کورونا وائرس سے نمٹنے میں سندھ دیگر صوبوں پر سبقت لے گیا: عمر چیمہ کی رپورٹ


معرف صحافی عمر چیمہ نے ایک خصوصی تجزیے میں بتایا ہے کہ کورونا وائرس سے نمٹنے میں سندھ دیگر صوبوں پر بازی لے گیا ہے، سندھ حکومت نے ایسے اقدامات کئے ہیں جو دیگر صوبائی حکومتوں کیلئے معیاری نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

پنجاب سے موازنہ کریں تو سندھ ایک ایسے مقام پر ہے جہاں کبھی پنجاب کسی بحران کی صورت میں ہوا کرتا تھا یعنی درست وقت پر درست فیصلہ اور تیاری کا احساس۔

 لاہور میں اچھی شہرت کے حامل ایک بیوروکریٹ کا کہنا ہے کہ پنجاب میں اعلیٰ افسران بھی اس رائے سے اتفاق کریں گے کہ اگر کوئی صوبہ اپنا ذہن استعمال کر رہا ہے اور آزاد فیصلے لے رہا ہے تو وہ سندھ ہے۔

ایک اور افسر کا کہنا تھا کہ سندھ فیصلے لے رہا ہے اور ہم صرف نقل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ متعدد معاملات میں ہم صرف اس لئے اقدامات کرتے ہیں کیونکہ وہ سندھ میں ہو رہے ہیں۔

دونوں صوبوں میں متعین افسران کے ساتھ رابطے سے پتہ چلا ہے کہ سندھ میں انتظامات پنجاب میں کئے گئے اقدامات سے کہیں بہتر ہیں۔

ایئرپورٹ پر بیرون ملک سے مسافروں کی آمد سے لے کر ان کی نگرانی اور تصدیق شدہ کیسز کے علاج تک سندھ نے پالیسیاں تشکیل دی ہیں جو بہت زیادہ نتیجہ خیز اور عوام دوست ہیں۔ مثال کے طور پر کراچی ایئرپورٹ پر آغاز میں وفاقی حکومت کا ہیلتھ اسٹاف تھا۔ اس وقت کی گئی اسکریننگ تسلی بخش نہیں تھی۔ مسافروں کو وفاقی حکومت کے اسکریننگ انتظام کے تحت میڈیکل ڈیکلیریشن فارم جمع کرانا اور تھرمل اسکیننگ سے گزرنا تھا۔ سندھ نے سوچا بہت ہو گیا۔ صوبائی حکومت نے خود اپنا میڈیکل اسٹاف تعینات کردیا جو کورونا علامات سے متعلق طبی سوالات اور اسکریننگ کرتا تھا۔ ایک دفعہ کلیئر ہونے کے بعد مسافروں کو اگلے 14 دنوں کیلئے ہدایات پر مشتمل ایڈوائزری دی جاتی۔

کہانی یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔ ان مسافروں کو 14 دنوں تک روزانہ صوبائی حکومت سے دو پیغامات ملتے رہتے ہیں (ایک انگریزی اور ایک اردو میں) جن میں ان سے کہا جاتا ہے کہ کھانسی، بخار، درد یا سانس کے مسئلے کی صورت میں دیے گئے نمبروں پر رابطہ کریں۔

 اس کے برعکس پنجاب میں ایئرپورٹس پر مسافروں کو محض وفاقی حکومت کی مجوزہ اسکریننگ (ڈیکلیریشن فارم اور تھرمل اسکیننگ) سے گزرنا ہوتا تھا۔ اگر کلیئر ہوجاتے تو انہیں گھر جانے کی اجازت دے دی جاتی۔

 صرف ایک ہی مرتبہ انہیں یہ دیکھنے کیلئے صوبائی حکومت سے کال موصول ہوتی کہ آیا انہیں کوئی مسئلہ ہے اور انہیں کسی بھی شکایت کی صورت میں کہاں رابطہ کرنا چاہئے۔ اس کے بعد کوئی رابطہ نہیں کیا جاتا جب تک کسی میں ٹیسٹ مثبت نہ آجاتا۔ پنجاب حکومت کے ایک اعلیٰ افسر نے تسلیم کیا کہ یہ رسمی ٹیلیفونک اسکریننگ مشکوک افراد کو کورونا وائرس کے مضمرات کی حساسیت کا احساس دلانے میں مددگار نہیں۔

جہاں تک مشتبہ مریضوں کی شناخت کا تعلق ہے تو دونوں صوبوں کی اس سے نمٹنے کی مختلف حکمت عملی ہے۔

مثال کے طور پر سندھ میں تمام نجی اور سرکاری اسپتال کو ہدایت کی گئی ہے کہ جب بھی ان کا سامنا کسی مشتبہ مریض سے ہو تو ڈسٹرکٹ رسپانس ٹیم کو آگاہ کریں۔ یہ ٹیم مریض کے پاس پہنچ کر اس کا انٹرویو کرے گی اور ٹیسٹ کیلئے نمونہ اکٹھا کرے گی۔

تمام ٹیسٹنگ سندھ میں مفت کی جاتی ہے۔ اگر نتیجہ مثبت آ جائے تو مریض کو دو آپشنز دئیے جاتے ہیں کہ یا تو اپنے گھر پر خود کو آئیسولیٹ کرلو یا اسپتال میں داخل ہو جاؤ۔

صرف تشویشناک حالت میں ہی مریضوں کیلئے اسپتال میں داخل ہونا لازمی ہے۔ جو اپنے گھروں پر خود کو آئیسولیٹ کرتے ہیں ان سے باقاعدگی سے تازہ ترین صورتحال کیلئے رابطہ کیا جاتا ہے اور مخصوص وقت کے بعد یہ جاننے کیلئے ان کے ٹیسٹ کئے جاتے ہیں کہ آیا وہ شفایاب ہوگئے ہیں یا نہیں۔

اگر  دو مرتبہ ان کے منفی نتیجوں کی تصدیق ہوجاتی ہے تو انہیں حتمی طور پر کلیئر کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان امتاثرہ افراد سے ملنے جلنے والے ممکنہ افراد کا سراغ لگا کے ان کا بھی ٹیسٹ کیا جاتا ہے کہ آیا انہیں یہ مرض تو نہیں لگا۔ جس کسی میں بھی مثبت ٹیسٹ آجائے تو اسے اسی طریقہ کار سے گزرنا پڑتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments