پانچ دریاؤں کی بیٹی


مردہ خانے میں پتھر کی بڑی ساری سل پر اس کی لاش پڑی ہوئی تھی جس کی شناخت کے لیے مجھے بلایا گیا تھا۔ میں نے فوراً ہی اسے پہچان لیا، وہی بھولا بھالا چہرہ اس کا، مگر بے جان۔ بڑی بڑی سیاہ آنکھیں بند تھیں۔ آنکھوں کے چاروں طرف سیاہی سی تھی۔ ستواں ناک اسی طرح سے ستواں تھی او ربے جان چہرے پر ایک ناقابل بیان سکون سا تھا۔ بے چاری آخر مرگئی۔

جس وقت وہ ہمارے گھر آئی تو مشکل سے اس کی عمر تیرہ سال ہوگی، کھیلنے کودنے کی عمر، بھاگنے دوڑنے کی عمر، لنگڑی پالا اور لپّا چھپّی کی عمر بننے سنورنے کی عمر، بگڑنے اور جھگڑنے کی عمر، مچلنے اور الجھنے کی عمر۔ مگر وہ اپنے عمر کے ان تمام چونچلوں کو پھلانگ کر ہمارے گھر نوکرانی بننے آئی تھی۔

ہر سال پنجاب سے ہزاروں کی تعداد میں لڑکیاں کراچی کام کرنے آتی ہیں۔ اسی پنجاب سے جو ہمارا سب سے بڑا صوبہ ہے جہاں پانچ دریا بہتے ہیں جہاں کی زمین سونا اگلتی ہے کہتے ہیں کہ اس صوبے کے لوگوں نے پاکستان پر قبضہ کیا ہوا ہے، لوٹ رہے ہیں سندھ کو بلوچستان کو یہاں کے وسائل کو۔ یہاں کے جاگیردار، سردار، چوھدری کی حویلیوں میں وہ سب کچھ ہوتا ہے جس کی شاید انہیں ضرورت بھی نہیں ہے۔ اسی پنجاب کی بیٹیاں، گاؤں دیہات کی شہزادیاں، اپنے اپنے گھروں کی پریاں، اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے ہم بڑے شہر کے بڑے لوگوں کی خدمت کرتی ہیں۔ ہماری داسی بن کر، نوکرانی ہوکر، ملازمہ کی طرح غلامی کرنے آتی ہیں۔

ہر سال ہزاروں کی تعداد میں فوجیوں اور حکمرانوں کے صوبے سے معصوم بچیاں خدمت گزاری کے لیے اپنے پیاروں کو چھوڑ کر چلی آتی ہیں۔ بڑے شہروں کی طرف۔ روٹی روزگار کمانے کے لیے، اپنے ماں باپ بھائی بہنوں کی زندگیوں کو بچانے کے لیے۔ کیسا انصاف تھا یہ میں صرف سوچ کر رہ جاتا تھا۔

مختلف لوگ انہیں لے کر آتے ہیں اور مختلف ڈیل ان کام کرنے والوں اور ان کے خاندان والوں کو دی جاتی ہے، رفیق اس سال ستتر لڑکیاں لے کر آیا تھا، ہر لڑکی کے گھر والوں کو بارہ مہینے کے اٹھارہ ہزار روپے ایڈوانس میں دے دیے گئے تھے۔ اب یہ لڑکیاں کراچی کی ماسی مارکیٹ میں کام کرنے کے لیے موجود تھیں۔ اب ان کی قسمت انہیں کیسا گھر ملے۔

کراچی میں بڑا کام تھا، بڑا شہر تھا، بڑے لوگ تھے۔ ہمارے گھر میں دوبچے تھے اسکول جانے والے۔ امی تھیں اور بابا۔ ہم دونوں میاں بیوی بچوں کے ساتھ ہی نکل جاتے، میں نے لندن سے واپس آ کر شہر کے بڑے چارٹرڈ اکاؤنٹنگ کی فرم میں نوکری لے لی تھی اور اسما نے دوبارہ سے کالج میں پڑھانا شروع کردیا تھا۔

نذیراں کا کام بہت آسان تھا، صبح اُٹھ کر بچوں کوتیار کرنا، امی اور پاپا کو ناشتہ اور چائے بنا کر دینا، پھر بچوں کا انتظار کرنا۔ بچے ڈرائیور کے ساتھ آتے تھے اور کبھی کبھی اسما کالج سے اگر جلدی فارغ ہو جاتیں تو انہیں اپنے ساتھ لے آتی تھیں۔

نذیراں بڑی محنتی لڑکی تھی، کبھی کام سے نہیں تھکتی اور دوڑ دوڑ کر ہر وقت کام کرتی رہتی تھی۔ اس کی ذہانت میں بھی کوئی شبہ نہیں تھا۔ گوجرانوالہ کے کسی گاؤں سے آئی ہوئی چھوٹی سی لڑکی نے بہت جلدی کراچی کی چیزیں سمجھ لی تھیں۔ اور ہمارے گھر اور دل میں اپنے لیے جگہ بنالی تھی۔

اسے پتہ لگ گیا تھا پاپا کون سے پروگرام ٹی وی پر دیکھتے ہیں۔ امی کو کیا اچھا لگتا ہے، بچوں کو کون سے کارٹون دیکھنے ہیں، بارنی کا شو کب آتا ہے سیسمی اسٹریٹ کب لگانا ہے، ڈرائیور کو کب چائے دینی ہوگی، مالی اور دھوبی کے کیا مسائل ہیں اور انہیں کس طرح سے کیا سمجھانا ہے۔

مائکروویو کے استعمال سے لے کر ڈیپ فریزر تک کے بارے میں اس نے بہت جلد سب کچھ سمجھ لیا۔ پھر وہ فون کا استعمال بھی سیکھ گئی تھی، امی اسی سے فون لگوا کر بڑی باجی سے کینیڈا اور چھوٹی باجی سے لندن بات کر لیتی تھیں۔ ہر کام کے لیے ہر وقت نذیراں موجود ہوتی۔ میں حیران ہوتا کہ اس ننھی سی لڑکی میں اتنی طاقت کہاں سے آئی ہوئی ہے۔ بے تکان صبح شام کام کرکر بھی اس کے چہرے پر شکایت نہیں ہوتی تھی۔ میں اکثر سوچتا کہ قسمت کے بھی کیا کھیل ہیں یہی نذیراں کسی چوہدری کے گھر پیدا ہوتی تو آج نزہت آرا ہوتی، تعلیم یافتہ ہوتی اور اپنے اس حسین چہرے کے ساتھ کسی بڑے گھر کی مانگ ہوتی۔ یہی دنیا ہے کٹھور دنیا۔

سال بھر نہیں گزرا تھا کہ امی نے کہا کہ نذیراں کی تنخواہ بڑھانی چاہیے۔ میں نے امی کو سمجھایا کہ نذیراں کو جو کچھ دینا ہے اسے دے دیں کیونکہ نذیراں کی تنخواہ کا معاملہ رفیق سے ہے جو وہ یا اس کی بھیجی ہوئی خاتون آکے لے جاتی ہیں اور سال کے آخر میں شاید تنخواہ تو بڑھانی ہی ہوگی جس کا فائدہ اس کے خاندان کو کم اور رفیق کو زیادہ ہوگا۔ یہ تو ایک طرح کا ٹھیکیداری نظام ہے رفیق کا ٹھیکہ ہے اور وہی اس ٹھیکے کا فائدہ مند بھی ہے۔ امی میری بات سمجھ گئی تھیں۔ انہوں نے اسے کچھ پیسے بھی دیے اور اسما نے اس کے لیے کپڑے بھی بنائے۔ وہ اسے چھوٹے موٹے دوسرے تحائف بھی دیتی رہی تھیں۔

میں اکثر سوچتا کہ نذیراں کی زندگی بھی کیا زندگی ہے اس عمر میں جب بچے کھیل رہے ہوتے ہیں گِر رہے ہوتے ہیں اور گرنے کے بعد ماں باپ کی گود میں بانہوں میں منہ چھپا کر رورہے ہوتے ہیں، یہ اپنے ماں باپ سے دور ہمارے گھر میں چولہا برتن کررہی ہے۔

ابھی اس کی اپنے چھوٹے اور بڑے بھائی بہنوں سے لڑنے کی عمر ہے، تو یہ ہمارے چھوٹے بچوں کو دیکھ رہی ہے ان کی آیا بن کر۔ انہیں اپنے نازک کاندھوں پر اٹھا کر بہلارہی ہے، یہ کوئی انصاف تو نہیں تھا لیکن انصاف تھا کہاں، میں سوچتا رہتا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments