سہیل وڑائچ کا کالم: عہد کورونا میں انتشار


دنیا بھر کی روایت ہے کہ قومیں، جنگوں بحرانوں اور دباؤ کے دوران اتحاد پیدا کرلیتی ہیں سب لوگ سیاسی سماجی اور مذہبی اختلاف کو بھلا کر سب حکومت وقت کا ساتھ دیتے ہیں ماضی میں پاکستان پر جب بھی آزمائش کا وقت آیا قوم اسی طرح متحد ہو گئی۔

سنہ 1965 میں بھارت کے ساتھ جنگ کے دوران اپوزیشن نے جنرل ایوب خان کے ساتھ اختلافات بھلا کر ان کا بھرپور ساتھ دیا ذوالفقار علی بھٹو شملہ معاہدہ کرنے بھارت گئے تو اپوزیشن قیادت نے ان سے ملاقات کر کے انہیں اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔

کشمیر کے حوالے سے جب بھی کوئی بڑا واقعہ ہوا تو پاکستان کے ہر سیاسی ، مذہبی اور سماجی مکتب فکر نے ریاستی خارجہ پالیسی پر صاد کہا ہے اسی روایت کے مد نظر کورونا آیا (یا آئی) تو بلاول بھٹو نے تمام تلخیاں بھلا کر وزیر اعظم عمران خان اور وفاقی حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا شہباز شریف اور ن لیگ بھی اس عمل میں پیچھے نہیں رہے۔ شہباز شریف لندن سے فوراً واپس آئے اور اپنی خدمات پیش کر دیں۔ مولانا فضل الرحمن نئے دھرنے کے موڈ میں تھے مگر کورونا وائرس کے پیش نظر انہوں نے احتجاج منسوخ کر کے اپنی چنگھاڑتی توپیں مکمل طور پر خاموش کر لیں۔

جماعت اسلامی کے سراج الحق نے بھی حکومت کو اپنے بھر پور تعاون کا یقین دلایا۔ اپوزیشن کی طرف سے اس اظہار یک جہتی کے باوجود ملک میں اتحاد اور اتفاق کی فضا پیدا نہیں ہوسکی بلکہ ایک طرح کا انتشار نظر آرہا ہے۔

ایک طرف عہد کورونا کا قہر ہے تو دوسری طرف معاشرے میں سیاسی، سماجی اور عوامی انتشار بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے سیاسی انتشار کا آغاز اسی دن ہو گیا جب عمران پارلیمانی کانفرنس سے اٹھ کے چلے گئے اور جواباً شہباز شریف اور بلاول بھٹو نے واک آؤٹ کر دیا تھا مگر بات اسی سیاسی خلیج اور دوری تک نہیں رکی۔ سماجی اور عوامی سطح پر بھی دو بڑے واضح گروپ سامنے آگئے ہیں۔

ایک وہ جو عمران خان اور ان کی حکومت کے اقدامات پربہت مطمئن ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ جو بھی ممکن تھا حکومت وقت اسے بڑی اچھی طرح کر رہی ہے جبکہ دوسرے گروپ کی سوچ اس کے متضاد ہے یہ گروپ وزیر اعظم عمران خان کی کورونا اور دیگر پالیسیوں پر نہ صرف مکمل عدم اعتماد کرتا ہے بلکہ یہ کہتا ہے کہ اس وزیر اعظم کی موجودگی میں بہتری کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔

کورونا بحران کے موقع پر توقع تھی کہ سیاسی لیڈر شپ میں تعاون کی فضا قائم ہو گی تو سماجی اور عوامی سطح پربھی لوگ آپس میں جڑنا شروع ہو جائیں گے لیڈر شپ کے انتشار اور افتراق کے بعد سیاسی اور عوامی خلیج بہت بڑھ گئی ہے اگر سوشل میڈیا کو عوامی خیالات کا ترجمان مان لیا جائے تو وہاں ان دو گروپوں میں بات گالی گلوچ تک پہنچ چکی ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ حکومت کے حامی زیادہ انتہا پسندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ہر وہ صحافی جو حکومت سے اختلاف کرتا ہے اس کو گالیاں دی جاتی ہیں۔ اس طرح کے رویوں کا لازمی رد عمل ہو گا اور معاشرہ تشدد کی راہ پر چل پڑے گا ۔

خدا کرے کہ کورونا وبا جلدی ختم ہو جائے اگر پاکستان میں یہ وبا جاری رہی تو پہلے سے جاری معاشی بحران بہت ہی خوفناک صورت اختیار کر جائے گا مہنگائی اور بیروزگاری میں بے انتہا اضافہ ہو گا ایسی صورتحال میں حکومت اوربھی بہت غیر مقبول ہو جائے گی۔ حکومت چونکہ غیر مفاہمانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے اور اس رویے میں تبدیلی کا دور دورتک کوئی امکان بھی نظر نہیں آتا اس لیے خدشہ ہے کہ موجودہ حکومت جب بھی تبدیل ہو گی یا تبدیلی کے لیے اپوزیشن کوئی تحریک چلائے وہ پر امن نہیں رہ سکے گی بلکہ پر تشدد ہو گی۔

اس خدشے کی وجہ سنہ1977 کے حالات کا پس منظر ہے اس وقت بھی عوامی سطح پر دو واضح اور پر تشدد رویے سامنے آئے تھے اور پھر جس کا نتیجہ سنہ1977 کی پر تشدد تحریک قومی اتحاد میں نکلا تھا۔ 80اور 90 کی دہائی میں کئی حکومتیں آئیں اور کئی گئیں لیکن یہ سب تبدیلیاں پر امن ہوتی رہیں کیونکہ عوام سیاسی طور پر تقسیم ہونے کے بوجود پر امن بقائے باہمی پر یقین رکھتے تھے پر تشدد رویے اس وقت تک فروغ نہیں پائے تھے سوشل میڈیا پر متشدد رویے دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ اگر قومی مفاہمت کے لیے کوئی بڑا قدم نہ اٹھایا گیا تو ہم سیاسی خانہ جنگی کی طرف بڑھتے جائیں گے۔

اصولاً تو کورونا بحران کے دوران رویے بدلنے چاہیں۔ حکومتِ وقت کو مصالحت اور مفاہمت کا فائدہ ہوتا ہے جبکہ اپوزیشن کو لڑائی اور مخاصمت میں سیاسی فائدہ رہتا ہے سیاست کا لگا بندھا اصول ہے کہ جب آپ حکمران بن جائیں تو آپ اپوزیشن اور مخالفوں کو بھی راضی رکھنے کی کوشش کریں تاکہ سیاسی ٹمپریچر ایک حد سے نہ بڑھے جبکہ اپوزیشن کی کوشش ہوتی ہے کہ سیاسی درجہ حرارت بلند سے بلند ہوتا جائے کیونکہ ایک وقت آتا ہے کہ حکومت حدت کو برداشت نہیں کر پاتی اوراسے گھرجانا پڑتا ہے۔

عمران خان گذشتہ ڈیڑھ دو سال میں بہت خوش قسمت رہے ہیں کہ اپوزیشن ان کے لیے بڑا چیلنج کھڑا نہیں کر سکی اب کورونا میں اپوزیشن کے پاس خاموشی کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں۔

صاف لگ رہا ہے کہ جون تک حکومت اور اپوزیشن ایسے ہی چلتے جائیں گے البتہ بجٹ کی منظوری کے بعد سیاسی حالات کروٹ لے سکتے ہیں۔

قاعدے اور اصول کے تحت وزیر اعظم عمران خان 5 سال کے لیے منتخب ہوئے ہیں اور نظام کی مضبوطی کے لیے انہیں پورے پانچ سال ملنے بھی چاہیے لیکن غیر مفاہمانہ ماحول میں پاکستان کے ادارے اور سیاسی جماعتیں ماحول کو اس قدر گرم کر دیتے ہیں کہ حکومتوں کا قائم رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔

پاکستان میں جمہوریت ابھی کمزور ہے ادارے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہیں اس لیے جونہی اپوزیشن اور کوئی طاقتور ادارہ چاہے، فوج ہو عدلیہ، آپس میں کسی مفاہمت پر پہنچتے ہیں ہا انتہائی نیک نیتی (اس کو جانچنے کا کوئی پیمانہ ابھی دریافت نہیں ہوا) سے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت ریاست کے معاملات چلانے میں ناکام ہے تو تبدیلی کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔

عمران خان کی حکومت کے لیے بجٹ تک کا وقت ہے کہ وہ اپوزیشن اور اداروں سے مفاہمت کی راہ اپنائیں یا پھر اپنی کارکردگی اتنی بہتر بنائیں کہ کوئی ان کی طرف انگلی نہ اٹھا سکے۔ اگر یہ دونوں کام نہ ہوئے تو پھر تبدیلی کا عمل شروع ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سہیل وڑائچ

بشکریہ: روز نامہ جنگ

suhail-warraich has 34 posts and counting.See all posts by suhail-warraich