کرونا کی وبا میں ”مبینہ“ دعاؤں کی بازگشت


دعا کی اہمیت سے کسی کو انکار ہو ہی نہیں سکتا اس لئے کہ دعا خدا اور بندے کے درمیان تعلق اور رابطے کا نام ہے تہذیبوں کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ روئے زمین پر کوئی ایسی تہذیب نہیں تھی جس میں دعا کا تصور موجود نہ ہو عجز و ناتوانی اور فقر میں انسان کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ خود کو اپنے سے برتر اور طاقتور وجود کے ساتھ متصل کرے اور اپنی مشکلات میں اسے پکارے ابراہیمی ادیان کا دعاؤں کا ذخیرہ بتاتا ہے کہ ان ادیان کے پیروکاروں نے اچھے برے حالات میں اپنے پروردگار کو پکارا اسلام میں دعا کے تصور کی بات کریں تو اسلام میں دعا کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے خود اللہ تعالی نے انسان کو دعا مانگنے کا حکم دیا ہے۔

وہ ناصرف اپنے بندے کی دعا سنتا ہے بلکہ دعا کو عبادت کا درجہ دیتا ہے ہر عبادت کے خاص آداب ہوتے ہیں اس لئے دعا کے بھی خاص آدا ب اور شرائط بیان کی جاتی ہیں سب سے اہم اور پہلی شرط یہ ہے کہ خدا کو دل کی گہرائیوں سے پکارا جائے بے پرواہ زبان و دل سے نکلنے والی دعا شرف قبولیت اور دعا کا عنوان پانے سے محروم رہتی ہے۔

بد قسمتی سے اسلام کے دوسرے تہذیبی مظاہر کی طرح دعا کے ساتھ بھی یہ سلوک ہوا کہ تما م تر شرائط و آداب کو پس پشت ڈالتے ہوئے دعا کا مفہوم تبدیل کر دیا گیا اور اپنے تئیں یہ سمجھ لیا گیا کہ دعا کا مطلب اللہ تعالی سے ہر کام میں مدد کی درخواست کر کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا ہے صوفیا اس فکری رجحان کے امین بنے اور اسے پروان چڑھایا جس نے آگے جا کر اسلامی تہذیب و تمدن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔

ایسے فکری رجحان کی پوری تاریخ ہے حال ہی میں جب پوری دنیا کو مہلک کرونا وائرس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تو مذکورہ فکر کے پیروکاروں نے احتیاطی تدابیر کو خاطر میں نہ لا کر یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہمارا اللہ مالک ہے وہ ہمیں کچھ نہیں ہونے دے گا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس چیز کو دعا نہیں کہا جاسکتا اللہ تعالی نے انسان کو عقل و شعور کی نعمت عطا فرما کر اس سے کام لینے کا حکم دیا ہے اگر ہر مسئلہ دعا سے ہی حل ہونا ہے تو اسے انسان کو عقل و شعور عطا کرنے اور اختیار دینے کی کیا ضرورت تھی؟

قرآنی و ماثور دعاؤں کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ دعائیں معارف کا خزانہ اور علمی و ادبی میراث ہیں جن میں انسان کوعقل و شعور کو کام میں لا کر انسانی زندگی پر محیط تمام دنیاوی امور کو سنوارنے کی تلقین کی گئی ہے اس امر میں کامیابی کے لئے اسے خدا سے مدد طلب کرنے کا کہا گیا ہے۔

کرونا کی وبا میں ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ عقل و شعور کو کام میں لانے کے بعد اس مہلک مرض سے بچنے کے لئے اللہ تعالی سے مدد کی درخواست کرے دعا کا حقیقی تصور یہی ہے۔

اسی فرض کی ادائیگی کے لئے ملک کے معروف عالم دین نے ٹی وی سکرین پر نمودار ہو کر کرونا کی بلا سے چھٹکارے کے لئے دعا کی تو اس پر ملک بھر میں طرح طرح کے تبصرے ہوئے معروف صحافی اور میزبان نقی شفیع جامعی نے جید عالم دین کی دعا پر اپنے ٹویٹر اکاونٹ پر ان الفاظ میں تبصرہ کیا ”رقت بھری آواز میں ادا کردہ اس مبینہ دعا میں صف اول کے خادموں، ڈاکٹروں، نرسوں، ہسپتالوں اور ویلفیر ٹرسٹ کے عملوں، خاک روبوں، گورکنوں آگ بجھانے سے لے کر، راشن دینے، پہنچانے والوں سے لے کر دیگر درجنوں رضا کاروں اور خدام کے لئے دو لفظ کہے؟ یا وہ“ دعائیہ ”میں نے سنا نہیں“۔

محترم نقی شفیع جامعی کے تبصرے میں ”مبینہ“ کے لفظ کے استعمال نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا میرے علم میں نہیں کہ جامعی صاحب سے پہلے کسی نے ایسی صورت حال کے لئے ”مبینہ“ کا لفظ استعمال کیا ہو صحافت کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اس لفظ کے استعمال سے بخوبی واقف ہیں مبینہ دعا کی ترکیب کا مطلب یہ ہوگا کہ دعا کے واقع ہونے کی تردید یا تصدیق نہیں کی جا سکتی۔

پاکستان کے جید عالم دین کی دعائیہ جملوں پر سب سے زیادہ تنقید اس لئے بھی ہوئی کہ انہوں نے خدا کو بھی یہ بتانا ضروری سمجھا کہ اے اللہ جو حکمران تو نے ہمیں دیا ہے وہ نیک سیرت ہے، دیانتدار ہے محنتی ہے!

عالم دین کو اپنے ممدوح کے بارے میں تعریفی جملے کہنے کا پورا حق ہے اس لئے اس حوالے سے کچھ کہنے کی جرات نہیں البتہ یہ کہنے میں مجھے ذرا بھی تامل نہیں کہ آج کل کرونا کی وبا میں مبینہ دعاؤں کی بہتا ت ہے اس کے علاوہ اسلامی لٹریچر میں دعا کے موانع کے تحت کچھ چیزیں بیان کی جاتی ہیں جس کا مطلب ہوتا ہے کہ موانع میں سے کسی ایک کے موجود ہونے کی صورت میں دعا قبول نہیں ہوتی مثال کے طور پر لقمہ حرام کھانے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی موانع کا لفظ ظاہر کر رہا ہے کسی ایک مانع کی موجودگی دعا کے وجود پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے اسے مبینہ بنا دیتی ہے۔

پروردگار سے علم و دانش کی خیرات مانگنے کی بجائے کرونا کو کافروں کی طرف پلٹانے کے التجائیہ کو مبینہ دعا نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟ اس مبینہ دعا کو سامنے رکھ کر ذرا سوچیں کہ اللہ کے پیاروں کی سب دعائیں پوری ہوتیں تو کیا ہوتا؟ اسی خطرے کے پیش نظر اللہ نے مبینہ دعاؤ ں کو قبول کرنے کی ذمہ داری نہیں لی اگر مبینہ دعاؤں کو قبول کرتا تو تیل والے ممالک کی دکانیں بند نہ ہو جاتیں جب دو چار پھونک مار کر گاڑیوں کی ٹینکیوں میں موجود تیل میں وافر برکت ڈال دی جاتی!

کرونا ہر گزرتے دن کے ساتھ انسانی زندگی کے ہر شعبے پر اپنے اثرات چھوڑ رہا ہے جہاں کرونا نے اجتماعی زندگی کو متاثر کیا ہے وہیں انسانی تہذیب نئے مفاہیم سے بھی آشنا ہو رہی ہے. عہد وبا کے بعد وجود میں آنے والے ادب میں مبینہ دعاؤں کا بھی ذکر ہو گا۔

اگر کرونا کی وبا پر چند ماہ قابو پانا ممکن نہیں ہو پاتا تو یقینا تہذیب کی بنیادیں نئے مفاہیم پر اٹھائی جائیں گی اس حوالے سے اگر ہم ”دعا کے نام پر پنپنے والے کلچر کو دیکھیں تو مختلف ادیان و مذاہب کے لوگوں نے مادی فوائد کے حصول کے لئے دعا جیسی مشترکہ انسانی میراث کا چہرہ مسخ کرتے ہوئے، اسے جنس تجارت سمجھ کر جہالت کی منڈیوں میں بیچنا شروع کیا ہو ا تھا کہ کرونا نے دنیا بھر میں اس صعنت سے وابستہ لوگوں کے کاروبار کو بھی ختم کر کے رکھ دیا ہے آج دعا کے نام پر خوشامد بیچنے والوں کی دکانیں ویران پڑی ہیں ایسے ہی خوشامد کے تاجروں کے بارے میں معروف ادیب شاہ محمد مری کہتے ہیں کہ آج دعا دوا مانگتی پھرتی ہے. دعا سے ہر مسئلہ کو حل کرنے کے دعوے دار پیر فقیر منافع خوروں کی طرف سے ذخیرہ کی گئی ضروری ادویات کے حصول کے لئے لائینوں میں کھڑے پائے جا رہے ہیں گویا افکار و عقائد کی دنیا میں کرونا نے ایک زلزلہ برپا کر دیا ہے لیکن اس کے باوجود خوشامد بیچنے کی صنعت سے وابستہ لوگ نئی نئی منطقیں پیش کر رہے ہیں البتہ خوشی کا مقام ہے کہ ایسے لوگوں میں سے بہت سے لوگوں کے سافٹ وئیر اپڈیٹ ہو رہے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

میں سوچ رہا تھا کہ پولیس اور دوسرے اداروں کی طرف سے موجودہ صورت حال میں سافٹ وئیر اپڈیٹ کرنے کی سہولت میسر نہ ہوتی تو پاکستان میں کرونا کتنے وسیع پیمانے پر تباہی مچاتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments