اِس مشکل گھڑی میں ملک کے ساتھ کھڑے ہوں



یہ لاک ڈاؤن ہوئے تیسرے دن کی شب کا پہلا پہر ہے۔ ڈی ایچ اے فیز 5 کے ایک گھر میں ایک نوجوان صنعت کار اسامہ عثمان ایک فون کال سُننے میں مصروف ہے۔ بات کرنے والے نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ وہ پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی کے پلان نائن سے بول رہا ہے۔ تکلیف دینے کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ دراصل انہیں وینٹی لیٹرز سپلیٹرز  کے لیے اس کے تعاون کی اشد ضرورت ہے۔ اس پرزے کی ہنگامی بنیادوں پر تیاری چاہیے۔ وینٹی لیٹرز کی شدید کمی کو وہ اِس پرزے کی مدد سے بہت آسانی سے چار مریضوں کو ہینڈل کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔

نوجوان نے بتایا کہ فیکٹری بندہے۔ اور چھوٹے بڑے کارکن سب چھٹی پر ہیں۔ اور وہ خود بھی گھر پہ ہے۔ پلیز آپ ابھی فیکٹری کھولیں۔ اپنے انجنیرز کو بلائیں۔ ہم پہنچتے ہیں۔ اسامہ نے اپنے بہترین فنی ماہروں کو فوراً فیکٹری پہنچنے کا کہا۔ پی آئی ٹی بورڈ کے لوگ تھری ڈی پرنٹرپر تیارکرنے والے پرزے کی ڈرائنگ اور تصویریں لے کر آئے تھے۔ دونوں پارٹیوں کے درمیان فنی پہلوؤں پر بحث مباحثہ اور اظہار رائے رات گئے تک جاری رہا۔

انجنیرز کے سامنے بہت سارے مسائل تھے۔ انہوں نے کہا۔ ایسے مولڈ بنانے میں دن لگیں گے۔ مارکیٹیں بند ہیں۔ سامان کی خریداری کا بھی مسئلہ ہے۔ مگر نوجوان صنعت کار نے کہا۔ سُنو میرے ساتھیو ملک پر کڑا وقت ہے۔ جو سامان ہمارے پاس ہے اسے نکالیں جو چیزیں تیار ہیں انہیں ضائع کرکے اس کا لوہا اور دیگر استعمال میں آنے والی چیزیں نکال لیں۔ اس ملک نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے۔ اس وقت ہمارا فرض بھی اس کا حق لوٹانے کا ہے۔

تھری ڈی پرنٹر سے تیار ہونے والا یہ پرزہ چھ گھنٹے میں بن رہا تھا۔ مینوفیکچرنگ صرف امریکہ میں تھی۔ لاگت بہت زیادہ اور پائیداری بھی بہت کم تھی۔

اور جب نوجوان دو بجے انہیں رخصت کررہا تھا۔ اس نے دو باتیں کیں۔ وہ ابھی کام شروع کرنے لگے ہیں۔ انہیں امید ہے ساٹھ ستر گھنٹوں میں ایک عمدہ پائیدار چیز آپ لوگوں کو تیار کرکے دیں گے۔ مگر اس کی کوئی قیمت نہیں ہوگی یہ بلامعاوضہ تمام اسپتالوں اور میڈیکل یونٹوں کو مہیا کی جائے گی۔ آپ نے ایک بات کا ہم سے وعدہ کرنا ہے کہ کسی پرائیویٹ سیکٹر کو یہ نمونہ نہیں دینا۔ اس پرزے کو صرف فلاحی مقاصد کے لیے ہی استعمال کیا جائے۔ اس کی خریدوفروخت پر پابندی ہوگی۔ اپنے ملک کو اور دیگر ملکوں میں جہاں بھی کرونا وائرس ہے اس کی فراہمی ہماری ذمہ داری ہوگی۔

پرزہ 72 گھنٹے میں تیار کرلیا گیا۔ پہلا ٹرائل فیروز پور روڈ کے ایک اسپتال میں کیا گیا۔ ایک دو چھوٹی سی خرابیوں کو دو تین گھنٹوں میں دور کیا گیا۔ ڈاکٹروں کی ٹیم نے اوکے کیا۔ اب یہ پرزہ ایک ہزار کی تعداد میں روزانہ تیار ہوکر اسپتالوں کو مہیا کیا جارہا ہے۔

اسامہ عثمان نے میڈیل یونٹوں کو وافر تعداد میں اس کی فراہمی کو یقینی بنایا تاکہ ڈسپوز آف کرنے کی صورت میں کمی نہ آنے پائے۔ اِسے کمرشل نہ کرنے کے سلسلے میں فرم نے اس پر اپنا خصوصی نشان کنندہ کروایا ہے۔ اسامہ عثمان نے کہا ہے۔ یہ پرزہ دنیا میں جہاں ضرورت ہوگی بلامعاوضہ فراہم کیا جائے گا۔ اپنے ایسے سب شاہینوں کو جو اس وقت اسپتالوں میں ڈاکٹر ز، نرسوں اور دیگر عملے کے ساتھ کرونا کی آگ میں اپنے پاکستانیوں کو بچانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ ہم دعائیں اور محبتیں پیش کرتے ہیں۔

دوسری خبر پڑھیں۔ میں ٹی وی بہت ہی کم دیکھتی ہوں۔ ہائی بلڈ پریشر کی مریضہ ہوں۔ پانچ دن پہلے پرائویٹ سکول مالکان اور سرکاری انتظامیہ کے بارے خبر تھی کہ حکومت 20 %فیسوں میں رعایت چاہتی ہے اور مالکان انکاری ہیں۔ خبر میرے ساتھ میرے میاں نے شیئر کی اور کہا کس قدر افسوس کی بات ہے۔ بحث و تکرار کا تو وقت ہی نہیں۔ حکومت کے ساتھ کھڑے ہونا اہم ہے۔ میٹر میرا بھی گھوما۔ کون ناشکرے لوگ تھے۔ اف کتنے احسان ہیں اِس ملک کے۔

کیا میں آج یہاں کھڑی ہوتی جہاں اس وقت ہوں۔ جالندھر کی ایک مضافاتی بستی میں پیدا ہونے والی نہ لاہور شہر میں آتی۔ نہ اتنی پڑھائی لکھائی کرتی۔ گاؤں کے اسکول سے پرائمری یا مڈل پاس کرلیتی۔ اُپلے تھاپتی اور چولہے میں اُپلوں کے دھوئیں سے آنکھیں پھوڑتی۔ اُپلے اور لکڑیاں تو اماں نے بھی جلائیں مگر بیٹی کے ہاتھوں میں کتابیں دیں۔ ستر کی دہائی کے آوائل میں ہی امّاں کا چھوٹا سا باورچی خانہ سوئی گیس سے سج گیا۔

یہ میڈیا والے بھی نابس مخصوص اور تعلقات والوں لوگوں کو ہی بلائیں گے۔ پرائیوٹ سیکٹر خسارے میں ہے۔ اگر وہ اعداد و شمار سے ثابت کرتے ہیں تو قطعی غلط ہیں۔ جھوٹ بولتے ہیں۔ ابھی بحث چھڑی ہوئی ہے۔ مالکان مان نہیں رہے ہیں۔ ابھی تک معاملہ بیچ میں ہی لٹک رہا ہے۔

اب شنید ہے کہ وزیراعظم کے پاس چلا گیا ہے۔ بہرحال ہم تو وہ لوگ ہیں جو ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جاتے ہیں۔ ڈیم فنڈ میں بھی زوروشور سے حصّہ لیا تھا۔ وہ پیسہ کہاں گیا؟ کچھ اتہ پتہ نہیں۔ اب اللہ کرے حکومت اِس اُفتاد سے ایمانداری اور منظم انداز سے نپٹ سکے۔ ہم تو جی جان سے اس پر قربان ہونے کے لیے تیار ہیں۔

تیسری خبر پر بھی تھوڑا سا لکھنے کو جی چاہتا ہے۔ اس وقت عمران خان نے صنعت کا جام پہیہ چلانے کے لیے جو بیان دیا ہے اور جس پر بڑی لے دے ہورہی ہے کہ یہ بے وقت کی راگنی گارہا ہے۔ یہ وقت لنگر خانے کھولنے کا ہے اور یہاں صنعتوں کے بارے بات ہورہی ہے۔

میں کوئی ماہر معاشیات نہیں۔ صرف تاریخ کی ادنیٰ سی طالبہ ہوں۔ تاریخ کو اگر دیکھیں۔ سوویت جب ٹوٹا تھا۔ اس کا معاشی ڈھانچہ ایک خوفناک جھٹکے سے زمین بوس ہوگیا تھا۔ نوّے کی دہائی میں رُوسیوں کی کھانے پینے کی چیزوں کی دستیابی کے جو حالات تھے اُس کے قصے میں نے اپنے سفر روس کے دوران سُنے اور لوگوں کی آنکھوں سے چھلکتے آنسوؤں کو بھی دیکھا تھا۔

ریاستیں الگ ہورہی تھیں۔ سوویت اکانومی کا سارا ڈھانچہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ بس تو اس وقت یہی کلیہ آزمایا گیا۔ مقامی صنعتوں کو پورے عزم و حوصلے سے میدان میں اُتارا گیا۔ لوگوں نے مشکل وقت کاٹا اور آج روس سب کے سامنے ہے۔

الحمدللہ ہم تو پھر بہتر حالت میں ہیں۔ آئیے قوم بنیں، آئیے ایثار کریں، آئیے عزم و حوصلے سے اس وبا کو مار بھگائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments