جناب عامر خاکوانی کی کتاب: زنگار نامہ


اس وقت لوگوں کی ایک کثیر تعداد لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں تک محدود ہو چکی ہے۔ زیادہ تر خواتین تو پہلے ہی گھر وں میں رہتی تھیں کہ ”ہاؤس وائف“ کہلاتی ہیں۔ سکول جانے والے بچے، دفاتر میں کام کرنے والے مرد اور عورتیں وغیرہ دوسری بہت سی پریشانیوں کے علاوہ ایک اور پریشانی میں مبتلا ہیں کہ وافر ملے اس وقت کو کیسے گزارا جائے؟ دوسرے بہت سے لکھاریوں کی طرح جناب عامرخاکوانی بھی اپنے کالمز میں اس وقت کو بہتر اور مثبت انداز سے گزارنے کے لئے مفید مشورے دیتے رہتے ہیں۔

ان میں ایک ٹپس یہ بھی کہ اچھی اچھی کتابیں پڑھی جائیں۔ اس کے لئے انہوں نے قارئین کی دلچسپی کے لئے کتابوں کی ایک فہرست بھی بنائی ہے۔ شاید وہ اپنے منہ میاں مٹھو نہیں بننا چاہتے، اس لئے انہوں نے اس فہرست میں اپنی تازہ کتاب ”زنگار نامہ“ کو شامل نہیں کیا۔ جو کام وہ خود نہیں کر سکے، ہم کر دیتے ہیں کہ اپنی فہرست میں ”زنگار نامہ“ کو بھی شامل کر لیں، اس کا شمار بھی بڑی آسانی سے بہترین کتب میں کیا جا سکتا ہے۔

جناب عامر خاکوانی سے بطور کالم نگار تعارف اس وقت سے ہے جب انہوں نے ”ایکسپریس“ میں اپنے کالم کا آغاز کیا۔ ہمارے خیال میں کسی بھی موضوع پر وہ ایک واضح موقف کے ساتھ لکھتے ہیں۔ کھیل، سیاست، مذہب اور دوسرے تمام موضوعات پر ان کا لکھنے کا انداز ابہام پیدا نہیں کرتا۔ بات کو سو پردوں کے پیچھے چھپا کر نہیں کرتے۔ حمایت یا مخالفت بالکل صاف نظر آرہی ہوتی ہے۔ الفاظ کا چناؤ بھی سادہ اور عام لوگوں کو سمجھ آنے والا ہوتا oy۔

عمران خان کے حامی ہیں لیکن کبھی یک طرفہ گاڑی نہیں چلائی، جہاں ضرورت ہوتی خبر بھی خوب لیتے ہیں۔ سرائیکی صوبے کے حامی ہیں، لیکن بات سلیقے اور دلیل سے کرتے ہیں، محض ”تختِ لاہور“ جیسی اصطلاحات کا سہارا لے کر ”لاٹھی چارج“ نہیں کرتے۔ فیس بک پر اپنی رائے کا بھر پور اظہار کرتے ہیں، خود بھی سناتے، دوسروں کی بھی سنتے، مخالف رائے اگر دلیل کے ساتھ ہو تو اس کو بھی اہمیت ملتی ہے۔ البتہ فیس بک پر کبھی جلال میں بھی نظر آتے اور فیس بک پر دیے گئے بلاک والے بٹن کا بھی استعمال کرتے ہیں کہ آخر یہ آپشن انہوں نے ایسے تو نہیں دیا ہوا، اس صورت میں دوستوں کی فہرست کی ”صفائی“ بھی کر دیتے ہیں۔

ہمارے خیال میں خاکوانی صاحب کئی لحاظ سے بہت خوش قسمت ہیں۔ ایک بڑے اخبار کے استقبالیہ پر دیا جانے والا پہلا کالم ہی شائع ہو گیا وہ بھی جناب ارشاد احمد حقانی کے ساتھ۔ یہ خوش قسمتی تو نہیں اور کیا ہے، ورنہ بطور میگزین ایڈیٹر ان کو معلوم ہی ہو گا کہ نئے لکھنے والوں کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ پھر ان کی اہلیہ محترمہ خود بھی رائٹر اور ان کی کی یقینی مدد گار، اس کے علاوہ بچے بھی آج کے دور میں مطالعہ کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ ورنہ دیکھا یہ گیا ہے کہ بچوں کی اکثریت کتابوں سے دور جا چکی ہے۔

”زنگار نامہ“ کے حوالے سے خاکوانی صاحب نے ایک اچھا کام یہ کیا کہ اپنی فیس بک وال پر ”جلد آ رہا ہے“ کا ”اشتہار“ لگا کر قارئین کو چوکس کر دیا۔ اس کے بعد دیے گئے ٹارگٹ کی روشنی میں مار دھاڑ کر کے اس کو کتب میلے میں پیش بھی کر دیا۔ اس قسم کی نمائشوں میں لوگوں کا خریداری کی طرف رجحان بھی زیادہ ہوتا۔ پیشگی اطلاع کی وجہ ان کے فیس بک کے دوست اور فالورز شدت سے اس کتاب کے منتظر بھی تھے۔ یہ دونوں چیزیں ہمارے خیال میں کتاب کے حق میں اچھا شگون ثابت ہوئیں۔

ہمارا شمار بھی ان کے فیس بک کے فالورز میں ہو تا، لیکن دو وجوہات کی وجہ سے یہ کتاب فوری طور پر ہمارے ”رڈار“ میں نہیں تھی۔ ایک تو ہمیں یہ ”وہم“ تھا کہ ہم اس کتاب کے اکثر کالمز پہلے پڑھ چکے ہوں گے اور دوسری وجہ یہ کہ ہم اس کتاب میلے سے کم از کم تین سو کلومیٹر دور تھے۔ ذہن میں تھا کہ چونکہ میلے سے فوری خریداری ممکن نہیں، اس لئے اس کو بعد میں دیکھیں گے۔ کتابوں کے بارے میں ہمارے ذوق و شوق کو جانتے ہوئے بھتیجے عزیزم سیّد حبیب الرحمٰن کاظمی نے دوسری وجہ تو دور کر دی اور میلے سے ایک نہیں بلکہ دو کتابوں کی خریداری کر کے ہمیں بھی اتنی دور سے میلے کا ”پھل“ چکھا دیا۔

ایک اس طالب ِ کتاب کے لئے اور دوسری بڑے بھائی جان کے لئے۔ کتاب پڑھ کر ہماری یہ غلط فہمی دور ہوگئی کہ اس میں شامل کالمز پہلے ہی پڑھے ہوئے ہیں۔ ایک دو کالمز کے علاوہ سبھی میرے لئے نئے تھے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے ان کے زیادہ تر وہ کالمز پڑھ رکھے تھے جو اس اخبار میں شائع ہوئے تھے جہاں انہوں نے کالم شروع کیا تھا، کیونکہ ان دنوں گھر میں یہی اخبار آتا تھا۔ انہوں نے اخبار بدل لیا، لیکن گھر میں وہی اخبار آتا رہا۔ کتاب میں شامل کالمز میرا خیال اس کے بعد والے ہیں۔ اگر ہر کالم کے آخر میں تاریخ کے ساتھ اخبار کا نام بھی لکھ دیا جاتا تو ہمارے خیال میں بہتر تھا۔

”زنگار نامہ“ میں ایک چیز بہت منفرد اور اچھی لگی کہ انڈیکس میں، کتاب میں موجود کالمز کو الگ الگ حصوں میں الگ الگ عنوانات کے تحت درج کر دیا۔ الگ الگ عنوانات یہ ہیں : موٹیویشنل کالم ( 15 ) ، عملِ خیر ( 13 ) ، کتابوں کی دنیا ( 14 ) ، زندگی کے سبق ( 22 ) ، یادیں ( 5 ) ، تصوف/روحانیت ( 6 ) ، فلم/ٹی وی ( 4 ) ، نقطۂنظر ( 3 ) ، معلومات/شخصیات ( 3 ) ، خاندان/تربیت ( 4 ) ۔ اس سے پڑھنے والوں کے لئے بہت آسانی ہو گئی ہے۔

ہر شخص اپنی پسند کا موضوع فہرست سے ہی منتخب کر سکتا ہے۔ خاص طور پر والدین اپنے بچوں میں کتاب کا ذوق پیدا کرنے کے لئے کہہ سکتے ہیں کہ بچو! بے شک ساری کتاب نہ پڑھو، اپنی اپنی پسند کے عنوانات کے تحت جو کالمز لکھے ہیں وہ پڑھ لو۔ یہ الگ بات ہے کہ انسان پڑھنا شروع کر دے تو ساری کتاب کو ہی پڑھنے کو دل کرتا ہے۔ ہر پڑھنے والے کو اپنی مرضی کا موضوع مل سکتا ہے۔ ہمارے خیال میں یہ ایک قسم کا ”ون ونڈو آپریشن“ ہے کہ ایک ہی چھت کے تلے آپ کو سب کچھ میسر ہے۔

کتاب کے آغاز میں دی گئی تحریر ”سبق جو کالم نگاری سے سیکھے“ نئے لکھاریوں کے لئے ایک بہترین رہنما تحریر ہے۔ نئے لکھنے والے بجائے اس کے کہ اخبارات کے ایڈیٹرز کو خط لکھیں کہ آپ مجھے اخبار میں کالم نگاری کا ایک موقع دیں تومیں ”یہ کر دوں گا“ وہ ”کر دوں گا، اس کو پڑھیں توان کے لئے زیادہ بہتر ہے۔ جیسا کہ عنوانات سے ظاہر ہے، پڑھنے والوں کے لئے یہ ایک مکمل“ پیکج ”ہے۔ رمضان شریف آنے والا ہے، ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مبارک مہینے کو کیسے بہتر گزارا جا سکتا ہے؟

اس کتاب میں رہنمائی کے لئے کالمز موجود ہیں۔ زندگی میں چھوٹی چھوٹی نیکیاں کیسے کمائی جا سکتی ہیں، ملک اور بیرونِ ملک کون کون سے اچھے لکھاری ہیں، کون کون سی کتابیں اور ناولز آپ کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لا سکتے ہیں، تصوف اور روحانیت کی دنیا کیا ہے اور اس کو کس طرح زندگی کا حصہ بنایا جا سکتا ہے، فلم اور ٹی وی کی دنیا میں کیا ہوتا رہا اور کیا ہو رہا ہے، اولاد کی تربیت میں کس طرح بہتری لا کر خاندانی رشتوں کو پائیدار بنایا جا سکتا ہے، زندگی کے کو ن کون سے ایسے پہلو ہیں جن کو اپنا کر اس کو بہتر کیا سکتا ہے، مردہ دلی کو کس طرح زندہ دلی میں بدلا جا سکتا ہے، شخصیات کس طرح انسان کی زندگی میں مثبت تبدیلی پیدا کر سکتی ہیں؟

ان سب سوالات کے جوابات اس کتاب کے مطالعے سے مل سکتے ہیں۔ کتاب کے ٹائٹل پر سو فی صد درست لکھا ہے کہ“ تحریریں جو آپ کی زندگی بدل سکتی ہیں۔ ”اس کو پڑھ کر انسان کے اندر جذبات کا ایک طوفان ضرور اٹھتا ہے۔ اس کے اندر کچھ نہ کچھ کرنے کی خواہش ضرور انگڑائی لیتی ہے، وہ چاہتا ہے کہ اس رمضان شریف میں وہ نیکی کے کام پہلے سے زیادہ کرے گا، وہ تہیہ کرتا ہے کہ آئندہ قرآنِ پاک ترجمے کے ساتھ ضرور پڑھے گا، اپنی آمدنی میں کچھ فی صد اللہ کا حصہ ضرور رکھے گا۔

کتاب کا ذوق رکھنے والے ضرور ارادہ باندھتے ہیں کہ فلاں کتاب یا ناول ضرور پڑھنا ہے۔ لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہر چیز کا تعلق عمل سے ہے، صرف پڑھنا کافی نہیں۔ اس کے علاوہ عالمی شہرت یافتہ برطانوی ایکسپرٹ ٹونی بزان جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں، ان سے ملاقات کا احوال اور چیزوں کو اچھے طریقے سے سمجھنے کے لئے ان کی مقبول تکنیک“ مائنڈ میپنگ ”کا تذکرہ بھی کتاب میں موجود ہے۔ ہم تو یہی کہیں گے کہ اگر آپ اپنے کسی ادارے کے لئے یا اپنے لئے کثیر سرمایہ خرچ کرکے کسی موٹیویشنل اسپیکر کا بندوبست نہیں کر سکتے تو چند سو روپے کی یہ کتاب بھی آپ کا مطلب پورا کر سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments