کرونا عذاب ہے تو عذاب کیوں آیا



دنیا بھر میں عبادت گاہیں بند ہیں۔ مسجدوں، چر سناگاگز، گوردواروں اور مندروں کے دروازے اکثریت کے لیے بند ہو چکے۔ یعنی وہ جگہیں جہاں لوگ خالق کا حق ادا کرنے جاتے ہیں، بند ہیں۔ ان سب جگہوں پر جانے والوں کا عموی عقیدہ ہے کہ کائنات میں کچھ بھی ایک بزرگ و برتر خالق کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔

اس بزرگ و برتر ہستی کو پکارنے کے لیے سب کے پاس مختلف نام ہیں۔ لیکن اس ہستی کی طاقت و اختیار کا تصور سب کا تقریباً یکساں ہے۔

تو کیا ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ قادر مطلق نے ان جگہوں کے دروازے بند کر کے اس کی عبادت کا حق ادا کرنے آنے والوں کو پیغام دیا ہے کہ جاؤ پہلے حقوق العباد ادا کرو۔ اپنے ارد گرد موجود میری مخلوق کا حال معلوم کرو۔

حقوق العباد میں صرف دوا اور خوراک کی فراہمی شامل نہیں۔ انصاف کی فراہمی بھی ہے۔ ظلم سے تحفظ بھی ہے۔ جنگ سے امن بھی ہے۔

قادر مطلق کو ماننے والوں نے اس کے بندوں پر زمین تنگ کر رکھی تھی۔ کشمیر میں مودی، فلسطین میں نیتن یاہو، افغانستان میں ٹرمپ، نیٹو، افغان حکومت اور طالبان، سنکیانگ میں چینی حکومت اور باقی دنیا میں بوکو حرام، داعش، سنگھ پریوار اور اسی قبیل کی دیگر قوتوں نے خدا کے بندوں پر آزادی کا سانس لینا حرام کر رکھا ہے۔

جن کو ان کی ماؤں نے آزاد جنا ان انسانوں کو کہیں سرمائے نے پٹہ ڈال رکھا ہے تو کہیں ”ریاستی مفادات“ کے نام پر کوئی ”محب وطن“ ان کو قادر مطلق کی دی ہوئی آزادی سلب کر کے اٹھا کر لاپتہ کر دیتا ہے۔

قادر مطلق نے جیسے مرد کو بنایا اسی طرح عورت کو بھی بنایا، ٹرانس جینڈرز کو بھی بنایا۔ اس کو ماننے والے یہ مانتے ہوئے بھی ان کو سماجی اور معاشی انصاف سے محروم رکھتے ہیں۔

قادر مطلق تو خود کہتا ہے کہ وہ کسی کے سجدوں کا محتاج نہیں۔ تو کیسے ہو سکتا ہے کہ اسے ہماری بنائی ہوئی وہ جگہیں اپنی مخلوق سے زیادہ عزیز ہوں جو ہم نے اپنی تسکین کے لیے اس کو سجدہ کرنے کے لیے بنائیں۔

میرے خیال میں تو اسے اپنی مخلوق زیادہ عزیز ہو گی جس کے ساتھ ستر ماؤں جتنا پیار کرنے کا وہ مدعی ہے۔

تمہیں لگتا یہ کرونا اس کا عذاب ہے۔ مجھے لگتا اگر ایسا ہے تو اس کا سبب یہ نہیں کہ سجدوں میں کوتاہی ہوئی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس کی مخلوق کو اس کا نام لینے والوں نے بہت ستایا۔ تو اس نے ان نام لیواؤں پر ان کی بنائی ہوئی وہ جگہیں بند کر دیں جہاں یہ اس کی مخلوق کو ستانے کے بعد اپنی جذباتی تسکین کے لیے اس کے سامنے ماتھا ٹیکنے چلے جاتے تھے۔

تم جو مرضی سوچو۔ وہ میرا بھی رب ہے اور مجھے اس سے پیار ہے اور اپنے ساتھ اس کے پیار پر ایمان ہے۔ مجھے تو یہی لگتا ہے کہ اس نے عبادت گاہوں کو تالے لگوا کر کہا ہے کہ جاؤ پہلے میرے بندوں کے حقوق پورے کرو۔ میری جب مرضی ہوئی تو میں اپنے گھر کے دروازے تم پر کھولوں گا۔ اور یاد رکھو میں اس کا محتاج نہیں کہ تم میرے سامنے ماتھا ٹیکو گے تو میں بزرگ و برتر کہلاؤں گا۔ عبادت گاہیں صدیوں بند رہیں میری بزرگی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن خوردبین سے بھی نظر نہ آنے والے اس جرثومے نے تمہیں دو چار ماہ گھر سے نکلنے نہ دیا تو تمہارا تکبر، گھمنڈ، سب مٹی ہو جائے گا۔ اپنی اوقات دیکھو اور پھر سوچو کہ میری مخلوق کو ستانے کی تمہاری اوقات نہیں نہ ہی مجھے ضرورت ہے کہ تمہیں سدھانے کے لیے کوئی عذاب بھیجوں۔

تمہارا گھمنڈ عناصر فطرت میں بگاڑ کا سبب ہے۔ تمہارا لالچ وسائل کے ضیاع کا موجب ہے۔ تمہاری ہوس اقتدار و اختیار تمہاری حماقتوں کی وجہ بنتی ہے۔ اور تمہاری حیوانی جبلت ظلم کو جنم دیتی ہے۔ تمہارے جیسے عاقبت نا اندیش کے لیے کسی عذاب کی ضرورت نہیں، تمہارے اپنے کرتوت ہی توازن بگاڑ کر دنیا کو جہنم بنانے کے اہل ہیں۔

لیکن کیونکہ تم سب سے مجھے ستر ماؤں جتنا پیار ہے اس لیے تمہیں اس جھٹکے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ ایک دوسرے کے گلے نہ پڑو۔ اشرف المخلوقات ہونے پر فخر کرتے ہوئے ارزل المخلوقات بنتے ہو جب اپنے ہی بھائیوں کے گلے کاٹتے ہو۔ اور میں ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments