وبا کے دور میں محبت نامہ



میرے پیارے!
لوگ کہتے ہیں وبا نفسا نفسی کا عالم پیداکر دیتی ہے۔ ہر انسان کو بس اپنی جان کی فکر ہوتی ہے کہ کسی طرح سے وہ خود بچ نکلے۔ لیکن میرے ساتھ عجیب ہوا مجھے تم شدت سے یاد آ نے لگے ہو۔ تمہارے ساتھ میری یادیں ہی کتنی ہیں نہ ہونے کے برابر۔ لیکن پھر بھی مجھے تمہارے متعلق ہر تفصیل ازبر ہے۔ مجھے تو ہر اس انسان سے انسیت محسوس ہوتی ہے جس نے تم سے ملاقات بھی کی ہو۔ مجھے وہ ہاتھ بھی مقدس لگتے ہیں جنہوں نے تم سے مصافحہ کیا ہو۔

یارم زندگی رک سی گئی ہے ایک سکوت طاری ہے۔ جانتے ہو زندگی حرکت کا نام اور سکوت موت ہے لیکن یہ سکوت نظر نہیں آتا میرے جذبات پہ طاری ہے۔ تم دل پہ یوں قبضہ کیے بیٹھے ہو جیسے غنیمت کا مال ہے۔ یا صدیوں سے چلی آئی وراثت کہ تمہیں اس کی قدر بھی نہیں، احساس بھی نہیں بس ملیکت کی تسکین ہے کہ یہ تمہارا ہے۔ پرواہ کرو نہ کرو کہیں جانے والا نہیں ہمیشہ تمہارے قبضے میں رہنے والا ہے۔ مجھے اردو ادب کا محبوب ہمیشہ زہر لگا۔ جسے نخرے دکھانے سے فرصت نہی‍ں اور عاشق اس پہ فدا خود کو ذلیل کیے رکھتا ہے۔ کیا خبر تھی یہ نک چڑا محبوب یہاں قبضہ جما لے گا۔ اسے ہی مات ہونا کہتے ہیں نا!

وبا کے اس دور میں بھی ایک سکوت تو ہے۔ سماجی فاصلے نے سماج کے ڈھانچے کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ جہاں ہم چیختے تھے ایک دوسرے کو وقت دیں، انسانی لمس اہم ہے دوستو‍ں سے ہاتھ ملائیں، گلے لگیں، بچوں کو بوسہ دیں، اپنے محبوب یا محبوبہ کو قربت کا احساس دلوائیں اب وہاں ہم کوشش کر رہے ہیں کہ یہ وبائی عفریت کسی سے ہمیں یا ہم سے کسی کو منتقل نہ ہو جائے۔ اس لیے فاصلے کا اہتمام کیے بیٹھے ہیں۔ ایک نادیدہ خوف ہے جو ہر چیز کو چھونے کے بعد ہمیں ہاتھ دھونے پہ اکسا دیتا ہے۔

اپنے پیاروں کے قریب ہونے لگتے ہیں تو ایک دم رک جاتے ہیں ابھی نہیں۔ ایک عجیب طرح کی آئرنی آف سیچوائشن ہے۔ ہمیں فرصت مل گئی۔ گھر میں رہنے اور فیمیلی کے ساتھ کوالٹی ٹائم گزارنے کا وقت میسر ہے لیکن اندر ہی اندر ہم کہیں ایک خوف سے لڑ رہے ہیں۔ جذباتی دھچکے، سماجی و معاشی بحران، بڑی تبدیلی کے خوف سے۔ کیسا عجیب وقت ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہمیں کرونا وائرس سے لڑنے کا ہتھیار نہیں مل رہا

ایسا نہیں کہ سماجی فاصلے کے اس عالمی وبا کے دور میں مجھے شدید تنہائی کاٹنی پڑی ہے تو مجھے عشق کا دورہ پڑ گیا ہے۔ یہ تو ایک بہت نفیس قسم کی اپنے گھر میں پیاروں کے ساتھ پر تعیش نظر بندی ہے گو کہ خوف بھی ساتھ ہے پھر بھی ہنسنے ہنسانے کے مواقع بھی اور کھانے پینے، موج، مستی کرنے، میوزک سننے کی فرصت بھی۔ پھر ایسے میں اتنی شدت سے عاشقی کا دورہ غور طلب بات ہے۔

بات دراصل یہ ہے کہ تم کبھی میرے من سے گئے ہی نہیں جب سے ڈیرہ لگایا ہے تم نے بستی چھوڑنے کا قصدہی نہیں کیا۔ کئی بار میں نے ہاتھ جوڑ دیے کہ جاؤ یہاں سے کسی کو آنے دو کسی ایسے کو جسے میری چاہت ہے، جو میرے ساتھ کے لیے ہاتھ جوڑے کھڑا ہے۔ لیکن تم نے قسم کھائی ہے مجھ جیسی بد لحاظ کو منہ کی کھلانے کی۔ میں اپنے عاشق کو تسلی سے بتا دیتی ہوں کہ من کی بستی اکوپائیڈ ہے آگے تمہاری مرضی۔ وہ بے چارہ دو چار دن ترلے منتیں کرتا ہے کہ شاید گنجائش نکلے پھر اس کے اندر کا مرد جاگ جاتا ہے جو محبت میں خدا ہے اور بظاہر بچاری کا روپ دھارے اپنے لیے بچاری ڈھونڈنے نکلا ہوتا ہے۔ بس پھر دم دبا بھاگ نکلتا ہے کہ یہ تومعاملہ ہی کوئی اور ہے۔

جانتے ہو مجھے اک آس ہے جو نہیں ٹوٹتی کہ شاید تم آن ملو۔ نہیں بلکہ شاید تمہیں کسی محفل میں بیٹھ کے سننے اور دیکھنے کا موقع مل سکے، شاید چند لمحے میسر آ جائیں کہ تمہارا لہجہ اور انداز جذب کر پاوں۔ ارے یہ میں ہوں جو شاید شاید کی رٹ لگائے بیٹھی ہوں! تم نہیں جانتے ہو گے مجھے اس لفظ سے چڑ ہے۔ لینگوایسٹکس پڑھتے ہوئے جب صنفی لہاذ سے مرد و عورت کے انداز بیان کے متعلق یہ پہلو پڑھا تھا کہ خواتین ایسے الفاظ زیادہ استعمال کرتی ہیں جن میں غیر یقینی عیاں ہو تو تب ہی سوچ لیا تھا ایسا کوئی لفظ میری گفتگو کا حصہ نہیں بنے گا۔ شعوری کوشش سے میں ایسے الفاظ سے اجتناب برتتی ہوں۔ لیکن کیا خبر تھی کہ مجھے ایسی مات ہو گی کہ محبوب ترین ہستی سے متعلق ایسے غیر یقینی گمان رکھنے پڑیں۔

انسان کی بے بسی ہی توہے ذہانت کے بل بوتے پہ کیسے بڑے بڑے فیصلے کر لیتا ہے۔ اپنا آپ منوانے پہ ڈٹ جاتا ہے لیکن ایسے احساسات اور دل کی دنیا میں شکست کھا بیٹھتا ہے۔ در در مداوا ڈھونڈتا ہے اور یہ جان کے مزید دکھی ہوتا ہے کہ اس درد کی دوا اس مسیحا کے سوا کسی کے پاس نہیں۔

کسی بھی کرائسس کے دنوں میں اس وقت کا بہترین ادب تخلیق ہوتا ہے کیونکہ ادیب اپنے دور کا سپوکس پرسن ہوتا ہے پھر اللہ مارا حساس بلا درجے کا تو دل ہی نکال رکھتا ہے صفحہ قرطاس پہ۔ موت آنکھوں کے سامنے رقص کر رہی ہو تو ہر وہ چیز جو قابل اعتنا نہیں ہوتی حسین لگنے لگتی ہے۔ ہنسی، مسکراہٹ، محبت، موسیقی، اپنے پیارے، بچے، پھول، پودے، آسمان، زمین، پرندے، حشرات، غرض ہر وہ چیز جو نظر آئے جو محسوس ہو جس کا خیال آئے۔

ہر لفظ، آواز، ساتھ، رنگ، قابل قدر ہو جاتا ہے کھونے کا احساس ہاتھ سے ریت طرح وقت نکلنے کاخوف ہر منظر کو حسین کر دیتا ہے۔ ساتھ ہی دکھ کا رنگ بھر دیتاہے کہ ہائے یہ سب نہیں رہے گا۔ کیسا کرب ہے۔ کیسی اذیت ہے جو نہ ہنسنے دیتی ہے نہ رونے دیتی ہے۔ جانتے ہو ایسے میں کسی کا خیال کیا معنی رکھتا ہے۔ اتنا تو تم سمجھ سکتے ہو۔

کبھی سوچا تمہیں کچھ نہ کہوں۔ بس خاموش رہوں، کچھ نہ لکھوں۔ پھر خیال آیا شاید ایسے کتھارسس ہو جائے کچھ کہہ دینا بھی کافی ہے۔ جانتی ہوں جواب نہیں آئے گا۔ لیکن جو من میں ہو وہ کہنا چاہیے اسی میں عافیت ہے۔ کچھ غبار نکلے کچھ اظہار ہو۔ کوئی بات چل نکلے۔ گو کہ سوئی کنگ لئیر کی طرح ایک ہی جگہ اٹکی ہے اور اٹکی رہے گی۔ میرے پاس کوئی فول نہیں جو دل بہلانے کو غیر مشروط وفاداری نبھاتے ساتھ دے گا۔ نہ امرتا کی طرح امروز ہے جو در پہ آ بیٹھے گا۔ مجھے یہ کرب خود ہی سہنا ہے۔ ہر کہانی الگ ہوتی ہے ویسی ہی یہ بھی اک کہانی ہے۔ مختلف کرداروں والی بے ڈھنگی سی جس کا پیٹرن ابھی تک بن کے نہیں دیا۔ جانے کب تک چلے۔

اس سماج کی عورت ہونے کے باوجود میں اتنی بے خوف تو ہوں کہ کھل کے محبت کا اظہار کرتی ہوں۔ مجھے شرم، جھجھک، غرور، انا جیسے ڈھکوسلے جو عورت کو یہ سماج سکھاتا ہے کبھی سمجھ نہیں آئے۔ جیسے ایک مرد محبت کر سکتاہے ویسے ہی ایک عورت بھی کسی کو اپنے من بسا سکتی ہے۔ بتا سکتی ہے اقرارکر سکتی ہے۔ مجھے کھل کے اقرار ہے۔ بنا شرم و جھجک اس کے لیے کسی وضاحت کو میں ضروری نہیں سمجھتی۔ لیکن محبت بھی عجیب راوڈی ٹائپ چیز ہے اسے جواب چاہیے دھونس سے اور جواب میں اقرار کی توقع کیے بیٹھی ہوتی ہے۔

انکار ہو جائے تو سر پیٹ لیتی ہے لیکن ڈھیٹ ایسی کے در چھوڑنے کو رضا مند نہیں ہوتی۔ یہ وقت گزر جائے گا وبا دم توڑ دے گی کہ تغیر کائنات کا اصول ہے۔ حالات بدل جائیں گے۔ پھر بھی مجھے لگتا ہے کہ تم دل میں بسیرا کیے رہو گے۔ یہ گتھی مجھ سے سلجھ نہیں پا رہی۔ میں نے اسے سلجھانے کی کوشش ترک کر دی ہے کیونکہ جن چیزوں پہ میرا اختیار نہیں ان کے بارے پریشان ہونا میری نظر میں فضول ہے۔

سنو!
اپنا خیال رکھنا۔
تمہاری اپنی ثنا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments