کیسا ہوگا پاکستان


ہر گزرتے دن کے ساتھ کرونا وائرس دنیا کی معیشت کے لئے خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی معیشت کو ایک ہزارارب ڈالر سے زائد کا نقصان برداشت کرنا پڑ سکتا ہے جس کے نتیجے میں پچیس کروڑ لوگ ملازمتوں سے نکالے جا سکتے ہیں۔

وینٹیلیٹر پر ہچکولے کھاتی پاکستانی معیشت پر کرونا وائرس کے اثرات کو ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی ایک رپورٹ میں دو تناظر سے دیکھا جاسکتا ہے۔ بدترین اثرات کے باعث پاکستانی معیشت کو پانچ ارب پچاس کروڑ ڈالر تک کے نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس میں زراعت کی انڈسٹری کو ایک ارب پچاس کروڑ ڈالر، کاروبار اور تجارت کی انڈسٹری میں ایک ارب نوے کروڑ ڈالر، ہوٹل اور ریسٹورنٹ کی صنعت میں پچیس کروڑ ڈالر، لائٹ اور ہیوئی مشینری میں سڑسٹھ کروڑ ڈالر اور جب کہ ٹرانسپورٹ کی انڈسٹری میں تقریباً چھپن کروڑ ڈالر تک کا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے، اگر کرونا وائرس کے اثرات کو کم سے کم تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستانی معیشت پر اس کے بوجھ کے اعتبار سے اعدادو شمار سولہ کروڑ ڈالر سے زائد تصور کیے جا سکتے ہیں۔

زراعت میں پانچ کروڑ ڈالر، کاروبار اور تجارت میں پانچ کروڑ پچاس لاکھ ڈالر، ہوٹل اور ریسٹورنٹ میں چھہ لاکھ ڈالر، لائٹ اور ہیوی مشینری میں لگ بھگ پینتیس لاکھ ڈالر اور جبکہ ٹرانسپورٹ کی انڈسٹری میں نو لاکھ ڈالر تک کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

ایف بی آر جو کہ پہلے ہی مالیاتی سال 2019۔ 20 میں اپنے ٹارگیٹڈ ٹیکس کی وصولی میں شدید مشکالات کا سامنا کر رہا ہے اور اپنے مقرر کردہ ہدف کو پانچ اعشاریہ پانچ کھرب روپے سے پانچ اعشاریہ دو کھرب روپے پر لا چکا ہے، اور آگر پاکستان میں لاک ڈاؤن تین یا تین سے زائد مہینوں تک رہتا ہے تو ایف بی آر بمشکل چار اعشاریہ چار کھرب روپے ہی وصول کر پائے گا۔ اور باقی خسارہ آنے والے سالوں میں مہنگائی کی صورت میں عوام پر مزید بوجھ ڈال کر پورا کیا جاسکتا ہے۔

اگر برآمدات پر نظر ڈالی جائے تو مارچ 2020 میں پچیس فیصد تک کمی دیکھی گئی ہے اور یہ کمی آنے والے دنوں میں پچاس فیصد تک ہونے کا امکان ہے۔ آگر کرونا وائرس نے پاکستان میں بھی ویسی ہی رفتار سے تباہی مچائی جیسے دیگر ممالک میں دکھائی دیتی ہے تو ایک اندازے کے مطابق نو لاکھ پچاس ہزار لوگوں کو ملازمتوں سے نکالے جانے کا امکان ہے، پاکستان میں پہلے ہی پانچ کروڑ سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے رہتے ہیں اور ان اعداد و شمار میں خوفناک حد تک مزید چھ کروڑ لوگوں کا اضافہ ہو سکتا ہے جس کا مطلب پچاس فیصد سے زائد پاکستانی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو سکتی ہے۔

معیشت اور اس کے اثرات پر کافی بات ہوچکی، اب کچھ بات کرتے ہیں مختلف حلقوں اور ان کے رویوں کی، پاکستان میں ہر بخار اور کھانسی کو کرونا وائرس کا مریض ہی سمجھے جانے لگا ہے۔

الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا پر امید کہ بجائے خوف طاری کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، کرونا وائرس سے بچاؤ ممکن ہے اور اس کا فل وقت علاج بھی موجود ہے اور وہ ہے احتیاط اور سماجی فاصلہ۔

جتنا آپ لوگوں سے میل جول کم کرتے جائیں گے اتنا آپ پاکستان کو اس وبا سے نکالنے میں مدد کرتے جائیں گے۔ اپنی طرزِ زندگی میں تھوڑی سی تبدیلی کرنا کتنا مشکل کام ہے؟ اللّہ پاک کا ابھی تک پاکستان پر خاص کرم ہے۔ قرنطینہ میں موجود آٹھ ہزار آٹھ سو تریانوے لوگوں میں سے پانچ ہزار ایک سو نوے لوگوں کا رزلٹ منفی ہے۔

اللہ کی کتاب کہتی ہے جس نے ایک شخص کی جان بچائی اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی، اور اس آیت پر عمل کرنے کا یہ سب سے بہترین موقع ہے۔

بعض مذہبی حلقوں میں یہ بیچینی پائی جاتی ہے کہ مساجد اور نماز کے اجتماعات پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، بیشک یہ پابندی بحیثیت مسلمان قبول کرنا ایک تکلیف دہ بات ہے لیکن حرم پاک تک بند کردیا گیا ہے اور وجہ محض انسانی جانوں کی حفاظت کرنا ہے۔ تو پھر کیوں ہم بنا سوچے سمجھے مذہب کارڈ کے نام پر بلیک میل ہوجاتے ہیں۔ کچھ دن احتیاط اور پھر ہمیشہ کے لئے مساجد آباد، ہمارے ذہنوں میں ایسے خیالات کیوں نہیں جنم لیتے؟

بعض حلقے بے احتیاطی کو بہادری گردانتے نظر آتے ہیں، مانا وائرس میں مرنے والوں کی تعداد پانچ فیصد سے بھی کم ہے لیکن کیا ہم بائیس کروڑ کے ملک میں پانچ فیصد اموات برداشت کر سکتے ہیں؟ حزب اختلاف کے رویے پر اگر بات کی جائے تو محض تنقید برائے تنقید کے سوا کچھ حاصل وصول نظر نہیں آتا، ہم میں سے کتنے لوگ یہ جانتے ہیں کہ وفاقی حکومت کو ٹکیس کی مد میں ملنے والے ہر پانچ روپے میں سے تین روپے اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو منتقل ہوجاتے ہیں۔

وفاقی حکومت کی کارکردگی پر اگر نظر ڈالی جائے تو اس وقت پاکستان میں ای سی یو کی تعداد انیس ہزار چھ سو ستتتر، قرنطینہ کی سہولیات کو پانچ سو سے بڑھا کر ایک لاکھ باسٹھ ہزار کر دی گئی ہے، پاکستان کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم نے ملک بھر میں پندرہ سو سے زائد تھری اسٹار اور فور اسٹار کو قرنطینہ کی سہولیات کے لیے بک کر لیا ہے، اعداد و شمار کے مطابق سرکاری ہسپتالوں میں موجود وینٹیلیٹر کی مجموعی تعداد بائیس سو ہے جسے اپریل کے آخر میں تین ہزار سے زائد اور مئی کے مہینے کے اختتام تک دس ہزار تک کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

محض ایک فیصد اپنی جی ڈی پی کا صحت کے شعبے میں خرچ کرنے والے ملک کے لیے اس وائرس سے اکیلے نکلنا ناممکن ہے، مشکل کی گھڑی میں اس وقت ہم سب بحیثیت ایک قوم اپنے اپنے پیرائے میں رہتے ہوئے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق لوگوں کا سہارا بن کر اپنے اپنے حصہ کا دیا ضرور جلائیں۔

مجھے یقین ہے کہ وہ دن دور نہیں کہ ہم اس وائرس کو شکست دے کر رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments