پانچ دریاؤں کی بیٹی


نذیراں کو کراچی میں ہی جس گھر کے ہاتھوں بیچا گیا اس گھر کے بڑے بیٹے نے پہلے اسے پامال کیا، اور کئی دنوں تک پامال کیا شادی کا بھی جھانسا دیا۔ آپ لوگوں نے اسے پڑھا تو دیا تھا مگر اس کے دل سے یہ تو نہیں نکال سکے کہ عورت اپنا گھر بنالے تو یہی عورت کی میراث ہے یہی اس کی کمزوری۔ یہ کمزوری اسے گھر سے بھگاتی ہے۔ کوٹھے پر بٹھاتی ہے، الٹے سیدھے گندے گھناؤنے لوگوں سے ملاتی ہے ان کی باندی بن کر وہ چاہتی ہے کہ اس کا بھی کوئی گھر ہو۔

وہ بھی اپنا گھر بنانے کے جھانسے میں آگئی تھی اور جب اسے گھر میں ملا تو وہ وہ مسئلہ بن گئی اسے اس نے جلادیا اور کہا یہ گیا کہ وہ کھانا پکاتے ہوئے آگ کی نذر ہوگئی۔ ساری دنیا سے یہ ہی کہا گیا۔ مگر وہ چولھے سے نہیں جلی تھی۔ صاحب اسے سوچ سمجھ کر منصوبے کے ساتھ جلایا گیا وہ عزت سے گھر بسانا چاہتی تھی اپنی حیثیت سے بڑھ کر مطالبہ کردیا تھا اس نے۔ نوکرانی سے رکھیل تو بن سکتی تھی وہ لیکن رکھیل سے گھر والی بننا تو ممکن ہی نہیں تھا اتنا بڑا مطالبہ جرم سے کم نہیں تھا۔

وہ جب ہسپتال میں اسّی فیصد جلے ہوئے جسم کے ساتھ پہنچی تو مجھے پتہ لگا۔ دو دن سے میں ہسپتال میں تھا؟ میرے سامنے اس نے پولیس کو بیان دیا کہ اسے جلا کر مارنے کی کوشش کی گئی ہے، کیونکہ وہ چھوٹے سیٹھ کے بچے کی ماں بننے والی ہے۔ اس نے اس سے شادی کا وعدہ کیا تھا اور اب وہ اسے گھر سے نکالنا چاہ رہا تھا جس سے وہ انکاری تھی۔ یہ کوئی حادثہ نہیں تھا اس بیان کے چھ گھنٹے بعد وہ مرگئی۔

رفیق نے بتایا کہ وہ نذیراں کے ماں باپ کو بھی بلارہا ہے اور وہ نذیراں کا مقدمہ لڑے گا۔ ان لوگوں کے خلاف جنہوں نے نذیراں کوجلا کر مارا تھا اور ان لوگوں کے خلاف بھی جنہوں نے جانتے بوجھتے نذیراں کو ایسے گھر بھیجا جہاں انسان نہیں حیوان رہتے تھے۔

میں اس کے ساتھ مردہ خانہ گیا۔ عدالتی کارروائی کے لیے اس کی شناخت کی، میں نے رفیق کو روپے دیے کہ وہ ضرور اس مقدمے کو لڑے۔ امی اور پاپا بھی بہت پریشان تھے اور ا ن کا بھی خیال تھا کہ ہمیں ضرور اس معاملے میں کچھ نہ کچھ کردار ادا کرنا چاہیے۔ کچھ کرنا چاہیے۔ آواز بلند کرنی چاہیے۔ یہ تو ظلم ہے سخت استحصال، قتل ہے قتل کیوں خاموش رہیں ہم لوگ۔ یہ تو بے ضمیری ہوگی۔ ظلم ہوگا اپنے آپ پر۔ ہم سب متفق تھے اس بات پر۔

مگرہمارا کردار بہت جلدی ختم ہوگیا، ہمارے وکیل نے مقدمے کی خوب تشہیر کرائی، میں نے اس کے کہنے پر اپنے دوستوں کی مدد سے ٹیلی ویژن پر اس واقعے کے مختلف پروگرام کروائے اور انہیں کو بار بار دکھلوایا، اخبارات میں خبریں چھپوائیں، اس کا خیال تھا کہ اس طرح سے انصاف کے حصول میں آسانی ہوگی، مگر یہ بات غلط نکلی، کھیل تو کچھ اور تھا۔

واقعہ کی تشہیر کے بعد مقدمے کی قیمت بڑھ گئی۔ اخبارات میں اداریے لکھے گئے، عورتوں کے حقوق کے اداروں نے پریس کانفرنس کرکے اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا، مغربی اخبارات اور وہاں کے ٹیلی ویژن کو تو ایک بار پھر موقعہ مل گیا کہ اس موضوع کے سہارے سے جو چاہیں لکھیں اور جو چاہیں دکھائیں اس واقعے کی تشہیر کی وجہ سے اس لڑکے کی گرفتاری بھی ہوئی، اخبارات میں نام بھی آیا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس وقت یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ہمیں نہ جانے کیوں یہ امید سی ہوئی کہ نذیراں کو انصاف ملے گا اس کے قاتل گرفتار ہوں گے، انہیں سزا ہوگی۔

پھر ہمارے اور اس امیر خاندان کے وکیل نے آپس میں مُک مُکا کرلیا، دونوں وکیلوں نے اس امیر خاندان سے عدالتی کارروائی اور اخبارات میں بدنامی کا حوالہ دے کر دس لاکھ روپے لیے تھے کہ نذیراں کے ماں باپ کو بڑی رقم دے کر سمجھوتہ کرا دیں گے تاکہ وہ لوگ مقدمہ واپس لے لیں۔

گوجرانوالہ سے آئے ہوئے اجنبی مسافروں کو کراچی میں کون جانتا تھا، انہیں تو دو لاکھ کی رقم اتنی بڑی لگی کہ انہوں نے ہر کاغذ پر دستخط کردیے تھے رفیق گواہی سے اس دن بھاگ گیا، جس دن تھانے میں تھانے دار نے بلاکر اسے بتایا کہ اسے اور اس کے سارے ماسیوں کو ان کے کام کے ساتھ ساتھ شہر میں گاڑ دیا جائے گا تو کسی کو پتہ بھی نہیں لگے گا۔ پولیس والوں نے بھی شاید دو لاکھ روپے ہی لیے تھے۔

مُک مُکا میں چھ لاکھ کا فائدہ ہوا تھا اچھی خاصی رقم تھی، دونوں وکیل سوچتے ہیں کہ اس قسم کے واقعات ہوتے رہنے چاہئیں۔
پھر مک مکا بھی ہونا چاہیے کرداروں کا کیا ہے ان کا تو نام بدل سکتا ہے کبھی نذیراں کبھی سکینہ۔ نام میں کیا رکھا ہے۔ پانچ دریاؤں کی مختلف بیٹیوں کے نام کچھ بھی ہوسکتے ہیں۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments