زیر دفعہ کورونا، بیویوں کی قید بھگتے والے مظلوم مرد


وووووہ بیگم ہم جمعہ پڑھنے جارہے ہیں۔ اقبل صاحب نے گھبرا کر ہکلاتے ہوئے کہا۔ کوئی ضروت نہیں گھر سے باہر نکلنے کی۔ پہلے کبھی جمعہ پڑھا ہے جو آج جمعہ کا خیال آرہا ہے۔ شرافت سے گھر میں بیٹھو ویسے بھی مفتی صاحب نے کہا ہے کہ گھر پر ہی نماز پڑھیں۔ یہ کہہ کر بیگم جہاں آراء دروازے پر تالا ڈال کر چابی ہاتھ میں لے کر چلتی بنیں۔ اور اقبال صاحب انتہائی مایوسی کہ عالم میں واپس اپنے کمرے کی طرف چل پڑے جو آج کل ان کے لئے کال کوٹھری بنا پڑا تھا۔
کمرے میں پہنچتے ہی انھوں نے سر سے ٹوپی اتار کر ٹیبیل پر رکھی اور بستر پر نیم دراز ہوگئے۔ اور سوچنے لگے آخر یہ بدبخت ”کورونا“ کب رخصتی کا سفر باندھے گا۔ جب سے آیا اس نے ہماری زندگی تنگ کردی ہے۔ اور ہم ایک کمرے میں قید ہوکر رہ گئے ہیں۔ اوپر سے جہاں آراء بیگم کی نصحیتیں ہاتھ صابن سے اچھی طرح دھو۔ ڈیٹول کا استعمال کرو۔ ماسک پہنو۔ فلاں چیز کو ہاتھ نہ لگاؤ۔ فلاں سے ہاتھ نہ ملاؤ۔ سب سن سن کر کان پک گئے ہیں۔

ابھی اقبال صاحب اپنے بستر پر لیٹے لیٹے یہ سوچ ہی رہے تھے کہ جہاں آراء بیگم کمرے میں نمودار ہوئیں اور انھیں لیٹے دیکھ کر کہا۔ ارے۔ آپ تو نماز پڑھنے جارہے تھے۔ اب باہر نہیں جاسکتے تو کم از کم گھر میں نماز ادا کرلیں۔ چلیں اٹھیں نماز ادا کریں۔ اب جہاں آراء بیگم کو کیا معلوم کہ اقبال صاحب تو نماز کا بہانہ بناکر کچھ دیر کہ لئے گھر سے راہ فرار اختیار کرنا چاہ رہے تھے۔ اور جب بیگم نے کسی کالی بلی کی طرح ان کا راستہ کاٹتے ہوئے دروازے پر تالا لگا کر ان کہ منصوبے کو خاک میں ملادیا تو وہ بیچارے غمناک حالت میں کمرے میں آکر نیم دراز ہوگئے۔

چلیں شاباش جلدی اٹھیں اور نماز ظہر ادا کریں۔ بیگم کہ تازہ ترین احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے اقبال صاحب بیچارگی کے عالم میں زبردستی بیڈ سے اٹھ کر کھڑے ہوئے اور جا نماز بچھا کر نماز کہ لئے کھڑے ہوگئے۔ نماز کی ادائیگی کہ بعد اقبال صاحب نے جانماز اٹھائی اس کو تہہ کرکے الماری میں رکھ ہی رہے تھے کہ ٹیبیل پر پڑے ہوئے ان کی فون کی گھنٹی بج اٹھی جانماز الماری میں رکھ کر وہ تیز قدموں کہ ساتھ ٹیبیل کی طرف بڑھے فون اٹھایا تو دیکھا ان کہ عزیز دوست مشتاق کی کال تھی۔

السلام علیکم ورحمت اللہ کیسے مزاج ہیں مشتاق صاحب آج اتنے دن بعد ہماری کیسے یاد آ گئی؟
وعلیکم السلام ورحمت اللہ ارے بھئی اقبال میاں مزاج کیا ہوں گے۔ آج 20 دن ہوگئے ہیں ہماری ہوم منسٹر نے ہمارے گھر کو سب جیل کا درجہ دے کر ہمیں نظر بند کرکے رکھا ہوا ہے۔ اور ہم اپنے ہی گھر میں اسیری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہماری ساری آزادی اظہارائے اور آئنی حقوق معطل کرکے بیگم صاحبہ نے ایمرجنسی نافذ کررکھی ہے۔

ارے بھئی مشتاق صاحب ہماری بھی کچھ یہ ہی کیفیت ہے ہم بھی آپ کی طرح گھر میں محصور ہیں۔ اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔ اوپر سے کمبخت میڈیا والے دن بھر ٹی وی پر بیٹھ کر ”کورونا“ کورونا کرکے ہماری جہاں آراء بیگم کے اور کان بھرتے ہیں۔ جس پر انھوں نے ہمارے باہر جانے پر تاحکم ثانی غیر معینہ مدت کے لئے پابندی لگا رکھی ہے۔ آپ تو جانتے ہیں ہم راتوں کے بادشاہ ہیں جو صبح دفتر کو نکلتے تھے تو شام واپس آنے کہ بعد رات پھر آپ لوگوں کی شمع محفل بن جایا کرتے تھے۔ مگر یہ بدبخت ”کورونا“ جب سے آیا ہے اس نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا لگتا ہے یہ ہمیں نفسیاتی مریض بنا کر ہی چھوڑے گا۔

ٹھیک کہتے ہیں آپ اقبال میاں مگر کر بھی کیا سکتے ہیں۔ ہماری بیگم تو شام ہوتے ہی دروازے پر کالے رنگ کا بڑا سا تالا ڈال دیتی ہیں۔ اور جب کبھی ہماری اس تالے پر نظر پڑتی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کمبخت ہمیں دیکھ کر مسکرا رہا ہے اور جیسے کہہ رہا ہو بہت عیاشی کرلی مشتاق میاں اب ”یہ تو ہوگا“ اور ہم لاچاری اس کو دیکھ کر صبر کا گھونٹ پی کر رہ جاتے ہیں

ٹھیک کہتے ہیں آپ مشتاق صاحب آپ کی اور ہماری کہانی بہت ملتی جلتی ہے جو آپ کا حال ہے ایک دم ہم بھی اس ہی کیفیت میں اپنے شب و روز گزار رہے ہیں۔ رات دس بجے سونے کے لئے لیٹ جایا کرتے ہیں۔ مگر کوشش کے باوجود نیند آنکھوں سے کوسوں دور نظر آتی ہے۔ جب کبھی آنکھ بند کرو تو سپر ہائی کی کڑھائی اور نمکین گوشت، پٹھان کی چینک والی کڑک دودھ پتی چائے، پراٹھے انڈے نظر آتے ہیں جو ہم آپ دوستوں کہ ساتھ بیٹھ کر نوش فرمایا کرتے تھے۔

اور اب تو ہمیں آلو بینگن کی سبزی بھی کھانی پڑ رہی ہے جو ہمیں سخت زہر لگا کرتی تھی۔ کیا کریں نہیں کھائیں گے تو جیلر صاحبہ کی مزید کڑوی کسیلی باتیں سننے کو ملیں گی۔ اس لئے چپ چاپ کھالیا کرتے ہیں۔ ورنہ آپ تو ہم سے واقف ہی ہیں کھانے پینے کا کتنا شوق رکھا کرتے تھے۔ مگر اب تو سپر ہائی وے ہو یا پٹیل پاڑہ کا حسن زئی سب بھولی بسری یادیں لگتی ہیں۔ خیر اور سنائیں آپ کے پان وغیرہ تو مل رہے ہیں نا؟

ارے کہاں اقبال میاں پان کھائے ہوئے بھی آج کئی دن ہوگئے ہیں۔ لاک ڈاون کے اگلے روز پڑوس کی خاتون کا دروازہ کھٹکھٹا کر ہم نے ایک پان مانگ لیا تھا اور ان محترمہ نے اپنے پاندان سے چار پانچ پان بناکر پلیٹ میں رکھ کر ہمیں بھیجوا بھی دیے۔ پان تو ہم نے خیر سے کھا لئے پان بھی بہت عمدہ تھے۔ مگر اس کہ بعد بیگم صاحبہ نے ہمارے کریکٹر کا پوسٹ مارٹم کر ڈالا اور ایسے ایسے الزامات لگائے کہ ہم نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیا اور صبر کا گھونٹ پی کر رہ گئے۔ اب بتائیں اس عمر میں ہم کیا چکر چلائیں گے۔ ویسے ہی حجام کی دکانیں بند ہیں بال اتنے بڑے ہوگئے ہیں کہ سر بھاری لگتا ہے اوپر سے بیگم صاحبہ کہ صبح شام صلواتیں سن سن کر سر اور درد کرجاتا ہے۔ یہ بدبخت ”کورونا“ کچھ دن اور رہ گیا تو ہم تو پاگل ہی ہو جائیں گے۔

گھبرائیں نہیں مشتاق صاحب یہ صرف ہماری ہی کہانی نہیں ہے ہماری طرح تمام شادی شدہ حضرات اس تکلیف سے گزر رہے ہیں اور قید و بند کی صعبتیں برداشت کرنے کہ علاوہ اپنے دماغ کی دہی بھی بنوا رہے ہیں۔ ایک تو ہماری یہ حالت ہے کہ دل خون کے آنسو روتا ہے دوسری طرف جب بھی ٹی وی کھولو خان تقریر کرتا نظر آتا ہے اور کہہ رہا ہوتا ہے ”آپ نے گھبرانا نہیں ہے“ کورونا سے لڑنا ہے اس کو اب کیا بتائیں کہ ہم بیگم سے نہیں لڑ سکتے تو ”کورونا“ سے کیا خاک لڑائی لڑیں گے۔

درست کہہ رہے ہیں آپ اقبال میاں مگر ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔ بس اللہ پاک سے دعا ہے وہ سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور اس بن بلائے مہمان ”کورونا“ سے ہم سب کی جان چھڑوائے جس نے ہماری زندگی جہنم بناکر رکھ دی ہے۔

چلیں اب اجازت دیں کیونکہ کافی لمبی کال ہوچکی ہے اور جیلر صاحبہ بھی ابھی کمرے میں آتی ہی ہوں گی اور ہمیں آپ سے بات کرتا دیکھ کر گمان کریں گی کہ ہم کسی خاتون سے گفت و شنید کر رہے ہیں۔ اور پھر ایک گھنٹے تک وہ ہمارے کردار کا پوسٹ مارٹم کرتی رہیں گی۔

ہاہاہا۔ چلیں مشتاق صاحب ہم بھی چلتے ہیں پھر بات ہوگی۔ اللہ پاک ساری دنیا کو اس ”کورونا“ کی دہشت گردی سے نجات دلانے کے ساتھ تمام مظلوم شادی شدہ افراد کو بھی بیگمات کی قید سے آزادی دلوائے اور ہم سب کو ان کے شر سے محفوظ فرمائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments