کمدار بادل کے ہم شکل باگڑی اور دولت پور کا وڈیرہ موسی خان


دولت پور سندھ کا ایک چھوٹا سا قصبہ جہاں ایک وڈیرا موسی خان اپنے جاہ و جلال کے ساتھ اپنے علاقے کے لوگوں پر حکمرانی کرتا تھا۔ اس قصبے میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو بھی آباد تھے۔ اس علاقے کے لوگ بڑے ہی پسماندہ ذہنوں کے مالک تھے۔ وڈیرے موسی خان کے مچھلی کے تالاب پر ایک ہندو باگڑی خاندان آباد تھا جس کا سربراہ پردیسی باگڑی اپنی بیوی لکشمی باگڑی، بیٹے اجو اور بہو نصیبو اور اپنے آدھا درجن پوتے پوتیوں کے ساتھ اپنی زندگی میں مگن تھا۔

جب پردیسی، اس کی بیوی اور بیٹا وڈیرے کے کمدار بادل کے حکم پر زمینوں کے کاموں پر نکلتے تو ساتھ ہی کمدار بادل اور نصیبو کی پریم کہانی کا آغاز ہو جاتا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آدھا درجن بچوں میں سے اکثر باپ سے زیادہ کمدار کے ہم شکل نکلے۔ اس پریم کہانی کا پورے قصبے میں چرچا تھا۔ باگڑی خاندان کو ویسے تو ہر کوئی حقارت کی نگاہ سے دیکھتا تھا کہ یہ حرام خور لوگ ہیں مگر نصیبو کے پیار کا جام ہر کوئی پینے کو تیار رہتا تھا۔

گاگن سائیکلوں کی دکان پر اپنی روزی روٹی کماتا تھا اور گاگن کی بیوی بدری جسے سب بڑی آپا کے نام سے پکارتے تھے ہر وقت ہی بیمار ی اور لاچاری کی تصویر بنے پھرتی تھی اور ان کا نکھٹو بیٹا راجو جو ہر وقت ہی سکول نہ جانے کے نت نئے بہانے تراشتا رہتا تھا۔ گاگن مسجد کے باہر لگے نلکے پر نہا رہا تھا کہ کمدار بادل آیا ارے گاگن او گاگن تو مٹی کے ڈھیلی سے کیوں نہا رہا ہے؟ ارے کمدار بادل یہ مٹی نہیں، صابن کا بھائی ہے۔

بدن سے میل ہی تو ہٹانی ہے پھر چاہے صابن سے ہٹاؤ یا مٹی سے ایک ہی بات ہے۔ کمدار بادل تم سناؤ منھ کیوں سوجا ہوا ہے وڈیرے موسی خان نے تو کچھ نہیں کہا؟ یار گاگن مت پوچھو وڈیرے نے بڑا تنگ کیا ہوا ہے۔ کمدار بادل تمہیں وڈیرے نے تنگ کیا ہوا ہے تم تو اس کے خاص بندے ہو۔ نہیں یار گاگن مجھے نہیں، نصیبو کو تنگ کر رکھا ہے۔ کمدار نصیبو کو تنگ کیا مطلب؟ مطلب یہ گاگن کہ وہ نصیبو کو رات کو اپنے بنگلے پر بلاتا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں اب کچے کی زمینوں کی دیکھ بھال کروں۔

کمدار بادل، وڈیرا رات کو اپنے بنگلے پر نصیبو کو کیوں بلاتا ہے۔ ارے بھولے گاگن وڈیرا نصیبو کو فلم دکھانے کے لیے بلاتا ہے۔ کمدار بادل مجھے بھی وی سی آر پر ریکھا کی فلم دیکھے کئی سال بیت گئے ہیں۔ ارے کمدار بادل نصیبو کے ساتھ لگے ہاتھ تم بھی چلے جایا کرو وڈیرے کی فلم دیکھنے، تمہیں اور کیا چاہیے۔ ارے گاگن تم بھی بس مٹی کے ڈھیلے ہی ہو عقل نام کی کوئی چیز نہیں تم میں۔ بھائی یہ دوسری والی فلم ہے جسے دیکھ کر وڈیرا انگریز بن جاتا ہے۔

اچھا چھوڑو گاگن تم نہیں سمجھو گے میں چلتا ہوں مجھے ایک ضروری کام ہے۔ دولت پور قصبے کا اسکول ماسٹر شیر محمد جو اسکول میں کم اور باہر زیادہ گھومتا پھرتا زیادہ نظر آتا تھا۔ اسکول آتے ہوئے اپنے ساتھ ایک کالا موٹا ڈنڈا اور ایک لال مرچ ضرور لیے آتا تھا کہ اگر کسی کا سبق کچا نکلا تو پھر سزا میں یہ کالا ڈنڈا اور لال مرچ جو منھ کے بجائے کہیں اور سے ڈالی جائے گی۔ گاگن نہا دھو کے گھر کی طرف جا رہا تھا کہ اس کی نظر ماسٹر شیر محمد پر پڑتے ہی اسے آوازیں لگانے لگا او سائیں شیر محمد او ماسٹر شیر محمد۔

ارے گاگو سناؤ۔ ماسٹر کیا ماجرا ہے میرا راجو اسکول جانے کو تیار ہی نہیں ہوتا۔ کہتا ہے کہ ماسٹر خود تو اسکول ہوتا نہیں بس بچے ہی آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ ماسٹر بولا راجو خود تو اسکول آتا نہیں اور میری شکایت لگاتا ہے۔ میں نے تو کئی بار بچوں کو بھی بھیجا کہ زبردستی پکڑ کر لائیں اس نکمے کو اسکول۔ ایک تمہاری بیوی ہے جو بچوں کو گالیاں دے کر بھگا دیتی ہے چلو آج پھر بھیجوں گا بچوں کو راجو کو لانے اسکول۔ گاگن گھومتا پھرتا جب گھر پہنچا تو ایک شور مچا ہوا تھا۔

سکول کے بچے راجو کو پکڑنے گھر آئے ہوئے تھے راجو کی ماں اور بچوں میں لڑائی چل رہی تھی۔ گاگن زور سے چلایا ارے بچو راجو کو زبردستی پکڑ کے سکول لے جاؤ۔ بچے راجو کو اٹھائے جب سکول پہنچے تو ماسٹر شیر محمد پہلے ہی آگ بگولا بیٹھا تھا فوراً راجو کا سزا نامہ جاری کیا کہ اسے نیم کے درخت کے ساتھ باندھ دو اور درخت کے نیچے موجود مٹی میں پانی ڈالو تاکہ مکوڑے نکلیں۔ بچوں کو تو بس کہنے کی دیر تھی فوراً حکم پر عمل درآمد ہوا۔

بس پھر کیا تھا فضا میں راجو کی چیخیں اور اللہ کے نام کے واسطے سائیں مکوڑوں سے بچاؤ اندر کاٹے جا رہے ہیں۔ ماسٹر شیر محمد کی آنکھوں میں پر تو جیسے خون سوار تھا آؤ دیکھا نہ تاؤ کالے ڈنڈے سے راجو کی دھلائی شروع کر دی اور غرایا ٹھہر ابھی لال مرچ کی سزا تو باقی ہے۔ بس پھر اس دن کے بعد راجو نے اسکول سے توبہ کی اور اپنے باپ کے ساتھ سائیکلوں کی دکان میں پنچر لگانے کو غنیمت سمجھا۔ کمدار بادل نے وڈیرے کے چنگل سے اپنی نصیبو کو بچانے کے لیے نصیبو باگڑی کو قصبے سے ایسے غائب کیا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔

جب وڈیرے موسی خان کا قہر کمدار بادل پر برس رہا تھا اور اس سے پوچھا جا رہا تھا کہ نصیبو کہاں ہے؟ تو اس وقت آسمان پر ایک جہاز جا رہا تھا کمدار بادل نے حاضر جوابی سے جواب دیا کہ اس جہاز میں جا رہی ہے میری نصیبو۔ میں مر بھی جاؤں تب بھی نصیبو کا پتہ نہیں بتاؤں گا نہ ہی اب نصیبو کو آپ کی فلم دیکھنے دوں گا۔ لوگ بتاتے ہیں کہ وڈیرے موسی خان کے فوت ہونے کے بعد نصیبو کو پھر کمدار بادل کے ساتھ دولت پور میں دیکھا گیا مگر اب کی بار کمدار بادل کو کسی وڈیرے کا خوف نہیں تھا۔ آج بھی کمدار بادل کے ہم شکل باگڑی دولت پور کے آس پاس محنت مزدوری کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ان باگڑیوں کی خواتین موسی خان جیسے وڈیروں اور کمداروں کے ہاتھوں کا کھلونا بنی رہتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments