں؟ بدوی نے کہا : نہیں۔ خلیفہ نے کہا کہ میں امیر الموٌمنین کا خادمِ خاص ہوں۔ بدوی نے کہا: اللہ آپ کو برکت دے۔ پھر اسے ایک گلاس اور پلایا، خلیفہ نے دوسرا گلاس پینے کے بعد دوبارہ پوچھا کہ کیا تم مجھے جانتے ہو؟

بدوی نے کہا :ہاں! آپ نے بتایا تھا کہ آپ امیر المومنین کے خاص خادم ہیں۔ خلیفہ نے کہا : نہیں! بلکہ میں امیر المؤمنین کا کمانڈر ہوں۔ پھر اس نے تیسرا گلاس پلایا۔ خلیفہ نے تیسرا گلاس پینے کے بعد پھر پوچھا کہ کیا تم مجھے جانتے ہو؟ بدوی نے کہا :ہاں! آپ نے بتایا تھا کہ آپ امیر المومنین کے کمانڈر ہیں۔ خلیفہ نے کہا: نہیں! بلکہ میں خود امیر الموٌمنین ہوں۔ یہ سن کر بدوی نے مشک کا منہ باندھ دیا اور ڈانٹ کر کہا : اٹھ نکل یہاں سے۔ اگر تو چوتھا گلاس پیے گا تو نبوت کا دعویٰ کردے گا۔ یہ سن کر خلیفہ مہدی اس قدر ہنسا کہ اس پر غشی طاری ہوگئی۔ اتنے میں خلیفہ مہدی کا لشکر اسے تلاش کرتے ہوئے آگیا۔ بدوی لشکر کا جاہ و جلال دیکھ کر خوف کے مارے کانپ اٹھا۔ مہدی نے اس کو تسلی دی اور انعام و اکرام سے اس کو مالا مال کردیا۔

خلیفہ ہارون رشید، بیگم زبیدہ اور امام ابویوسف:

خلیفہ ہارون رشید اور اس کی بیگم زبیدہ میں اختلاف ہوگیا کہ فالودہ اور لوزینہ (بادام کا حلوہ) میں سے کیا چیز اچھی ہوتی ہے۔ دونوں قاضی القضاۃ امام ابویوسف علیہ الرحمہ کے فیصلے پر راضی ہوگئے۔ امام ابویوسف نے فرمایا کہ بغیر مدعی اور مدعا علیہ کے حاضر ہوئے ہو، بھلا میں کس طرح کوئی فیصلہ کرسکتا ہوں۔ لہٰذا فالودہ اور لوزینہ دونوں کھانے میرے سامنے پیش کیے جائیں۔ چنانچہ دونوں ہی کھانے حاضر کیے گئے اور امام ابویوسف نے ایک مرتبہ فالودہ اور ایک مرتبہ لوزینہ کھانا شروع کیا، یہاں تک کہ جب آدھا آدھا پیالہ دونوں میں سے کھا چکے تو فرمایا کہ میں نے آج تک ایسے دلائل پیش کرنے والے مدعی اور مدعا علیہ نہیں دیکھے۔ میں جب چاہتاہوں کہ ایک کو ڈگری دوں تو دوسرا اپنی دلیل پیش کردیتا ہے، اس لیے میں اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔ ہارون رشید اور زبیدہ دونوں امام ابویوسف علیہ الرحمہ کی گفتگو سن کر ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہوگئے۔

علامہ سید احمد سعید کاظمی شاہ صاحب کی محفل کا ایک واقعہ:

آخر میں علامہ سید احمد سعید کاظمی شاہ صاحب علیہ الرحمہ کا ایک واقعہ قابلِ ذکر ہے جو راقم نے حضرت کے صاحبزادے علامہ حامد سعید کاظمی صاحب سے سنا، وہ فرماتے ہیں کہ ابا جان (علامہ کاظمی علیہ الرحمہ) کے دور میں ایک صاحب تھے جو بہت مزاح کرتے تھے۔ ان کے پاس ہر بات میں مزاح کا پہلو نکالنے کا فن تھا۔ وہ سنجیدہ سے سنجیدہ بات میں بھی مزاح کا پہلو نکال کر مجلس کو ہنسا دیتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ ابا حضور کی خدمت میں آئے، وہاں چند لوگ اور بھی موجود تھے۔

بات یہ چل رہی تھی کہ کون کس کا مرید ہے۔ سب نے اپنے اپنے مرشد کا نام بتایا۔ جب اُن صاحب کی باری آئی تو انہوں نے کہا: حضرت میں اپنے پیر صاحب کا نام ایسے نہیں لے سکتا، مجھے وضو کرنے کی اجازت دیجیے۔ اجازت ملنے پر وہ صاحب وضو کرکے د وبارہ حاضر ہوئے اور دوزانو ہو کر انتہائی ادب سے بیٹھ گئے۔ اباجان نے فرمایا: ہاں میاں بتائیے اپنے پیر صاحب کا نام۔ وہ کہنے لگے کہ حضور میں اپنی بیوی کا مرید ہوں، یہ سن کر مجلس میں بیٹھے افراد ہنسنے لگے۔ ابا حضور نے یہ بات سن کر برجستہ فرمایا: اچھا! اچھا۔ ماشاء اللہ! تو پھر آپ کے اور پیر بھائی بھی ہوں گے؟ یہ جواب سن کر وہ صاحب دنگ رہ گئے اور لاجواب ہوگئے اور توبہ کی کہ آئندہ کبھی بھی حضرت سے مذاق نہیں کروں گا۔

الغرض یہ تو چند واقعات ہیں ورنہ ہر بزرگ کی زندگی کے اس طرح کے کئی واقعات ہیں مستقل مضامین، مقالات اور کتاب کے متقاضی ہیں۔ بہرحال مزاح ایک فطری جذبہ ہے، اسے اپنی شان اور وقار کے خلاف نہیں سمجھنا چاہیے۔ انسانی زندگی کی خوبصورتی اسی میں ہے کہ اس کی طبیعت میں سنجیدگی کے ساتھ ہنسنا، مسکرانا، خوش طبعی اور خوش مزاجی بھی شامل ہو۔ لیکن اس بات کا خیال رہے کہ مزاح میں اعتدال ہو، انسان اس میں حد سے تجاوز نہ کرے۔ جیسا کہ عربی میں مشہور ہے کہ ”المزاح فی الکلام کالملح فی الطعام“ یعنی کلام میں مزاح کو وہی حیثیت حاصل ہے جو کھانے میں نمک کو ہو تی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments