پاکستانی میڈیا کا کردار اور معاشرہ سازی


دنیا بھر میں صحافت اورمیڈیا کا ایک نہایت اہم کردار ہے جس کا کام ریاست کے سامنے کھڑا ہونا اور عوام کو سچ بتانا ہوتا ہے دنیا بھر میں اس کی شاندار مثالیں موجود ہیں اور خود پاکستان بھی ان میں سے کسی سے پیچھے نہیں رہا ہے منہاج برنا اور اُ ن جیسے بہت سے بڑے نام جن میں سے کئی کو تو نامعلوم افراد کے ہاتھوں بری طرح مارا پیٹا گیا اور کئی ایک کو تو قتل بھی کروایا گیا لیکن یہ لوگ حق پر کھڑے رہے۔ نجی چینلوں کے آنے سے پہلے اُمید تھی کہ اب صحافت کا اعلی ترین معیار دیکھنے کو ملے گا اور اس کے نتیجہ میں لوگوں کا شعور بہت ترقی کرے گا لیکن اب حالات یہ ہو گئے ہیں کہ لوگوں میں ان سے بیزاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔

جس طرح نجی سیکٹر نے کوالٹی دینے کے بجائے محض عوام کی کھال ہی کھینچی اسی طرح انہوں نے بھی عوام کو بیوقوف بنا کر محض ٹرک کی بتیوں کے پیچھے لگایا ہو ہے۔ ہر بار الیکشن سے پہلے میڈیا پر ہم یہ سنتے ہیں کہ اس مرتبہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے زیادہ پڑھی لکھی، قابل اور مخلص حکومت آنے والی ہے جس کے بعد ہم پہلی مرتبہ ترقی کی سمت سفر شروع کریں گے اور یہ باور کروانے میں میڈیا کے۔ ”شوبز دانشور“ پیش پیش ہوتے ہیں جو پچھلے کئی سالوں سے اپنے ”علم، فہم و فراست اور دانش“ کی بدولت ہم جیسے عام کم فہم لوگوں کی ذہن سازی کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم پھر کہیں ہمیشہ کی طرح غلط فیصلہ نہ کر دیں۔

یاد رہے یہ وہی دانشوران ہیں جو شدید گرمیوں کے دنوں میں ٹی وی سٹوڈیو میں کوٹ پینٹ اور ٹائی پہن کر گرم کافی کا مگ پکڑ کر بجلی کے بحران پر گفتگو کر رہے ہوتے ہیں۔ ویسے تو تجزیہ ہمیشہ علم اور تاریخ کو دیکھتے ہوئے اور حقیقی مادی حقیقتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے لیکن ہمارے میڈیا پر یہ تجزیہ چڑیوں، طوطوں کی بتائی ہوئی اطلاعات پر اور ”اندر کی خبر“ پر ہوتا ہے یہ اور ان اطلاعات کے ذرائع کبھی بھی نہیں بتائے جاتے اور لوگوں سے اُمید کی جاتی ہے کہ وہ ان ”تجزیوں“ کو بلا تامل مان بھی لیں۔

اسی طرح ایک اور سلسلہ بھی بہت عام ہے اور وہ یہ کہ کچھ لوگوں پر کچھ سنگین الزامات عائد کر دیے جاتے ہیں جو کہ زیادہ تر ثبوت کے بغیر ہوتے ہیں اور اگر ثبوت ہو تو وہ بھی کتنا موثر ہے یہ بات کی بعد کی بات ہے پھر وہ شخص چاہے عدالتوں سے رہا بھی ہو جائے مگر وہ رہے گا مجرم کا مجرم یعنی بس ایک مرتبہ الزام عائد کرنا ہے پھر چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ شخص مجرم ہی رہے گا لیکن ان پر بغیر ثبوت کے الزامات لگانے والے رہیں گے دانشور کے دانشور۔

اب تو تمام اینکرز بذات خود تجزیہ نگار بھی بن چکے ہیں جو کہ بد قسمتی سے مشہور زمانہ اینکر لیری کنگ اب تک نہ بن سکے۔ ان میں سے کچھ اینکرز ایسے بھی ہیں جن کو میڈیا پر جھوٹ بولنے پر کئی دفعہ پروگرام بھی بند کرنا پڑا اور کئی دفعہ عدالتوں کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود اُن کو پھر ٹی وی پر پروگرام کرنے کی کھلی چھٹی مل جاتی ہے اور وہ ایک بار پھر سے اپنے ”دانش“ اور نئے عزم اور انتہائی بد تہذیبی کے ساتھ اپنے خطابت کے جوہر دکھانے کا مظاہرہ شروع کر دیتے ہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ جب ان کے تمام تجزیے ناکام ثابت ہو جاتے ہیں تو بہت ڈھٹائی کے ساتھ یہ کہہ دیا جا تا ہے ”میرا یہ خیال تھا کہ بہت تیاری ہو گی“ یا ”مجھے ان کی کارکردگی نے بہت مایوس کیا ہے“ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سالوں سے صرف ”خیال“ کی بنا پر تجزیہ کر رہے ہوتے ہیں جبکہ اُس وقت ان کا علم اور تاریخی ادراک کیا گھاس کھانے گیا ہوا ہوتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے کبھی بھی پارٹیوں کے لیڈران سے اُنکی تیاری کے بارے میں کبھی نہیں پوچھا ہوتا اور اُن سے قومی مسائل پر کبھی گفتگو ہی نہیں کی تو یہ بذات خود اُنکی نالائقی اور نا اہلی کا کھلا ثبوت ہے۔

ایک بڑا مشہور قول ہے کہ بڑے ذہن رکھنے والے نظریات پر گفتگو کرتے ہیں، اوسط ذہن کے مالک واقعات پر گفتگو کرتے ہیں اور چھوٹے ذہن کے لوگ شخصیات پر گفتگو کرتے ہیں۔ اب اگر آپ ان ٹاک شوز پر ہونے والی پر ”مغز گفتگو“ کو سنیں تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کی تمام تر گفتگو نظریات کے نہیں بلکہ شخصیات کے گرد گھومتی ہے پرویز مشرف بہت برا تھا اُس کو تبدیل کر دیا جائے، زرداری کرپٹ ہے اور قاتلوں کا سرپرست ہے ہٹا دو، گیلانی اور راجہ پرویز اشرف بہت کرپٹ اور نا اہل ہیں، نواز شریف تو خیر سے ان تمام اوصاف کے ساتھ غدار بھی تھے اور اب عمران خان اور اُن کی ٹیم نشانے پر ہے۔

کیا کسی نے ان ٹاک شوز پر اس بات پر گفتگو کی ہے کہ اتنی شخصیات کی تبدیلی سے بھی بہتری نہیں آ رہی تو پھر خرابی کہاں پر ہے۔ کیا حکمرانوں کی غلطی ہے یا طرز حکمرانی میں کوئی خامی ہے۔ ہر پارٹی کہتی ہے کہ ہم ملک کو ٹھیک کر دیں گے کیا یہ دعوی کافی ہے یا کہ ٹھیک کیسے کریں گے اس کا مکمل بلیوپرنٹ ہونا اور اس پر سیر حاصل گفتگو کا ہونا یہ ان ٹاک شوز کا مقصد ہونا چاہیے۔ کیا چین اور یورپ کی مثالیں کافی ہیں یا چین اور یورپ نے یہ ترقی کیسے حاصل کی اور اس کے لئے کیا اقدامات کیے ان موضوعات پر گفتگو ہونی چاہیے۔

کیا معاشی بدحالی میں پاکستان ہی واحد ملک ہے یا یورپ اور امریکہ بھی بدحالی کا شکار ہیں اور اگر ہیں تو کیوں ہیں۔ کیا اصولی طور پر ان پر پروگرام کرنے بنتے ہیں یا نہیں۔ پانامہ سکینڈل بہت اُچھالا گیا جو کہ بالکل درست قدم تھا لیکن کیا پھر اس پر گفتگو بنتی تھی یا نہیں کہ آئندہ کے لئے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں کہ پھر اس طرح کی کرپشن نہ ہو سکے۔ ہمارے سماجی اور معاشرتی مسائل جیسا کہ قصور میں زینب نامی بچی کے ساتھ جو قبیح واقعہ پیش آیا اُس کا اختتام صرف سزائے موت تھی یا اس کے ساتھ ان واقعات کے سماجی اور نفسیاتی تجزیہ کی بھی ضرورت تھی کہ آئندہ اس طرح کے واقعات نہیں ہوں یا جیسا کہ ان پروگراموں میں ہوا کہ سب کو صرف پھانسیوں پر لٹکا دو اور کسی پروگرام پر اس پر کوئی تجزیہ نہیں ہوا۔

رات کو جب یہ ٹاک شوز کا بازار کھلتا ہے تو اس میں آپ دیکھیں کہ آپ کو اس میں صرف ایسے لوگ نظر آئیں گے جن کا معیار محض بد تمیزی سے بات کرنا ہی ہے۔ اگر کبھی ان میں موجود مہمانوں کو دیکھیں تو آپ کو اس میں بہت زیادہ یا تو مختلف پارٹیوں کے سنجیدہ شخصیات کے بجائے ان پارٹیوں کے منہ زور اور ”میں نہ مانوں“ والی شخصیات مدعو ہوتی ہیں یا ریٹائرڈ فوجی اور بیوروکریٹ دانشور ہوتے ہیں جبکہ کبھی بھی پڑھے لکھے پروفیسر اور محقق موجود نہیں ہوں گے جبکہ انٹرنیشنل نیوز چینلوں پر معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے اور اس پر چار چاند لگانے کے لئے یہ اینکر حضرات خود بھی کبھی بھی موضوع پر تیاری کر کے نہیں آتے اور ان کا مقصد صرف اشتہارات لینے اور ریٹنگ بڑھانے کے لئے ہوتا ہے۔

اب سٹیج ڈراموں کے فنکاروں کو بلا کر جگتیں لگوائی جاتی ہیں یا نجومیوں کو بلا کر سیاست اور سیاستدانوں کی قسمت کا حال دیکھا جاتا ہے اس پر پھر سیاسی مذاکرہ بھی ہو جاتا ہے اس پر مجھے پاکستان کے ایک نامور تاریخ دان اور دانشور ڈاکٹر مبارک علی صاحب کا ایک جملہ جو میں نے ان کی کسی ایک کتاب میں پڑھا تھا یاد آتا ہے کہ جدید سائنسی ایجادات ایک پس ماندہ اور نیم خواندہ معاشرے کو مزید پس ماندہ بنا دیتی ہیں اسی طرح اُنہوں نے ایک اور جگہ پر لکھا ہے کی پس ماندگی کی کبھی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔ درحقیقت اس طرح کے نیوز چینلوں کی دنیا بھر میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ بحیثیت معاشرہ اب ہم میں عدم برداشت، بلا دلیل کے بحث اور نظریات کے بجائے شخصیات سے اُمید لگائے بیٹھے ہیں اور ایک بند گلی میں پھنس چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments