پانچ دریاؤں کی بیٹی


لندن میں تھوڑے سال رہنے کی وجہ سے اس قسم کے خیالات میرے دماغ میں آنے لگے تھے، وگرنہ شہر میں تو یہ عام بات تھی۔ بے شمار بچے ہمارے اور ہمارے دوستوں کے گھر میں اسی طرح سے کام کررہے ہیں اور یہ ایک عام بات ہے۔ کوئی اس پر احتجاج نہیں کرتا، کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہ غلط ہے، اس کے خلاف قانون بننا چاہیے۔ مذہبی لوگ، مذہبی جماعتیں اور بھانت بھانت کے مُلّا اور عالم دین جو ٹی وی کے مختلف چینلوں پر آکر ہر قسم کی مذہبی تقریریں کرتے رہتے ہیں کبھی تھکتے نہیں۔ انہوں نے کون سی دنیا دیکھی ہے جس دنیا میں وہ رہے ہیں اور جوشریعت انہیں مدرسوں میں پڑھائی گئی ہے، اس میں شاید اس قسم کے حالات پر احتجاج کرنا نہیں بتایا گیا ہے۔

مجھے حیرت تو ان لوگوں پر ہوتی جو اپنے آپ کو سول سوسائٹی کے دانشورکہلاتے تھے، ان بیگمات پر ہوتی جو عورتوں کے حقوق کے لیے ہر وقت ہر جگہ پر مظاہرے، جلسہ جلوس کرنے کو تیار ہوتی تھیں۔ یہ لوگ کیوں نہیں کہتے ہیں، یہ لوگ کچھ کیوں نہیں کرتے ہیں۔ میں کچھ کیوں نہیں کرتا ہوں، میں شرم سے اپنے سر کو جھکا لیا کرتا تھا۔

ایک دن میں نے دیکھا کہ رات گئے نذیراں اُردو کا قاعدہ اور انگلش کی اے بی سی ڈی کی کتاب سے کچھ پڑھ کر کاپی پر لکھ رہی ہے۔ مجھے حیرت ہوئی، میں نے پوچھا کہ وہ کیا کررہی ہے تو اس نے بتایا کہ پاپا نے اسے پڑھانا شروع کردیا ہے۔ انہوں نے ہی اس کے لیے کتابیں، کاپیاں اور قلم خریدا ہے اور اسے وہ پڑھارہے ہیں۔ میں بہت پڑھنا چاہتی ہوں صاحب۔ اس نے رک رک کر کہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں مجھے لگن اور امنگ کی موم بتی جلتی ہوئی نظر آئی تھی۔

مجھے بڑی خوشی ہوئی تھی، میرے دل میں پاپا کی عزت اور بڑھ گئی میں صرف سوچ رہا تھا، وہ کچھ کررہے تھے۔
ناشتے کی میز پر میں نے انہیں بتایا کہ کل رات نذیراں ان کے دیے ہوئے ہوم ورک پر کام کررہی تھی تو انہوں نے کہا کہ وہ بلا کی ذہین ہے۔ غریب ماں باپ کی بچی آٹھ بھائی بہنوں میں تیسرے نمبر پر ہے۔ باپ اور ماں کسی بڑے زمیندار کے مزارعے ہیں اور قرض کے جال میں جکڑے ہوئے ہیں، سب کام کررہے ہیں مگر قرض ختم نہیں ہورہا ہے۔ میں نے سوچا یہ لڑکی ذہین ہے، سمجھدار ہے اور اسے پڑھنے کا شوق بھی ہے تو کیوں نہ پڑھا دوں اگر ہمارے ساتھ رہی تو پڑھ لکھ جائے گی تو شاید اپنے خاندان کے زیادہ کام آسکے گی۔

پاپا کی بات صحیح تھی، کاش ملک کے سارے بچے کام کرنے کے بجائے اسکول جائیں پڑھائی کریں، ان کا بچپن انہیں ایسے نہ چھوڑجائے، میں نے سوچا اور نہ جانے کتنے دیر تک سوچتا رہا۔

بارہ مہینے کے بعد وہ تین ہفتوں کے لیے پنجاب گئی۔ رفیق نے اندازہ لگالیا تھا کہ ہم لوگ نذیراں سے کتنے مانوس ہوگئے ہیں اس نے پانچ سو روپے تنخواہ بڑھانے کے لے کہا تھا اور ہم لوگ مان بھی گئے تھے۔ اس ٹھیکیداری کے یہی اصول تھے۔

نذیراں نے تیسرے سال کے آخر میں پرائیویٹ امیدوار کے طور پر کراچی بورڈ سے نویں کلاس کا امتحان دیا اور پاس بھی ہوگئی، ہم سب کو خوشی ہوئی تھی اور ہم سب سے زیادہ پاپا کو انہوں نے نذیراں کے لیے ایک چھوٹی سی تقریب بھی کرڈالی۔ پانچ دریا کے پنجاب نوابوں اور چوہدریوں کے پنجاب کی بیٹی کو کام کے لیے اپنے کسان باپ کے قرض کا بوجھ اتارنے کے لیے کراچی آنا پڑا تھا اور کام کام میں اس نے پڑھ لیا تو یہ اچھا ہی ہوا تھا اس کے لیے پارٹی ضروری تھی۔

تعلیم نے اس کے انداز بدل دیے۔ اس میں اعتماد پیدا ہوگیا، وہ سوچنے لگی تھی۔ چیزیں اچھی طرح سے کرنے لگی تھی، تین سال کے اندر اند روہ جاہل سے باسلیقہ باشعور ہوگئی تھی۔

ہمارے گھر میں رہنے سے وہ نکھر بھی گئی، جب وہ آئی تھی تو کمزور اور ناتواں تھی مگر ہمارے گھر کے اچھے کھانے اور رہنے سہنے نے اسے سولہ سال کی جواں سال لڑکی بنا دیا تھا، پنجاب کا کھلتا ہوا رنگ اور ذہنی خوشحالی دونوں نے اسے باوقار اور پرکشش بنادیا تھا ساتھ ساتھ وہ جاذب نظر بھی ہوگئی تھی۔

ہم سب خوش تھے کہ نذیراں نوکرانی ہونے کے باوجود ایک طرح سے گھر کی فرد بن گئی ہے، سب سے زیادہ پاپا خوش تھے کہ اس نے پڑھ لکھ لیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ میٹرک پاس کرنے کے بعد اسے آگے بھی پڑھنے میں مدد کریں گے۔

مگر یہ سب کچھ نہیں ہوسکا۔ ہوا یہ کہ چوتھے سال جب وہ چھٹی پر گئی تو واپس نہیں آئی۔ رفیق کسی اور لڑکی کو لے کر آیا کیونکہ نذیراں کے ماں باپ نے نذیراں کو واپس بھیجنے سے منع کردیا تھا۔ ہم لوگوں کو نذیراں کے علاوہ کوئی اور قبول نہیں تھا کیونکہ ہمیں تو اس کی عادت سی ہوگئی تھی اور اب عادت سے نکلنا مشکل تھا۔ بچے بھی اب بڑے ہوگئے تھے۔ اب اپنا کام خود بھی کرسکتے تھے۔ ہم لوگوں نے یہی فیصلہ کیا کہ اب مستقل بنیاد پر کسی کو نہیں رکھیں گے۔ جو ماسی صبح اتی ہے وہی پاپا ممی کے چھوٹے موٹے کام کردے گی۔

اسما نے نذیراں کے دیے ہوئے پتے پر خط بھی لکھے مگر ان خطوں کا کوئی جواب نہیں آیا اور ہم سب نذیراں کو اکثر و بیشتر یاد ہی کرتے رہے تھے۔

دو سال سے اوپر ہونے کے بعد ایک دن رفیق آیا تھا۔ اس نے بتایا کہ نذیراں کے ماں باپ نے زیادہ تنخواہ پر نذیراں کو ایک دوسرے آدمی کے حوالے کردیا تھا اور اس کے بعد نذیراں کے ساتھ بہت برا ہوا ہے، اسے میری مدد کی ضرورت تھی۔

اس دھندے میں بہت بُرے لوگ آگئے ہیں صاحب۔ ان بچیوں کوکراچی لے کر آتے ہیں پھر ان سے دوسرا دھندہ شروع کرادیتے ہیں۔ یہ پھول سی نازک سی کمزور سی لڑکیاں طوائف بن جاتی ہیں۔ گھروں میں رکھیل ہوجاتی ہیں۔ معصومیت سے بربادی تک کا سفر ختم ہوجاتا ہے تو گھر والوں کوپتہ لگتا ہے کہ ان کا سب کچھ لٹ چکا ہے۔ پھر کیا ہوسکتا ہے صاحب کچھ بھی نہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments