بیانات اور اعلانات بجا مگر اقدامات؟


کورونا وائرس کے خلاف پوری قوم ایک عزم، یقین اور جذبے کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے منزل زیادہ دور نہیں بس ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہے۔ یقیناً آگے آنے والا ہر دن انتہائی اہمیت کا حامل ہے ہمیں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہے۔ بے خوف ہو کر آگے بڑھنا بے مگر احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا۔

اس تلخ حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ایک ترقی پذیر ملک کے شہری ہونے کی وجہ سے پاکستانی قوم کو دوہری اذیت کا سامنا ہے ایک طرف ہمیں کورونا وائرس کا مقابلہ کرنا ہے اور دوسری طرف بھوک کا اذیت ناک وائرس منہ کھولے کھڑا ہے کیونکہ وطن عزیز کی پچاس فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے جن کی روزانہ آمدنی ایک امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ ملک کو درپیش معاشی صورتحال اور بھوک، غربت، بیروزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے ملک کی کثیر آبادی کا گزر اوقات انتہائی مشکل ہوتا ہے جن کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول انتہائی کٹھن ہوتا ہے۔

میرا اپنے کاروبار کے حوالے سے زیادہ تر ایسے ہی غریب، دیہاڑی دار، مزدور، محنت کش اور عام لوگوں سے واسطہ رہتا ہے جو دن بھر کام کرنے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی آمدنی سے شام کے کھانے کے لیے آٹا گھی دال سبزی لے کر جاتے ہیں عام حالات میں جس دن کام نہیں ملتا یا کم ہوتا ہے تو ان کے چہروں پر چھائی افسردگی دیکھ کر دل دہل جاتا ہے ان کی آنکھوں میں تیرنے والی نمی ان کی بے بسی کا نوحہ پڑھ رہی ہوتی ہے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے جب وہ کہتے ہیں سئیں۔ آج کام نہیں ملا سوچ رہا ہوں شام کو بچوں کو کیا جواب دوں گا۔

سچ پوچھیں تو ان کی اس بے بسی کا جواب شاید ہی کسی کے پاس ہو کہ جن کے بچے راہ تک رہے ہوں کہ بابا شام کو آئیں گے اور ہم کھانا پکائیں گے اور بابا کی جیب میں چند روپے بھی نہ ہوں۔ مگر آج ایک دن نہیں دو دن نہیں بلکہ پچھلے دس دن سے نظام زندگی معطل ہے ہر قسم کا کاروبار، مارکیٹیں، دکانیں، صنعتیں، فیکٹریاں اور تعمیراتی کام بند ہے ایسی صورتحال میں غریب، محنت کش، مزدور، دیہاڑی دار اور سفید پوش لوگوں کی حالت کیا ہوگی یہ سوچ کر بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں نہیں معلوم ان کے گھروں میں چولہا جلتا بھی ہے یا نہیں، کچھ پکتا بھی ہے یا نہیں کچھ پکانے کو بھی ہے یا نہیں؟

یقیناً دنیا بھر کی طرح ملک اس وقت غیر معمولی صورتحال سے دوچار ہے مگر سوال یہ ہے حکومت اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کیا کر رہی ہے پنجاب حکومت نے لاک ڈاون کے آٹھویں روز کورونا ایمرجنسی سے متاثرہ خاندانوں کی فوری امداد کے لیے انصاف امداد پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جس میں ابتدائی طور پر ایک ارب روپے کی رقم 25 لاکھ خاندانوں کے لیے منظور کی ہے جو کہ فی خاندان 4 ہزار روپے ماہانہ دیے جائیں گے۔ جبکہ دوسری طرف وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر مکمل لاک ڈاون کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ حکمت عملی سے لڑنی پڑے گی ہم ہر طریقے سے کورونا وائرس کا جائزہ لے رہے ہیں۔

لاک ڈاون میں بیروزگار ہو کر گھروں میں بیٹھ جانے والوں کا احساس نہیں کریں گے تو لاک ڈاون کامیاب نہیں ہوسکے گا انھوں نے بتایا کہ کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کی ریجسٹریشن کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے جو کہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے اور کورونا متاثرین کی مدد کے لیے پاک فوج اور انتظامیہ سے مل کر کام کرے گی۔

ہمیں حکومت کی نیت پر شک نہیں مگر اس حقیقت کو بھی قطعاً ”فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ لاک ڈاون بے شک جزوی ہے مگر بیروزگاری کُلی ہے، غربت کُلی ہے، بھوک کُلی ہے اور عوام کی بے بسی بھی کُلی ہے سوال یہ ہے کہ حکومت کے اعلانات، بیانات اور خطابات کا سلسلہ مزید کتنا طویل ہے اقدامات کا مرحلہ کب آئے گا کیونکہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں ابھی تک غریب اور سفید پوش لوگوں کے گھروں میں راشن پہنچانے کا میکنزم تیار نہیں کر سکیں۔ ابھی تک صورتحال واضح نہیں ہو سکی کہ لوگوں نے گھروں میں راشن پہنچانے یا بحالی امداد پہنچانے کے لیے کیا طریقہ کار اپنایا جائے گا۔

ہر تقریر ہر پریس کانفرنس اور بیان میں اربوں روپے کے فنڈز جاری کرنے کے بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں مگر پچھلے دس دنوں میں جن لوگوں کو گھروں میں بھوک کے ڈیرے ہیں جو کورونا کے ساتھ ساتھ بھوک کے ساتھ لڑ رہے ہیں غربت کے ساتھ لڑ رہے جو محرومی اور بے بسی کے ساتھ لڑ رہے کیا صرف وعدوں، دعووں اور اعلانات و بیانات سے ان کے پیٹ بھرے جا سکتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک تشویشناک پہلو ہے اگر تاخیر کا یہ سلسلہ اگلے کئی روز تک جاری رہا تو صورتحال انتہائی سنگین رخ اختیار کر سکتی ہے اور ملک میں کورونا سے کہیں بڑھ کر بھوک کا وائرس ایک بڑی آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں فوری طور پر سر اٹھانے والے اس سنگین خطرے سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات کا آغاز کریں اور بیروزگار ہوجانے والے محنت کش مزدور اور سفید پوش لوگوں کے گھروں میں راشن کی فراہمی کو یقینی بنائیں اس حوالے سے سیاسی و مذہبی جماعتوں، سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں اور صاحب ثروت اور مخیر حضرات کو بھی آگے بڑھنا چاہیے اور مشکل کی اس گھڑی غریب اور سفید پوش لوگوں کو تنہاء نہیں چھوڑنا چاہیے یقیناً ہماری تھوڑی سی توجہ ایک بڑے طوفان کا رخ موڑ سکتی ہے ماضی کی طرح ہمیں ایک بار پھر ایک ہوکر حالات کا مقابلہ کرنا ہے منزل زیادہ دور نہیں بس ہمت حوصلے اور احتیاط کے ساتھ آگے بڑھنا ہے اور حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر گر جانے والوں کو سہارا دینا ہے اور آگے بڑھ کر ہاتھ تھام لینا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments