جذبۂ اصلاح کا خیر مقدم کیجئے!


کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لئے دنیا کے مختلف ممالک اپنے اپنے حالات اور اپنے اپنے وسائل کے مطابق حکمتِ عملی ترتیب دے رہے ہیں، وزیراعظم عمران خان بھی پاکستان کے مخصوص معاشی و معاشرتی تقاضوں کی روشنی میں اس موذی مرض کے مقابلے کے لئے موثر اقدامات کررہے ہیں، انہوں نے عوام کے لئے ملکی تاریخ میں سب سے بڑا آٹھ ارب ڈالر کے ریلیف کا اعلان کرنے کے ساتھ کرونا ریلیف فنڈ قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے، کیو نکہ اس مہلک وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت کو رقم کی بے انتہا ضرورت ہے۔

اس فنڈ کا قیام ایک طرف قوم کو متحرک رکھے گا اور دوسری طرف صاحب ثروت طبقات کو موقع ملے گا کہ وہ مشکل کے وقت اپنے ضرورت مند بھائیوں کے کام آ سکیں۔ وزیر اعظم نے کرونا ریلیف فنڈ قائم کر کے خیر اور بھلائی کی انفرادی کوششوں کو ایک قومی تحریک کی شکل دینے کی کوشش کی ہے، یہ فنڈ ہر مستحق پاکستانی پر خرچ ہو گا، اس کے لیے سب کو ریاست کی مدد کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ وزیر اعظم کے اقدامات بلاشبہ بہت اہم ہیں، مگر حکومت جو بھی فیصلے کر رہی ہے، قومی سطح پر سیاسی جماعتوں میں اتفاقِ رائے کے حامل نہیں ہیں، بعض حکومتی شخصیات اور اپوزیشن لیڈروں کے بیانات سے لگتا ہے کہ ملک میں کورونا پر بھی سیاست بازی زوروں پرہو رہی ہے۔

یہ امرواضح ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی ذہنی بساط اور محدود مالی استطاعت کے مطابق کورونا وائرس کی مصیبت سے عوم کو بچانے کے لئے یہی کچھ کرسکتی تھیں۔ ملک کی دیگر بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما اور متعدد کارکنان کے پاس مال ودولت کے اتنے انبار جمع ہیں کہ وہ ایثار وخدمت کا مظاہرہ کریں تو متاثرین کی بحالی اور محنت کشوں کے خاندانوں کوبیماری کے علاوہ فقرو فاقہ سے بھی بچایا جاسکتا ہے، لیکن سیاسی قائدین تو ہم آہنگی و یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے نظر آرہے ہیں۔

قائد حزب اختلاف تنقید برائے تنقید کی روش پر گامزن حکومتی اقدامات پر اعتراض لگارہے ہیں، جبکہ شریف خاندان کے پاس جو بھی مال واسباب موجود ہے، اس قطع نظر کہ جائز و ناجائز، یہ سب کچھ اسی ملک سے حاصل کیا گیا، اس نا گہانی اَفت زدہ عوام کے لئے وقف کردینا چاہیے۔ یہ خاندان عوام سے محبت اور خدمت کے بلند بانگ دعوے تو بہت کرتا ہے، مگرعملی طور پر اپنی دولت عوام پر لگانے کی بجائے بچانے میں مصروف نظر آتا ہے۔

ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے نوخیز رہنما بلاول بھٹو زرداری کا طرز عمل بھی کچھ خاص مختلف نہیں ہے، وہ مستحق افراد کی مدد کے حوالے سے کوئی کوتاہی برداشت نہ کرنے کی تلقین تو کرتے ہیں، مگرسندھ حکومت کی کا گزاریوں سے نظریں چرائے رکھتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے وفاقی حکومت پر الزام تراشی کی بجائے سند حکومت کوبہتر کار کردگی دکھانے کی ہدایات جاری کی ہیں، مگر شریف خاندان کی طرح عوام کو زرداری و بھٹو خاندان سے بھی یہی شکایت ہے کہ اس نے ملک میں اپنی وفاقی اور صوبائی حکومتون کے دور میں ہمیشہ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم رکھا ہے۔

شریف خاندان ہو یا زرداری بھٹو خاندان دونوں کے اثاثوں کا کوئی حساب و شمار نہیں، لیکن دونوں نے کبھی ذاتی دولت سے قوم کی خدمت نہیں کی ہے، صرف حکومتی و سرکاری وسائل کو اپنی خدمات اور کار کردگی دکھانے کے لئے استعمال کیا ہے۔ آصف علی زرداری کو ساری دنیا لوٹ کھسوٹ کا بادشاہ قرار دیتی ہے اور شریف خاندان کی کرپشن بھی زبان زد عام ہے، یہ اور بات ہے کہ حکومت اورا علیٰ عدلیہ نے ان کے ہا تھ کی صفائی کے ثبوت نہ پا کر لوٹی گئی قومی دولت کا معمولی حصہ بھی اب تک واگزار کرانے میں ناکامی کے سوا کچھ حاصل نہیں کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ دنوں سیاسی جماعتوں کے قائدین احتسابی عمل کو سیاسی انتقام سے تعبیر کرتے ہوئے حکومت پر تنقید کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے ہیں۔

اس مشکل گھڑی میں بھی متحارب حکومتی اور اپوزیشن ارکان میں بلیم گیم کا سلسلہ ہنوز برقرار ہے اور قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف وزیراعظم عمران خان پر انتقامی سیاست کے الزامات لگا کر سیاسی پوائنٹ سکورنگ میں مصروف نظر آرہے ہیں، جبکہ بعض حکومتی اکابرین بھی ان کے لتے لے رہے ہیں جس سے سیاسی ماحول میں کشیدگی پیدا ہورہی ہے، اس طرح تو کرونا وائرس کے خلاف جنگ جیتنے کے لئے قومی اتحاد و یکجہتی کی مثالی فضا کبھی استوار نہیں ہو پائے گی، آج فی الواقع پوری قوم کے یکجہت ہونے کی ضرورت ہے جس کے لئے قومی سیاسی اور دینی قیادتوں نے نمایاں کردار ادا کرنا ہوگا، حکومت پر صرف تنقید کی بجائے شانہ بشانہ عملی طور پر مشترکہ ساتھ دینا ہو گا۔

ملک عرصہ دراز سے بیرونی اور اندرونی قرضوں پر چل رہا ہے، اس پر حکومت کو وبا سے نپٹنے اور متاثرہ طبقات کی مدد کی غرض سے تقریباً بارہ سو ارب روپے بجٹ سے ہٹ کر خرچ کرنے پڑ رہے ہیں، ہوسکتا ہے سیاسی و معاشی دباؤ میں حکومت کو مزید اخراجات کرنا پڑ جائیں۔ اس کام کے لیے حکومت کو بنکوں سے مزید قرضے لینے پڑیں گے۔ ، اس سے افراط زر میں اضافہ ہوگا جس کا زیادہ بوجھ متوسط طبقہ پرآئے گایُوں ہر لحاظ سے مشکل وقت ہے، حکومت اور عوام کو متحد ہو کر اس مشکل سے نکلنا ہے، اپوزیشن کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس مشکل وقت میں سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حکومت کا ساتھ دے۔

حکومت اور معاشرہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ کور و نا وبا کے دور میں کوئی خاندان بھوک کا شکار نہ ہو پائے، اس جزوی لاک ڈاؤن سے لگ بھگ ایک کروڑ ایسے محنت کش عارضی طور پر بے روزگار ہوئے ہیں جن کے پاس جمع پونجی رقم اتنی نہیں ہوتی کہ مشکل وقت اس کے سہارے گزارسکیں۔ وزیر اعظم نے کورونا رلیف فنڈ قائم کر دیا ہے، اپوزیشن قائدین کا فرض بنتا ہے کہ عوام کی خدمت کے جذبہ سے سر شار ہو کر اپنی ذاتی دولت میں سے زیادہ سے زیادہ اس فنڈ میں جمع کرواکر دوسروں کے لئے مثال قائم کریں۔

حکومت نے لاکھوں مستحق خاندانوں کو فی خاندان تین ہزار روپے ماہانہ امداد دینے کا اعلان کیا ہے، اس کام کو روایتی سرکاری تاخیر کا شکار نہیں ہونا چاہیے ’رقم جلد سے جلد متعلقہ لوگوں تک پہنچ جانی چاہیے۔ البتہ یہ رقم اتنی کم ہے کہ اس سے ایک خاندان کی دال روٹی نہیں چل سکتی، ملک کے امیر اور متوسط طبقہ کو ان خاندانوں کی مدد کے لیے آگے بڑھنا ہوگا، تاکہ انسانی المیہ جنم نہ لے۔ کورونا نسل نو کی اصلاح کا موقع فراہم کررہا ہے، جذبہ اصلاح سے خیر مقدم کیجئے، اگرپاکستان کا ہرایک خوشحال خاندان دو سے تین مستحق خاندانوں کو راشن فراہم کرنے کی ذمہ داری اُٹھالے توآزمائش کے یہ دن خوش اسلوبی سے گزر جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments