گڑوی والوں کا محلہ


آئیے آج ہم شہر لاہور کی رونقوں، اشتہا انگیز کھانوں اور پکی سڑکوں کے جال سے کچھ پرے دریائے راوی کے اس پار نظر ڈالتے ہیں۔ ان تصویروں کو دیکھ کر اگر آپ یہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ شاید ہم آپ کو آج ایک کچراکنڈی سے متعارف کروانے جا رہے ہیں تو آپ صحیح پہچانے یہ علاقہ کچرا کنڈی ہی تو ہے۔ کیوں کہ ہمارے معاشرے میں طاقت کی اونچی مسندوں پہ بیٹھے ہوئے شرفاء اور نام نہاد ملا اس جگہ کے باسیوں کو معا شرے کا کچرا ہی تصور کرتے ہیں یا پھر کچرے پہ بھنبھناتی ہوئی مکھیاں۔

ہمارے شہر کے چند لوگ اس علاقے کو گڑوی والوں کے محلے کے نام سے جانتے ہیں۔ لیکن اگر ان سے یہی سوال کر لیں کہ صاحب کچھ محلے کا حدوداربع ہی بتاتے جائیں۔ تو وہ کہیں گے بندر والے محلے کے ساتھ اور یہ دونوں کہاں ہیں ایک دوسرے کے ساتھ۔

خیر ہم تو اس محلے کے نام کے لیے مونث کا صیغہ استعمال کریں گے یعنی گڑوی والیوں کا محلہ۔ کیوں کہ یہاں ہمیں ہر جگہ عورت نظر آئی۔ کریانے کی دکانوں پہ بیٹھی ہوئی عورت، سبزی کی ریڑھی لگاتی ہوئی عورت، گڑوی بجاتی ہوئی عورت، بچے پالتی ہوئی عورت اور تماش بینوں کے سامنے ناچتی ہوئی عورت

چند ماہ قبل کچھ دقتوں کے بعد جب ہم اس محلے میں پہنچے تو سوچا کیوں نہ اس محلے کو کسی شے سے تشبیہ دی جائے۔ ہمارے ہاں اگر کسی جگہ یا شخص کو کسی سے تشبیہ دے دی جائے تو بیان کرنیوالے کو بیان کرنے اورسمجھنے والے کو سمجھنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی چاند سا چہرہ رکھنے والا شخص سورج سا مزاج رکھتا ہو یا جنت سے شہر میں حوروں اور غلمان کا گزر نہ ہو۔

پہلے پہل خیال آیا کہ یہ محلہ ایک چوپال کی طرح ہے اور پھر اگلے چند دن توبہ استغفار میں گزر گئے کہ یہ کیا گناہ سرزد ہوگیا۔ چوپال تو صرف مردوں کے لیے بنائے گئے ہیں۔ وہاں سے عورت کا گزر کہاں۔ پھر ذہن نے دہائی دی کہ چونکہ یہاں ہر طرف عورت کا راج ہے تو اس بازار کے لیے آنگن سے بہتر تشبیہ ہو نہیں سکتی۔

تو جناب یہ بازار ایک آنگن کی طرح ہے جہاں سب کی خوشیاں اور غم سانجھے ہیں۔ یہاں کی ہر عورت سر بازارنشست بچھا کے بیٹھتی ہے اوراس بازار کے باہر اس سماج کا ہر شخص اسے بازاری عورت کے نام سے پکارتا ہے۔ اگر اب آپ یہ سوچ رہے رہیں کہ بازار میں بیٹھی عورت کو بازاری نہ کہیں تو اور کیا کہیں۔ تو عزت مآب آپ اپنی محدود سوچ کے بند کواڑ کھولیے اور اسے تھوڑی سی ہوا لگوائیے اور ذرا یہ سوچیے کہ اسے بازار تک لایا کون ہے۔ خیر یہ بات اب کے نکلی تو بہت دور تلک جائے گی سو اسے کسی اور وقت کے لئے چھوڑے دیتے ہیں۔

ہم آپ کو بتا رہے تھے کہ جیسے ہی کوئی ہمارے جیسی علاقۂ غیر کی عورت اس محلے میں قدم رکھتی ہے تو یہ سب اپنے کام دھندے چھوڑ اس کی طرف متوجہ ہوجاتی ہیں۔ کہیں سے آواز آتی ہے نئی آئی ہے۔ کوئی رواداری نبھاتے ہوئے پوچھتی ہے ٹھنڈی بوتل لاؤں اورکچھ تو یہ تک کہہ دیتی ہیں میڈیا والی ہے بڑے دیکھے اس جیسے میڈیا والے۔ سنا ہے میڈیا والوں کے بعد اکثر یہاں کوتوال آتے ہیں حالانکہ آنا تو واسا والوں کو چاہیے۔

دراصل ذرائع ابلاغ والے اور کوتوال یہاں ناک پہ رومال رکھنے کے ساتھ ساتھ آنکھوں پہ بھی پردہ گرا کر آتے ہیں۔ آپ ان کی جھکی نظر اور آنکھوں کے پردے کو ان کا شرم و لحاظ مت گردانیے گا۔ یہ چھپن چھپائی صرف اس تعفن کی پردہ پوشی کے لیے ہے جس پہ یہ گڑوی والیاں اور ان کے خاندان بیٹھے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments