کرونا وائرس اور ہماری تنگ نظری


لکھنے کا ارادہ تو کسی اور موضوع پر تھا مگر لیہ میں ہونے والے افسوس ناک بلکہ خونی واقعے نے اس پر خامہ فرسائی پر مجبور کر دیا۔ حکومت پنجاب نے لیہ میں تبلیغی جماعت کے تقریباً دو سو افراد کے لیے قرنطینہ مر کز بنایا تھا۔ پولیس کی خاطر خواہ نفری باہر پہرہ دے رہی تھی کیونکہ بے شمار لوگ اپنے فہم دین، جہالت، دقیانوسی خیالات اور فرسودہ تصورات کی وجہ سے قرنطینہ کو جیل سمجھ کر وہاں سے راہ فرار اختیار کر تے ہیں جس سے کرونا وائرس کی وبا عام ہونے کا شدید خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔

لیہ کے قرنطینہ میں موجود عبدالرحمان نامی مبلغ اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ قرنطینہ مرکز سے بھاگ کھڑے ہوا۔ ان کے مرض کی سٹیج جیسی بھی ہوئی ہو یقیناً اس وقت ان کی ایمانی طاقت اور شوق فرار اوج ثریا پر پہنچی ہوگا کیونکہ اس جماعت میں جو سب سے پہلی بات نو واردان کے قلوب و اذہان میں راسخ کی جاتی ہے وہ یہ کہ اللہ سے سب کچھ ہونے کا یقین اور غیراللہ سے کچھ بھی نہ ہونے کا یقین ہمارے اندر پیدا ہوجائے۔ یہاں تک تو بات بالکل درست ہے لیکن اس سے آگے ان لوگوں کو اللہ کی سنت، قانون فطرت، اسباب و علل اور انسان کی کاوشوں کے بارے میں کم ہی جانکاری دی جاتی ہے۔

ممکن ہے قرنطینہ سے بھاگنے والے یہ دن کے شہسوار اور راتوں کے راہب بھی یہی سمجھ کر بھاگے ہوں کہ جب اللہ تعالٰی نے ہمارے بارے میں فیصلہ پہلے سے لکھ رکھا ہے تو ہمیں یہاں محصور و محبوس کرنے کی کیا منطق ہے؟ جب لیہ سٹی کے ایس ایچ او ملک اشرف نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو عبدالرحمٰن اور کے ساتھیوں نے خنجر سے ان پر جوابی حملہ کردیا۔ جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے اور انہیں فوراً ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا۔

تبیلغی جماعت والے دوست عموماً صلح جو، معاملہ فہم اور ٹھنڈے مزاج کے حامل ہوتے ہیں۔ تبلیغی دوروں کے دوران میں مسجدوں اور گشت کے وقت بعض اوقات مخالف فرقے کے کچھ شدت پسند حملہ آور بھی ہوجاتے ہیں۔ ایسے بہت سے واقعات میں کئی لوگوں کی جانیں بھی جا چکی ہیں۔ مار پیٹ کے واقعات تو آئے روز ہوتے ہی رہتے ہیں۔ مگر یہ لوگ بغیر مشتعل ہوئے اپنے فہم دین (جیسا بھی ہے ) کے مطابق تبلیغ و دعوت کا کام کرتے رہتے ہیں۔ لیہ سانحے کے حوالے سے ایک خبر یہ بھی ہے کہ وہاں ایک غالب آبادی والے فرقے کے پیروکار تبلیغی جماعت والوں سے دست و گریبان تھے۔ ایس ایچ او صاحب درمیان میں آئے تو عبدالرحمٰن نے انہیں پر حملہ کردیا شاید اس نے یہ سمجھا ہو کہ ایس ایچ او صاحب اس فرقے کی سائیڈ لے رہے ہیں۔ بہرحال کچھ دن تک مکمل حقائق سامنے آجائیں گے۔

تبلیغی جماعت اور مولانا طارق جمیل صاحب کے مقدر کا ستارا اوج پر ہے۔ اپنے وقت کا ہر حکمران اور ملک کے کلیدی ادارے تواتر سے ان سے اکتساب فیض کرتے رہتے ہیں۔ مولانا صاحب بھی مختلف اور دلچسپ قصے کہانیوں اور حکایات کی مدد سے اپنے معجز بیان اسلوب میں انہیں جنت دوزخ کے واقعات، حوروں کی لمبائی چوڑائی اور دوسری نعمتوں کے بارے میں بتاتے رہتے ہیں۔ ان کے اکثر خطابات کی تان حورو قصور پر ہی ٹوٹتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ عبادت، ریاضت، تصوف، زراعت، تجارت، صنعت، طب، حکمت، طب نبوی، تعلیم، اخلاقیات، سائنس، ٹیکنالوجی، کھیلوں، ثقافت اور وبائی امراض سمیت دنیا کے ہر موضوع پر نہایت لچھے دار اور شاندار تقریر فرما کر سننے والوں کے دل موہ لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار بھی کرونا وبا کے سلسلے میں ہمارے وژنری وزیراعظم نے طب کے ماہرین سے مشاورت کرنے کے بجائے سب سے پہلے مولانا کو طلب کیا جنہوں نے نہایت رقت آمیز اور فصیح و بلیغ دعا فرما کر کرونا وائرس پر کاری ضرب لگائی۔

مولانا اپنے مختلف خطابات میں دل کے مریضوں کو طب نبوی کی روشنی میں عجوہ کھجور کی گٹھلی کے سفوف اور کلونجی کے استعمال سے شفا یاب ہونے کا تیر بہدف نسخہ بتاتے رہے ہیں مگر جب ان کے اپنے علم و عرفان اور تجلیات سے معمور قلب میں گڑ بڑ پیدا ہوئی تو انہوں نے حقیقت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے کفار کے جدید طریق علاج کو اپنانا ضروری خیال کیا۔

آج کل مولانا کی طرح بے شمار مذہبی راہنماٶں نے کرونا وائرس کے علاج کے اتنے زیادہ نسخے مارکیٹ میں متعارف کروا رکھے ہیں کہ اس موضو ع پر ایک ضخیم کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔ ان میں سے ایک علاج یہ کیا جارہا ہے کہ رات دس بجے لوگ اذانیں دینا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جب ہلاکو خان لشکر جرار لے کر بغداد کے دروازے پر کھڑا تھا تو بادشاہ معظم ”ختم خواجگان“ کروا رہے تھے۔ یہ تو ممکن ہے کہ اذانوں سے کرونا وائرس مشرف بہ اسلام ہو جائے مگر اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ وہ مضبوط عقائد و ایمان والے مسلمانوں پر حملہ کرنا ترک کردے۔

سو ہم جیسے کمزور طاقت ایمانی اور بے سرومانی والے پاکستانی  دوست لیکن کافر ملک چین کے مسیحاٶں کی مسیحائی پر مکمل اعتماد کر رہے ہیں۔ مگر ادھر ہمارے دینی غیرت، جوش ایمانی اور روحانی طاقت کے بل بوتے پر کرونا کا شافی علاج مذہبی و دیسی ٹوٹکوں میں تلاش کرنے پر مصر ہیں۔ انہیں اکابر علما و فضلا میں سے ایک نہایت مضبوط عقیدے والے عالم بے بدل رو رو کر دعا مانگ رہے تھے کہ اے اللہ! کرونا کے عذاب کو تُو واپس انہیں کافر ملکوں پر پلٹ دے جبکہ ہمارے وزیر اعظم امداد کے لیے انہیں کافر اور لادین ملکوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

تبلیغی مجاہدین کے جہاد بالخنجر کے علاوہ دوسری افتاد یہ آن پڑی ہے کہ بارڈر سیل ہونے کے باوجود ایران سے مسلسل زائرین واپس آ رہے ہیں۔ اس ضمن میں تشویشناک بات یہ ہے ان زائرین میں سے بہت سے افراد بغیر سکیننگ ملک میں آ کر لاپتہ ہو چکے ہیں۔ ادھر تبلیغ پر نکلے ہوئے سیکڑوں تبلیغی جما عتوں کے ہزاروں مبلغین و داعیین قریہ قریہ کرونا کی وبا لے کر گھوم رہے ہیں۔ کرونا کے حوالے سے ایک سوال رہ رہ کے ہمارے ذہن میں کلبلا رہا ہے۔ مولانا طارق جمیل صاحب کے معتقدین، متاثرین اور فدائین اگر جوش ایمانی ہم جیسوں پر نہ آزمائیں تو بصد احترام یہ پوچھوں گا کہ پاکستان میں کرونا وائرس کا ریلا اور سونامی لانے کے ذمہ داروں میں دو بڑے مذہبی فرقوں کے مقلدین، معتقدین اور متاثرین ہی کیوں پیش پیش ہیں؟ کیا یہ ان کے پیشواٶں کی تربیت کی کمی کا شاخسانہ ہے، ہماری قوم کی بدقسمتی ہے، محض اتفاق ہے، ہماری شامت اعمال ہے، حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت ہے یا ان کے فہم دین کا مسئلہ ہے؟ اس کے ساتھ ہی ایک ضمنی سوال یہ بھی ہے کہ کیا اخلاقی تربیت و برتری کا تعلق کسی خاص مذہب سے ہوتا ہے یا اخلاقیات کو پروان چڑھانے کے کچھ اور اصول ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments