کورونا وائرس۔ خوف، ڈر اور بے حس عوام


کورونا وائرس جو کہ اب تک دنیا بھر کے تقریباً دو سو ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ سات لاکھ سے زیادہ لوگ اس سے متاثر ہوچکے ہیں اورسینتیس ہزار سے زائد لوگ اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والا یہ وبائی مرض کون جانتا تھا کہ ایک دن پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیگا۔ پاکستان میں بھی اب تک تقریباً اٹھارہ، انیس سو سے زائد کورونا کے کنفرم کیسسز سامنے آئے ہیں جن میں سے پچیس بد قسمت افراد خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔

کہتے ہیں کہ ہر مصیبت میں خیر کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور پوشیدہ ہوتا ہے یہ ہوسکتا ہے کئی لوگوں کے لئے اچنبھے کی بات ہو لیکن خوف وہراس اور ہزاروں ہلاکتوں کے باوجود ایک بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ کورونا وائرس نے پوری دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا وائرس کے خاتمے کے بعد کی دنیا ایک مختلف دنیا ہوگی۔ یقیناً کورونا وائرس ایک نئے عہد کو جنم دے رہا ہے یہ عہد کیسا ہوگا، اس کے خدوخال سے متعلق یہ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ اب انسان کا رہن سہن، سوچ، عقیدے، معاشرت سمیت ہر چیز بدل جائے گی۔

مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں اتنی ہلاکتوں کے بعد بھی لوگ کورونا کومہلک وباء تسلیم نہیں کررہے، نہ ہی احتیاطی تدابیر کا کثرت سے استعمال کررہے ہیں اور نہ ہی گھروں میں رہ کر کورونا وائرس کی مزید پھیلاؤ کو روکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو آج بھی اس وباء کے حوالے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کررہے ہیں ان کے لئے مولانا رومی کی یہ حکایت موجودہ حالات میں سمجھانے کے لئے کافی ہے، ایک شخص طوفان کی آمد کے پیش نظر ایک درخت کے پیچھے پناہ لئے کھڑا تھا ایک دوسرا شخص پاس سے گزرا تو اس نے کہا: میاں جب طوفان آتا ہے تو بجلی گرنے کا امکان درختوں پر زیادہ ہوتا ہے اس لئے یہاں سے ہٹ جاو، اس نے جواب دیا کہ میرا رب میرا مالک ہے۔

اس کے بعد ایک دوسرا شخص وہاں سے گزرا اس نے بھی یہی نصیحت کی تو درخت کے پاس کھڑے شخص نے پھر وہی جواب دہرایا۔ آخر کار ایک تیسرا بندہ گزرا اس نے بھی یہی کہا مگر وہ آدمی بضد تھا کہ میرا رب میرا مالک ہے۔ غرض طوفان آیا، بجلی گری اور وہ آدمی فوت ہوگیا۔ یہ سارا منظر ایک بندہ خدا دیکھ چکا تھا اس نے کہا کہ اس بندے کو اللہ پر اس قدر پختہ ایمان تھا تو پھر اللہ نے اسے کیوں نہیں بچایا۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ وہ تین بندے اللہ نے ہی بھیجے تھے کہ اپنے آپ کو بچاؤ مگر اس بندے نے کہنا نہ مان کر خود اپنے آپ کو تباہ کیا۔ آج کل کے حالات میں مولانا کے اس حکایت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سے سبق سیکھنا چاہیے اور اٹلی، ایران اور سپین جیسے ممالک سے عبرت کرنا چاہیے کیونکہ اس وقت واحد حل احتیاط ہے۔ اگر احتیاط کی جائے تو نہ صرف خود کو بچایا جاسکتا ہے بلکہ اپنے ساتھ دیگر بہت سی زندگیوں کو محفوظ بنا یا جاسکتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ سوشل میڈیائی یلغار کے اس دور میں بھی عوامی سطح پر ابھی تک لوگوں کو یہ بات نہیں سمجھائی جاسکی کہ کورونا وائرس کیا ہے اور اس کا پھیلاؤ کیسے ہوا۔ چونکہ عوام ان بنیادی حقائق سے لاعلم ہیں لہٰذا یہ بھی نہیں جانتے کہ اس وائرس سے بچاؤ کیسے ممکن ہے۔ دیگر ممالک میں ایسے مواقعوں پر عوام کی معلومات کا ذریعہ حکومت کی جانب سے دی گئی مستند انفارمیشن ہوتی ہیں۔ مگر پاکستان میں یہ فرض واٹس ایپ اور فیس بک کے خود ساختہ دانشور ادا کرتے ہیں۔

اکثر سوچتا ہوں کہ جیسے بندر کے ہاتھ میں استرے کا تصور نہایت خوفناک ہوتا ہے، ایسے ہی کسی کم علم کے ہاتھ فیس بک اور واٹس ایپ کی سہولت بھی خوفناک صورت اختیار کررہی ہے۔ جہاں جس کا جو دل میں آئے لکھ ڈالتا ہے اور عوام اسے پھیلانے اور ماننے کو اپنا فرض عین سمجھ بیٹھتے ہیں۔ یوں کبھی کورونا یہودیوں کا مسلمانوں کے مصافحہ پر وار ٹھہرتا ہے تو کبھی دنیا کی آبادی کو کم کرنے کے لیے ایجنسیوں کا کھیل۔ حکومت کا پہلا کام جھوٹی خبروں کو روکنا اور اپنی سوشل میڈیا ٹیم کے ذریعے حقائق کا پروپیگنڈا کرنا ہے، تاکہ عوام کو من گھڑت باتوں پر یقین کرکے پریشان ہونے سے روکا جاسکے۔

کہتے ہیں کہ حادثات ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ سوچ ہے کہ حادثات ہمیشہ دوسروں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ہمارے بیشتر عوام آج بھی اس مہلک مرض کو اپنے گھر آتا نہیں دیکھ رہے۔ یہ بات تب تک اچھی ہوتی جب تک اس بیماری سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر اختیار کی جاچکی ہوتیں اور پھر مزید اسے سر پر سوار نہ کیا جاتا۔ کورونا کے سوال پر عوامی جواب یہ ہے موت جب آنی ہے تب آئے گی۔ یہاں فرض ہمارے دینی رہنماؤں اور مذہبی پیشواؤں کا بنتا ہے کہ عوام کو تقدیر اور اللہ پر توکل کے ساتھ تدبیر کی اہمیت سے بھی آگاہ کیا جائے۔

انہیں یہ بھی بتایا جائے کہ جہاں اللہ نے اس پر یقین کا حکم دیا ہے، وہیں اللہ نے جسم کو اس کی امانت اور اس امانت کی حفاظت کو انسانوں پر فرض قرار دیا ہے۔ ہم اتنے بے حس ہیں کہ ہمارے ہاں یہ چلن بن چکا ہے کہ جب بھی کوئی بحران سراٹھاتا ہے، مختلف مافیازلوٹ مار میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ایک طرف ملک میں کورونا وائرس بے لگام ہوتا جارہا ہے تو دوسری طرف ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں نے ماسک اور دیگر اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کردی ہے۔

نجی ہسپتالوں، پرائیوٹ کلینکس اور لیبارٹریوں نے ٹیسٹوں کی فیس میں بھی ہوشر با اضافہ کر دیاہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان بے حس افراد کے خلاف فوری سخت کارروائی کرے۔ پوری دنیا متحد ہو کر کورونا کا مقابلہ کررہی ہے لیکن ہمارے ہاں کچھ لوگوں نے اس کو کمائی کا بہترین موقع بنالیا ہے۔ اس وبا سے گھبرانے کی نہیں بلکہ احتیاطی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments