وہ بڈھا ۔۔۔ راجندر سنگھ بیدی کا شاہکار افسانہ


گووند چاچا کہہ رہے تھے ”لڑکا تن کا اجلا ہے، من کا اجلا ہے اس کی آتما کتنی اچھی ہے، اس کا اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بچوں سے پیار کرتا ہے۔ بچے اس پر جان دیتے ہیں، اس کے اردگرد منڈلاتے ہیں، ہی ہی، ہو ہو، ہاہا کرتے رہتے ہیں اور وہ بھی ان کے ساتھ غی غی، غو غو، غاں غاں“ بس میں اندر کے کسی سفر سے اتنا تھک چکی تھی کہ رات کو مجھے بھیڑیں گننے کی بھی ضرورت نہ پڑی۔ ایک سپاٹ، بے رنگ، بے خواب سی نیند آئی ایسی نیند جو لمبے رت جگوں کے بعد آتی ہے۔

دو ہی دن بعد وہ لڑکا ہمارے گھر پر موجود تھا۔ ارے! یہ سب اندازے کتنے غلط نکلے! وہ ہاکی ٹیم کے سب لڑکوں کیا کھیلنے والے اور کیا اسٹینڈ بائی سب سے زیادہ گبرو، زیادہ جوان تھا۔ اس نے صرف کسرت ہی نہیں کی تھی، آرام بھی کیا تھا۔ اس کا چہرہ اندر کی گرمی سے تمتمایا ہوا تھا۔ رنگ کندنی تھا میری طرح۔ مضبوط دہانہ، مضبوط دانتوں کی باڑھجیسے بے شمار گنے چوسے ہوں، گاجر، مولیاں کھائی ہوں، شاید کچے شلغم بھی۔ وہ ایک طرف گھبرایا ہوا تھا اور دوسری طرف اپنی گھبراہٹ کو بہادری کی اوٹ میں چھپا رہا تھا۔ آتے ہی اس نے مجھے نمستے کی، میں نے بھی جواب میں نمستے کر ڈالی۔ پھر اس نے ماں کو پرنام کیا۔ جب وہ میری طرف نہ دیکھتا تھا تو میں اسے دیکھ لیتی تھی۔ یہ اچھا ہوا کہ کسی کو پتہ نہ چلا کہ میری ٹانگیں کپکپانے لگی ہیں اور دل دھڑام سے شریر کے اندر ہی کہیں نیچے گر گیا ہے۔ آج کل کی لڑکی ہونے کے ناتے مجھے ہسٹیریا کا ثبوت نہیں دینا تھا، اس لئے ڈٹی رہی۔ بیچ میں مجھے خیال آیا کہ بے کار کی بغاوت کی وجہ سے میں نے تو اپنے بال بھی نہیں بنائے تھے۔

اس کے ساتھ اس کی ماں بھی آئی تھی۔ وہ بچھی جا رہی تھی، جیسے بیٹوں کی شادی سے پہلے مائیں بچھتی ہیں۔ مجھے تو یوں لگا جیسے وہ لڑکا نہیں، اس کی ماں مر مٹی ہے اور جانے مجھ میں اپنے مستقبل کا کیا دیکھ رہی ہے؟ اس کی اپنی صحت بہت خراب تھی اور وہ اپنی کبھی کی خوبصورتی اور تندرستی کی باتیں کر کے اپنے بیٹے کے لئے مجھے مانگ رہی تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے اسے اپنی ”ماں“ پر بھروسا نہیں وہ بھکارن کہہ رہی تھی۔ لڑکوں کی خوبصورتی کس نے دیکھی ہے؟ لڑکے سب خوبصورت ہوتے ہیں بس اچھے گھر کے ہوں، کماؤ ہوں اور وہ اپنی ماں کی طرف یوں دیکھ رہا تھا جیسے وہ اس کے ساتھ کوئی بہت بڑا ظلم کر رہی ہے۔ میری ماں کے کہنے پر وہ کچھ شرماتا ہوا میرے پاس آ کر بیٹھ گیا اور ”باتیں کرو“ کے حکم پر مجھ سے باتیں کرنے لگا۔

پہلے تو میں چپ رہی۔ پھر جب بولی تو صرف یہ ثابت ہوا کہ میں گونگی نہیں ہوں۔ سفید قمیص، سفید پتلون اور سفید ہی بوٹ پہنے وہ کرکٹ کا کھلاڑی معلوم ہو رہا تھا۔ وہ کیپٹن نہیں تو بیٹس مین ہو گا۔ نہیں بولر بولر، جو تھوڑا پیچھے ہٹ کر آگے آتا ہے اور بڑے زور کے سپن سے گیند کو پھینکتا ہے اور وکٹ صاف اڑ جاتی ہے۔ ہاں بیٹس مین اچھا ہو تو چوکسی کے ساتھ گیند کو باؤنڈری سے بھی پرے پھینک دیتا ہے، نہیں تو خود ہی آؤٹ!

ماں کے اشارے پر میں نے اس سے پوچھا ”آپ چائے پئیں گے؟“

”جی؟“ اس نے چونک کر کہا اور پھر جیسے میری بات کہیں دھرتی کے پورے کرے کا چکر کاٹ کر اس کے دما غ میں لوٹ آئی اور وہ بولا ”آپ پئیں گی؟“

میں ہنس دی ”میں نہ پیوں تو کیا آپ نہیں پئیں گے؟“
”آپ پئیں گی تو میں بھی پی لوں گا۔“

میں حیران ہوئی، کہ وہ بھی ایسا ہی تھا جیسے ماں کے سامنے میرے پاپالیکن ایسا تو بہت بعد میں ہوتا ہے۔ وہ شروع میں ہی ایسا تھا۔

چائے بنانے کے لئے اٹھی تو سامنے آئینے پرمیر ی نظر گئی۔ وہ مجھے جاتے دیکھ رہا تھا۔ میں نے ساڑھی سے اپنے بدن کو چھپایا اور پھر اس بڈھے کے الفاظ یاد آ گئے ”آج کل یہاں چور آئے ہوئے ہیں دیکھنا کہیں پولیس ہی نہ پکڑ لے تمہیں“

بس کچھ ہی دن میں میں پکڑی گئی۔ میری شادی ہو گئی۔ میرے گھر کے لوگ یوں تو بڑے آزاد خیال ہیں، لیکن دیدی پر بٹھاتے ہوئے انہوں نے جیسے مجھے بوری میں ڈال رکھا تھا تاکہ میرے ہاتھ پاؤں پر کسی کی نظر بھی نہ پڑے۔ میں پردہ پسند کرتی ہوں، لیکن صرف اتنا جس میں دکھائی بھی دے اور شرم بھی رہے۔ زندگی میں ایک بار ہی تو ہوتا ہے کہ وہ دبے پاؤں آتا ہے اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس گھونگھٹ کو اٹھاتا ہے جسے بیچ میں سے ہٹائے بنا پرماتما بھی نہیں ملتا۔

شادی کے ہنگامے میں میں نے تو کچھ نہیں دیکھا کون آیا، کون گیا۔ بس چھوٹے سولنکی میرے من میں سمائے ہوئے تھے۔ میں نے جو بھی کپڑا، جو بھی زیور پہنا تھا، جو بھی افشاں چنی تھی، ان ہی کی نظروں سے دیکھ کر، جیسے میری اپنی نظریں ہی نہ رہی تھیں۔ میں سب سے بچنا، سب سے چھپنا چاہتی تھی تاکہ صرف ایک کے سامنے کھل سکوں، ایک پر اپنا آپ وار سکوں۔ جب برات آئی تو میری سہیلیوں نے بہت کہا، ”بالکونی پر آ جاؤ، برات دیکھ لو۔“ لیکن میں نے ایک ہی نہ پکڑ لی۔ میں نے ایک روپ دیکھا تھا جس کے بعد کوئی دوسرا روپ دیکھنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔

آخر میں نے سسرال کی چوکھٹ پر قدم رکھا۔ سب میرے سواگت کے لئے کھڑے تھے۔ گھر کی سب عورتیں، سب مرد بچوں کی ہنسی سنائی دے رہی تھیں اور وہ مجھے گھونگھٹ میں سے دھندلے دھندلے دکھائی دے رہے تھے۔ سب رسمیں ادا ہوئیں جیسی ہر شادی میں ہوتی ہیں لیکن جانے کیوں مجھے ایسا لگتا تھا جیسے میری شادی اور ہے، میرا گھونگٹ اور، میرا بر اور۔ گھر کے اشٹ دیو کو ماتھا ٹکانے کے بعد میری ساس مجھے اپنے کمرے میں لے گئی تاکہ میں اپنے سسر کے پاؤں چھوؤں، ان کے چرنوں کو ہاتھ لگایا۔ انہوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور بولے ”سو تم آ گئیں بیٹی؟“

میں نے تھوڑا چونک کر اس آواز کے مالک کی طرف دیکھا اور ایک بار پھر ان کے قدموں پر سر رکھ دیا۔ کچھ اور بھی آنسو ہوتے تو میں ان قدموں کو دھو دھو کر پیتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments