کورونا آزمائش میں مصنوعی مہنگائی کا بحران


پوری دنیا کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کا شکار ہے، ہمارے ملک میں کچھ ایسے خود غرض عناصر سرگرم ہیں جو اس مشکل وقت میں بھی ناجائز منافع خوری کے لئے ذخیرہ اندوز ی سے باز نہیں آرہے ہیں۔ عالمی وباء کو روکنے کی خاطرکیے جانے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے تمام کاروبارِ زندگی ٹھپ، معاشی پہیہ جام اور ڈالر مذید مہنگا ہونے کی وجہ سے ملک میں مہنگائی عروج پر ہے۔ ایک سروے کے مطابق سپر اسٹوروں اور عام بازاروں میں افراتفری اور غیر یقینی صورتحال کے سبب لوگ ضرورت سے زائد اشیا کی خریداری کر رہے ہیں جس کی وجہ سے خوردہ تاجروں نے ہر چیز کے نرخ از خود بڑھا دیے ہیں۔

بڑی بڑی کمپنیوں کی مصنوعات پر مقررہ قیمتیں درج ہونے کے باوجود من مانی قیمت پر ان کی فروخت جاری ہے۔ دالوں کی خوردہ قیمتوں میں 10 سے 20 روپے فی کلو کا اضافہ ہو گیا ہے، جبکہ آٹا بھی 60 سے 80 روپے فی کلو فروخت ہو رہا ہے۔ مارکیٹ میں تمام اشیا وافر مقدار میں موجود ہیں، لیکن ناجائز منافع خور مصنوعی قلت پیدا کرکے مہنگائی کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری اور مصنوعی مہنگائی کی جو روش چل نکلی ہے، وہ کسی صورت قابلِ برداشت نہیں ہونی چاہیے۔

حکومت کا فرض ہے کہ مصیبت کی اس گھڑی میں ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کرنے والوں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کرے اور مصنوعی مہنگائی کے ذمہ داروں کو سرکاری ریٹ لسٹ کا پابند بنانے کے ساتھ اشیا کی فراہمی کے لئے تھوک تاجروں کو بھی سرکاری نرخ ناموں کا پابند کیا جائے۔ اس مشکل گھڑی میں جب کہ ایک طرف کورونا کا عذاب ہے تو دوسری جانب مصنوعی مہنگائی کا طوفان برپا کرنا درست نہیں ہے۔ حکومت کو بے حس ناجائز منافع خوروں کے خلاف سخت اقدامات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے، اس مشکل گھڑی ہمیں خود بھی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دوسروں کے لئے آسانیاں فراہم کرنے کا ذریعہ بننا چاہیے۔

پاکستان ایک غریب اور پسماندہ ملک ہے، یہاں کورونا جیسی بلائیں غریب طبقات کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں، روزانہ اجرت پر کام کرنے والوں کی بڑی تعدادکے لئے کرفیو یا لاک ڈاؤن جیسے اقدامات خودکشی کے مترادف ہیں، ہماری اشرافیہ جو غریب عوام کو لوٹ کر اربوں روپوں کی مالک بن بیٹھی ہے، اس کا کورونا کچھ بگاڑ سکتا ہے اور نہ ہی لاک ڈاؤن، کرفیوجیسے اقدامات سے کوئی فرق پڑتا ہے، اگر کوئی فرق پڑتا ہے تو غریب عام آدمی کو پڑتا ہے، جس کے ایک طرف کورونا کے عذاب کا خوف طاری ہے تو دوسری جانب بڑھتی مصنوعی مہنگائی کے طوفان نے گھیر رکھا ہے، اوپر سے لاک داؤن اقدامات سے عوام اس قدر ڈاؤن ہوگئے ہیں کہ کورونا کی بجائے بھوک کا شکار ہونے کے خطرات بڑھتے جارہے ہیں، جبکہ دوسری جانب منافع خور تاجر طبقہ ناگہانی اَفت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے عوام کو لوٹنے کی کوشش میں مصروف نظر آتاہے، آئے روزاشیا خوردو نوش کی قیمتوں میں اضافہ کیا جارہا ہے، آٹا کچھ دن پہلے ساڑھے چار سو میں دس کلو آتا تھا، کورونا اور لاک ڈاؤن کے ساتھ ہی 570 روپے کردیا گیا ہے، اسی طرح دوسری روز مرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں بتدریج اضافہ کیا جارہا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ معاشرے کو چور، ڈاکو اور لٹیروں نے نہیں، بلکہ انہی ناجائز منافع خوروں نے خراب کیاہے، جن کی مصنوعی مہنگائی کے پیش نظر عام آدمی پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے صبح سے شام تک خوار ہو رہا ہے۔ یہ کتنی عجیب سی بات ہے کہ ملک کے عوام کورونا کے عذاب سے گزررہے ہیں، مگر ناجائز منافع خور مافیا مہنگائی بڑھا کر اپنی تجوریاں بھررہا ہے، ایک عام آدمی اور کسان اسی طرح غربت کی چکی میں پس رہا ہے، جبکہ آڑھتی اور بڑا تاجر روز بروز اپنی خزانے کی تجوریوں میں اضافہ کر رہا ہے، ایک عام مزدور اورکسان آج بھی وہیں کا وہیں ہے، لیکن ناجائز منافع خور تاجر کچھ ہی عرصے میں ایک سے بڑھ کر ایک نیا گھر، گاڑی اور بنگلے خریدنا شرو ع ہو جاتے ہیں۔

یہ لمحہ فکریہ ہے کہ اگر ایک عام سٹال ہولڈر صرف 100 کلوفروٹ فروخت کرتا ہے تو خالص 10 ہزار روپے کا منافع کما کر گھر جاتا ہے، اگر حکومت اس میں سے کچھ ٹیکس مانگ لے تو موت پڑ جاتی ہے، بڑا تاجر طبقہ زیادہ منافع بنانے کے باوجود ٹیکس دینے کا روادار نہیں، بلکہ ٹیکس وصولی کے حکومتی اقدامات پر ہڑتالوں کے ذریعے بلیک میل کیا جاتا ہے۔ یہ 3 سو سے 4 سو روپے میں ملنے والا سوٹ 15 سو سے 18 سو میں فروخت کرنیوالا تاجر غریب عوام کو لوٹتے وقت ایک لمحے کے لئے بھی نہیں سوچتا کہ اس ناجائز منافع خوری کا اللہ پاک کو کیا جواب د ے گا، جہاں پر نہ کوئی جھوٹ چلے گا اور نہ ہی کوئی بہانہ کام آئے گا۔

درحقیقت مصنوعی مہنگائی کی بڑی وجہ انتظامیہ کی ناقص کار کردگی رہی ہے، گراں فروشوں کے خلاف حکومتی کارروائی مجسٹریٹوں کی طرف سے جرمانوں اور بعض گرفتاریوں تک محدود رہتی ہے۔ حکومت کے دباؤ پر کچھ دنو ں کے لئے چھاپہ مار مہم کا آغازکیا جاتا ہے، اس چھاپہ مار مہم کے دوران چند دن عارضی طور پرعوام کو سرکاری نرخوں پر اشیاء دستیاب ہونے لگتی ہیں، لیکن جو نہیں چھاپے روکتے ہیں تو دوبارہ پرانہ سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، ویسے بھی گزرتے وقت کے ساتھ قانونی اداروں کی ملی بھگت کے باعث منافع خور مافیاکے ذہن سے انتظامیہ کا خوف ختم ہو گیا ہے، اب تو مجسٹریٹ کے مارکیٹ سے جاتے ہی نرخ نامہ چھپا کر من مانے نرخوں پر گراں فروشی مزید بڑھا دی جاتی ہے اور کو ئی پو چھنے والا نہیں، کیو نکہ پوچھنے والوں کی آنکھوں پر مفادات کی پٹی بندھی ہے، موجودہ حالات کے پیش نظر ضرورت اِس امر کی ہے کہ گراں فروشی روکنے کے لئے محض دِکھاوے کی کسی کارروائی کے بجائے موثر عملی اقدامات کے زیر اثر انتظامیہ کی کار گردگی کوفعال بنایا جائے، تبھی عوامی رلیف کے حوصلہ افزا نتائج دیکھنے کو ملیں گے۔

بلا شبہ وزیراعظم عمران خان انہیں خدشات کی بنیاد پر لاک ڈاؤن کی پالیسی اختیار کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں، تاہم کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے خطرے کے باعث مکمل لاک ڈاؤن کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ اس ممکنہ صورتحال سے عہدہ برأہونے کے لئے وزیراعظم کے احکامات کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومتیں مستحقین کے گھروں تک اشیائے خوردونوش اور ادویات پہنچانے کے متعدد اقدامات اٹھا رہی ہیں اور وزیراعظم نے اس مقصد کے لئے ٹائیگر فورس تشکیل دے کر یوتھ رضا کار پروگرام کا بھی اجراء کیا ہے، جبکہ مستحقین تک سامان خوردونوش پہنچانے کے لئے ہی ہائی ویز کھولنے اور اضافی مال گاڑیاں چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اس کے باوجود آنیوالی کٹھن صورتحال بشمول خوراک و ادویات کی قلت سے عہدہ براہونے کے لئے اجتماعی کاوشوں اور ملک کے متمول طبقات کی جانب سے صلہ رحمی کے جذبہ کو بروئے کار لا کر اپنے پڑوس ’گلی محلے اور شہر بھر میں ایسا اہتمام کرنے کی ضرورت ہے، تا کہ کوئی فرد کسی گھر میں بھوکا نہ سوئے۔ آج پوری دنیا کوروناکے عذاب کی آزمائش سے گزررہی ہے، اس آزمائش پر پورا اترنے کے لیے حکومتی اقدامات کے ساتھ ہمیں بھی اپنی مدد آپ کے جذبے کو فروغ دے کر سرخرو ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔

اس آزمائش کی گھڑی قائد حزب اختلاف کو بھی مطالبات پیش کرنے کے بجائے باہمی تعاون کی پیش کش کرنی چاہیے۔ یہ وقت سیاسی پوئنٹ سکورنگ یا حرص ولالچ میں مبتلا ہو کر مصنوعی مہنگائی کے ذریعے ناجائز منافع خوری کا نہیں، بلکہ قومی ایثار و یکجہتی کے جذبے کا مظاہرہ کرنے کا ہے۔ حکومت اپنے کرنے کے کام سر انجام رہی ہے، مگر کچھ کام عوام نے خود بھی کرنے ہیں، ہم سب جب اپنے اپنے کام نیک نیتی سے کریں گے تواللہ تعالیٰ ہماری ضرور مدد کرے گا اور ہم انشا اللہ ہر آئی مصیبت سے نجات حاصل کرنے میں کا میاب ہو جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments