کرونا وائرس مریض کی دہریہ نرس اور مذہبی سسر



جب میں نے زہرا نقوی کا ’جو میری مخلص دوست ہی نہیں ایک ہمدرد سوشل سروس ورکر بھی ہیں‘ ’ہم سب‘ پر کالم پڑھا تو میرے دل میں ان تمام ڈاکٹروں ’نرسوں اور سوشل ورکروں کے لیے احترام اور عقیدت کے جذبات ابھرے جو اپنی جان اور صحت داؤ پر لگا کر بے گھر منشیات سے متاثر انسانوں‘ نفسیاتی مسائل کا شکار لوگوں اور کرونا وائرس کے مریضوں کا خیال رکھتے ہیں۔

ان کے کالم سے مجھے اپنی مریضہ جنیفر کا خیال آیا جو آج مجھ سے ملنے میرے کلینک آئی تھیں، کہنے لگیں
’ آج کی اپاؤنٹمنٹ میری آپ سے آخری اپاؤنٹمنٹ ہے۔ ‘ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگیں
’ آج میں دس دن کے بعد گھر سے نکلی ہوں۔ ہمارے ہسپتال میں میری ایک مریضہ کو کرونا وائرس ہو گیا ہے۔ جب ڈاکٹر کو پتہ چلا تو اس نے مشورہ دیا کہ مجھے دو ہفتے گھر میں بند رہنا چاہیے تا کہ دیکھا جائے کہ میں کرونا وائرس سے بیمار ہوں یا نہیں۔ میں نے کہا میرا ٹیسٹ کر لیں۔ چنانچہ انہوں نے روئی سے لپٹی ایک لمبی تیلی میری ناک میں اوپر تک چڑھائی اور ٹیسٹ کے لیے سیمپل لیا جو ایک تکلیف دہ عمل تھا لیکن میں نے برداشت کیا۔ میں اس کا نتیجے آنے تک گھر میں بند رہی۔ آٹھ دن بعد نتیجہ آیا تو وہ منفی تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ مجھے کرونا وائرس نہیں ہے۔ جب میں کام کرنے واپس ہسپتال گئی تو بالکل نئے حالات پیدا ہو چکے تھے۔

’کس قسم کے حالات؟ ‘ میں متجسس تھا۔
کہنے لگیں ’چونکہ ہسپتال میں کئی مریضوں کو وائرس کا اٹیک ہوچکاہے اس لیے ہسپتال کی انتظامیہ نے کرونا کے مریضوں کے لیے ایک علیحدہ وارڈ بنایا ہے اور اس وارڈ میں کام کرنے والے نرسوں اور ڈاکٹروں کی فہرست کا اعلان کیا ہے جس میں میرا نام بھی شامل ہے‘

’ آپ کا اور آپ کے خاندان کا اس کے بارے میں کیا ردِ عمل ہے؟ ‘ میں نے پوچھا
’ یہ خبر سن کر میری والدہ‘ بہن اور نانی رونے لگیں۔ انہیں یوں لگا جیسے یہ خبر میری موت کی خبر ہو۔ انہیں ڈر ہے میں زندہ نہیں بچوں گی لیکن میں سمجھتی ہوں کہ میں ایک نرس ہوں اور نرس کا فرض اپنے مریضوں کی خدمت کرنا ہے اور اگر اس کے لیے جان کو خطرے میں بھی ڈالنا پڑے تو یہ ایک قربانی ہے۔ اگر کرونا کے مریضوں کا ہم خیال نہیں رکھیں گے تو کون رکھے گا۔ وہ بھی تو آخر انسان ہیں انہیں بھی علاج اور ہمدردی چاہیے ’

’تو آپ ان دنوں رہیں گی کہاں؟ ‘
’میں کام سے واپس گھر نہیں آنا چاہتی۔ میری نانی بہت بوڑھی اور ضعیف ہیں میں ان کی جان خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتی۔ ہسپتال کی انتظامیہ نے کرونا وائرس کے وارڈ میں کام کرنے والے ڈاکٹروں او نرسوں کے لیے علیحدہ رہائش کا انتظام کر دیا ہے۔ میں وہاں رہوں گی۔ انہوں نے ہمارے لیے خاص لباس کا بھی انتظام کیا ہے جو ہمیں کرونا وائرس سے محفوظ رکھے گا‘

’میں آپ کے انسانیت کی خدمت کے جذبے سے بہت متاثر ہوں‘
’یہ تو میرا پیشہ ورانہ مسئلہ ہے۔ میں اپنا ایک ذاتی مسئلہ بھی آپ کو بتانا چاہتی ہوں‘
’ضرور بتائیں‘
’ میں نے آپ کو بتایا تھا کہ کرونا وائرس کے بحران سے دو ہفتے پہلے میں نے اپنے بوائے فرینڈ ایڈورڈ سے منگنی کی تھی۔ میں بہت خوش تھی کہ جلد میری شادی ہو جائے گی اور میں اپنے محبوب شوہر کے ساتھ علیحدہ گھر میں رہوں گا۔ لیکن پھر اس کے والدین نے مجھے ڈنر پر بلایا۔ جب میں اس ڈنر میں شریک ہوئی تو مجھے پتہ چلا کہ میرا ہونے والا سسر بہت مذہبی ہے۔ اس نے ڈنر کے دوران ایسی باتیں کین کہ میں بہت غصے میں آ گئی‘

’ اس نے آخر ایسی کیا بات کی؟ ‘ میں متجسس تھا۔
’کہنے لگا ساری دنیا میں کرونا وائرس خدا کا عذاب ہے۔ لوگوں نے گرجا جانا چھوڑ دیا ہے۔ خدا کو ماننا چھوڑ دیا ہے۔ اب عورتیں ابارشن کرواتی ہیں اور مرد گے شادیاں کرتے ہیں۔ یہ سب ان گناہوں کا عذاب ہے‘

پھر جینیفر چند لمحوں کے لیے خاموش ہوگئی۔
اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ کہنے لگی
’ڈاکٹر سہیل آپ جانتے ہیں میں ایک دہریہ ہوں‘ انسان دوست ہوں اور بطور نرس انسانیت کی خدمت بھی کرتی ہوں۔ مجھے ان کی باتوں سے دکھ بھی ہوا اور غصہ بھی آیا۔ پہلے تو میں نے برداشت کیا کیونکہ میں اپنے ہونے والے سسر کے ساتھ بے ادبی اور گستاخی نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن جب ان کی مذہبی بنیاد پرست باتوں کا سلسلہ اور میرا غصہ بڑھنے لگا تو میں نے معذرت کی اور میں اپنے گھر چلی آئی۔ اب میرا منگیتر ایڈورڈ کہتا ہے کہ تم نے میرے والدین کی توہین کی ہے۔ ’

’ اور آپ کا کیا خیال ہے؟ ‘
’ میں نے کوئی توہین نہیں کی۔ میں نے صبر کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے صرف میرے نہیں بلکہ تمام دہریوں‘ ابارشن کروانے والی عورتوں اور گے شادی کرنے والے مردوں کے جذبات کی توہین کی۔ اگر کوئی اور ہوتا تو میں بھی دو چار کھری کھری سناتی لیکن میں ادب کی وجہ سے چپ رہی اور اٹھ کر گھر آ گئی۔ ’

’ تو اب شادی کا کیاہوگا؟ ‘
’اب میں کچھ سوچ میں پڑ گئی ہوں۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ جب تک کرونا وائرس کا کرائسس چلتا رہے گا میں ہسپتال میں ہی رہوں گی۔ اب مجھے کچھ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنے کا موقع مل جائے گا۔ ویسے ڈاکٹر سہیل! میرا منگیتر ایڈورڈ خود لبرل انسان ہے اپنے باپ کی طرح مذہبی جنونی نہیں ہے۔ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ وہ خود تو اتوار کو گرجا جاتا ہے لیکن میری دہریت اور انسان دوستی کا احترام کرتا ہے، مجھے گرجا جانے پر مجبور نہیں کرتا۔ اس لیے مجھے امید ہے ہم اس مسئلے کا حل تلاش کر لیں گے‘

جب جینیفر مجھے یہ باتیں سنا رہی تھیں تو میں ایک انسان دوست ہونے کے ناتے سوچ رہا تھا کہ ہر ملک اور قوم میں مذہبی اکثریت اور غیر مذہبی اقلیت پائی جاتی ہے۔ جب ایک مذہبی اور غیرمذہبی انسان ایک دوسرے سے محبت کرنے لگتے ہیں تو انہیں محبت کے ساتھ ساتھ مذہبی اختلاف الرائے کا بھی حل تلاش کرنا پڑتا ہے۔

میں نے جنیفر کو بتایا کہ میں انہیں کئی سالوں سے جانتا ہوں۔ اس دوران انہوں نے ہائی سکول ختم کیا ’نرسنگ سکول میں داخلہ لیا اور اب وہ نرس بن کر

انسانیت کی خدمت کرتی ہیں۔ مجھے ان پر بہت فخر ہے۔
میں نے جینیفر سے یہ بھی کہا کہ اگر وہ چاہتی ہیں تو اپنے منگیتر ایڈورڈ کو بھی میری طرف سے تھیریپی کی دعوت دے سکتی ہے۔

جانے سے پہلے جینیفر نے کہا کہ جب تک کرونا وبا کا بحران ختم نہیں ہو جاتا وہ مجھ سے ملنے نہیں آئیں گی۔

میں نے انہیں بتایاکہ کینیڈا کی حکومت نے کرونا وبا کے ہنگامی حالات کی وجہ سے نیا قانون بنایا ہے کہ ڈاکٹر ٹیلیفون پر بھی تھیریپی کر سکتے ہیں۔ میں نے جب انہیں دعوت دی کہ ہم ملے بغیر فون پر تھیریپی کر سکتے ہیں تو وہ بہت خوش تھیں۔

جب وہ جا رہی تھیں تو احساسِ ممنونیت سے ان کی آنکھیں نم تھیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 681 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments