دبئی کرونا۔ لاتو ں کے بھوت


پیوستہ تھے ہم شجر تھے، امید بہار تھی۔ مگر خطبہ سماعت فرمانے کی دیر تھی۔ سبی شہر کی گر می تن بدن میں تلملانے لگی۔ اور ہم سب گھر والوں سے منہ چھپائے پھر رہے تھے۔ کیونکہ آج کل سب کو منہ صرف گھر والوں کو دکھانے کی اجازت ہے۔ باقی پردہ عام و عوام ہے۔ مگر ہم آنکھیں نہیں جھکاتے کہ کہیں ٹکرا ہی نہ جائیں۔ وبا کے دن ہیں۔ محبت پہ پابندی ہے مگر کچھ ظالم مصنفوں کو وبا میں بھی محبت سوجتی ہے تو ناول لکھ مارتے ہیں خیر جی منہ چھپانے کی وجہ یہ کہ ہم جیسے ہی چند جنات اور چڑیلیں ہیں جو اب بھی امید بہار کے گیت گنگنا رہے ہیں۔

ڈھیٹ سمجھ لیجیے یا پر امید، اب اس کی تعریف لغت میں بھی ایک ہی ہو نے والی ہے۔ ہم امید سے ہیں۔ قوم اور حالات نہ بدلے تو لغت ضرور بدلنے کے بارے میں کو ئی کمیٹی بنا دی جائے گی۔ جس میں چند الفاظ کے لئے تو خصوصی پینل تشکیل دیناپڑے گا۔ ان الفاظ میں ”تبدیلی“، ”معافی“، ”گھبرانا“، ”ہینڈسم“، ”آپ“، ”قرضہ“، ”قوم“، ”آ رہی ہے“، ”جا نہیں رہی“ وغیرہ اور اسی طرح کے کچھ معروف و مشہور الفاظ شامل ہیں جو شاید کل کو ضرب المثل بن جائیں۔

خیر گھبرانا تو ہم نے بالکل نہیں ہے۔ شوق خطاب دل میں لئے بیٹھے ہیں۔ گھبرانا نہیں ہم دل دیے بیٹھے ہیں

جب سے یہ دھمکی دی ہے یقین کیجئے کرونا کے مریضوں میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اصل میں کرونا کو بھی پتا تھا کہ وہ جس ملک میں داخل ہو گیا ہے وہ ”جگاڑ“، لگا لینے والی قوم ہے۔ وہاں کوڑے کڑکٹ کے ڈھیر جا بجا محبت کا نذرانہ پیش کرتے مل جاتے ہیں۔ لاہور کو کچھ لٹیروں نے اس سے پاک کر دیا مگر کرونا آنے سے قبل بزدار نے اپنے اتنظامات مکمل کر لئے ہو ئے تھے۔ چند ماہ قبل سے ہی شہر کے پوش علاقوں کے چوک میں کوڑے کے ڈھیر نظر آنے لگے تھے۔ باقی تو خیر ووٹر کا حق ہے۔ اجی یہی تو نشانی ہو تی ہے روحانی لیڈر کی، اس کے خواب میں سب کچھ آ جاتا ہے لہذا اس کے عین مطابق وہ انتظامات کا آغاز کر دیتا ہے۔

کراچی تو اس گلستان محبت کی وجہ سے ویسے ہی مشہور ہے۔ پشاور کے مسائل اپنے ہیں۔ کوئٹہ میں کوڑا آبادی کے اعتبار سے کم ہے۔ یہ وہ اعلی اتتظامی امور تھے جو پہلے سے کر دیے گئے تھے۔ لہذا مانا جا سکتا ہے کہ اب ہم پہ کرونا کم اثر کرے گا۔

ڈاکٹرز کی عادت ہے رونے کی، خیر روتے روتے پلاسٹک کے لفافے چڑھا کر لگے ہو ئے ہیں۔ ان کو اگر کچھ ہو گیا تو ہمارے پاس حکیمو ں کی ٹائیگر فورس موجود ہے۔ حکیموں کوجراثیم نے کچھ کہا تو ہمارے پاس مولویوں کی ٹائیگر فورس موجود ہے۔ ہم سائنس کی ایسی کی تیسی کر دینے والی ہر فورس کے حامل ہیں۔ اس لئے ہم گھبراتے بھی نہیں، فکر بھی نہیں کرتے۔

ملک میں خوراک کی قلت ذخیرہ اندوزی اور مناسب سپلائی نہ ہو نے کے باعث ہو پا رہی۔ اس مسئلے کو حل کرنے کا طریقہ پیش ہو نے والا ہے کہ جن لڑکو ں کو سڑکو ں پہ پکڑ کر مرغا بنایا جا رہا ہے اگلے مرحلے میں ان سے کہا جائے گا کہ اب انڈے بھی دیں۔ اس سے عورت کے حقوق سلب ہو نگے مگر کوئی بات نہیں کہ یہ اس وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یو ں بھی کہاوت ہے کہ محبت اورجنگ میں سب جائز ہو تا ہے تو ہم اس وقت بیک وقت دونوں حالات سے گزر رہے ہیں۔

ہم نے لاک ڈاون نہ کر نے کا دانش مندانہ فیصلہ کیا ہوا ہے۔ مگر اس کے مخالف چلتے ہو ئے ہم نے ٹائیگر فورس بھی بنا دی ہے۔ گر چہ عین ممکن ہے کہ ہنگامی سطح پہ ہمیں کرفیو بھی لگانا پڑ جائے۔ اور یہ دن چلہ یا چھلا سے دنوں سے تجاوز کر جائیں۔ پہلے والے فیصلے کے مطابق معاشیات کے نقطہ نظر سے ہم اگر عمل درآمد کرلیں تو پو ری عالمی منڈی بند ہو نے سے ہم اپنی منڈی چلا کر معیشت پہ بوجھ نہیں بنیں گے؟ خیر خرد و فکر کے فیصلو ں سے ہمارا کیا لینا دینا۔

چلیں دبئی چلتے ہیں۔ اوہ یہ کیا بھئی۔ اللہ جہاز تو بند ہیں۔ آسمان آلودگی سے پاک ہے اسی لئے ستارے ٹمٹمانے لگے ہیں۔ چلیں آنکھیں بند کریں، روحانی چلتے ہیں۔ اللہ، یہ کیا جو ماسک کے بغیر نظر آ جائے پانچ سو درہم جر مانہ۔ اوہ، یہ کیا دو سے زائد لوگ اکٹھے نظر آ گئے دو ہزار درہم جرمانہ، اف، یہ کیا پرائیوٹ گاڑی بند، اگر کسی کمپنی کی گاڑی نظر آ جائے تو پچاس ہزار درہم جرمانہ۔ شام آٹھ سے صبح چھ بجے تک ہر طرح کی ٹریفک بند، اور کو ئی گاڑی ایک منٹ کی خلاف ورزی کر تی نظر آ جائے تو جر مانہ۔ لاتو ں کے بھوت والی کہاوت کو علمی جامہ بمعہ پاجامہ پہنا رکھا ہے۔ اب اس سے زیادہ کیا نعمت ہو گی ہمارا حکمران بے خوفی کی دولت سے مالا مال ہے۔ ہم گلی محلو ں میں آرام سے ٹی ٹونٹی کروا رہے ہیں۔ تاش کی بازیاں چل رہی ہیں۔ مرغے بنا دینے پر ہی چھوٹ جاتے ہیں۔

ایک واقعہ یاد آ گیا۔

گورنمنٹ کالج کا ایک نو جوان لڑکاوقار احمد جس نے پشتو افسانوں کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ آج کل اپنے علاقے سرحد میں کسی ادارے میں پڑھا رہا ہے۔ اس نے اپنی کتاب بھجتے ہو ئے سنایا تھا۔ ”مس ہماری یو نیورسٹی میں ایک پروفیسر ہے وزیٹنگ پہ، اور جلد پرمانینٹ ہو نے والا ہے مگر کہتا ہے، دعا کرو ہمارا پوسٹنگ پرائمری سکول میں ہو جائے۔ ہم نے دوخواست دے رکھا ہے۔ اور مس اب اس کی پوسٹ اسی سکول میں ہو گئی ہے۔ “،

شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات
میرے دل میں تو کرفیو لگا ہوا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments