بے راہرو شوہر، وفا شعار بیوی اور نوادرات کی محبت


اوہو کچھ نہیں ہو گا، اے سی کی ٹھنڈک اور تازہ گوشت اس کو میسر ہے۔ شاید کمرے میں بند رہنے کی وجہ سے سست ہو گیا ہے۔ باہر نکال لیتے ہیں کچھ دیر کو وہ بولی۔ ملازمین کی مدد سے ٹائیگر کو باہر لایا گیا۔ تبریز نے اسے پیار کرنا، چمکارنا، سہلانا شروع کر دیا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا، تبریز کو دیکھتا اور پھر منہ زمین پر رکھ دیتا۔

تبریز فکر مندی سے اسے دیکھتا رہا۔ اس نے اسے اپنے ہاتھ سے کھانا کھلانا چاہا لیکن وہ زمین پر ہی لیٹا رہا، کل میں اس کو آبائی شہر لے جاؤں گا۔ وہ بولا۔ خیام نے کہا، سر راستوں کی بندش ہے، ہم کیسے جائیں گے۔ کھلواؤ راستے تم کس لئے ہو، اس نے درشتی سے کہا۔ جی بہتر خیام نے کہا۔ لیکن ثامرہ نے اسے مناہی کا اشارہ دیا، خیام علوی وفادار و سمجھدار تھا دوسرے دن اس نے حکمت سے دوست کو گھر سے نکلنے سے باز رکھا۔

دو دن کے بعد ٹائیگر اپنے کمرے میں مردہ پایا گیا۔ تبریز صدمے سے چیخنے لگا۔ خیام آہستگی سے مخاطب ہوا، شاید جانور نے ہماری بلا اپنے سر لے لی، آپ صبر کیجئے۔ اپنے فلسفے و مفروضے اپنے پاس رکھو، تبریز دھاڑا، وہ ٹائیگر کے کمرے میں ہی بیٹھ گیا۔ ثامرہ بہ مشکل اس کو باہر لائی، ہر جاندار کو موت آنی ہے اور آج کل تو موت نے اپنی بانہیں دنیا پر پھیلا رکھی ہیں آپ دیکھئے انسان مر رہے ہیں۔ پیارے انسان جو مختلف رشتوں میں بندھے ہیں۔ تبریز چپ رہا۔

تالہ بندی کا دورانیہ بڑھا دیا گیا، شہر پر موت کی ہیبت ناک جان لیوا خاموشی طاری ہو گئی تھی۔ اسپتال بھرتے جاتے تھے، عبادت گاہیں خالی تھیں۔ وبا کا بے درماں جرثومہ عبادت گاہوں پر بھی قابض ہو گیا تھا۔

انسان اپنی بنائی عبادت گاہوں سے بے دخل ہو چکے تھے۔ کثیر الخلیاتی اشرف مخلوق انسان جو ہجوم اور نمود و نمائش کا شوقین ہے، آنکھ سے دکھائی نہ دینے والے جرثومے کے ہاتھوں بے بس تھا۔ جرثومے کی صورت موت دکھائی دیتی تھی۔ موت جس کو انسان بھول جاتے ہیں، لیکن اب وہ خود کو بھولنے نہ دیتی تھی۔

طبیبوں نے جان ہتھیلی پر رکھ لی اور عوام کے علاج میں جت گئے۔ سینکٹوں افراد زندگی ہار گئے۔ وہ لوگ گھر میں بیٹھے ٹی وی پر ساری صورتحال دیکھتے، لوگ بھوک سے مر رہے تھے۔ شہر میں بڑی تعداد روزمرہ کی بنیاد پر کام کرنے والوں کی تھی جو تالہ بندی کی وجہ سے بے کار ہو چکے تھے۔ وبا نے زندگی کی چلتی گاڑی کو روک دیا تھا۔

ثامرہ نے خیام کی مدد سے فلاحی تنظمیوں کو عطیات بھیجے، لیکن بھوک شہر میں اگنا شروع ہو گئی۔ موت بچوں کو بھی نگل رہی تھی، ثامرہ ڈپریشن کا شکار ہو گئی۔
تبریز سوئمنگ پول میں کافی دیر سوئمنگ کرتا رہا، پھر اکتا کر باہر آگیا۔

گھر کے اسٹڈی روم میں ثامرہ کتب کو ترتیب دے رہی تھی۔ تم یہاں ہو، میں سوئمنگ کے لئے تمھارا۔ انتظار کرتا رہا، وہ خفگی سے بولا۔ اوہ سوری کل سوئمنگ کریں گے آج میں آپ کو ایک ایرانی ڈرامہ نگار کاڈرامہ سناؤں گی۔ بہت دل چسپ ہے۔ تبریز ہوں کہتا ہوا لاونج میں آ گیا۔ باورچی نے شام کی چائے میز پر سجا دی، دونوں نے ساتھ چائے پی، اور ٹی وی دیکھتے رہے۔

رات کو تبریز کو اپنے جسم میں ہلکا سا درد محسوس ہوا، لیکن وہ سو گیا۔ صبح اٹھا تو اسے بینائی دھندلی سی محسوس ہوئی، اس نے سر جھٹکا کہ چائے پی کر وہ ہشاش بشاش ہو جائے گا لیکن ایسا نہ ہوا دوپہر تک اس کی حالت غیر تھی۔ شہر کے سب قابل ڈاکٹر عوامی خدمت میں مشغول تھے، کسی کے پاس گھر آنے کا وقت نہ تھا۔

خیام علوی اسے اسپتال لے گیا۔ ثامرہ خیام کے منع کرنے کے باوجود پیچھے پہنچ گئی۔ اسپتال میں موت کا راج تھا۔ ڈاکٹرز مشینی انداز میں مصروف تھے۔ ثامرہ اور علوی کو باہر نکال دیا گیا۔ خیام نے اسپتال کے اکاونٹ میں بھاری رقم جمع کروائی اور وارڈ بوائز کو رقوم دے کے ایک الگ کمرہ مختص کروایا۔ رات گئے کمرہ ملا جس کے اردگرد بنی شیشے کی دیوار سے وہ دونوں ڈا کٹر کو دیکھ رہے تھے جو خیام کے چیک اپ میں مشغول تھا۔

ڈاکٹر باہر آیا اور بولا وبا اثر انداز ہو چکی ہے، کسی پر شدت سے حملہ کرتی ہے کسی پر کم شدت سے، تبریز صاحب پر شدت سے حملہ کیا ہے۔ صحت کی امید پر ہم سب کا علاج کر رہے ہیں، آپ بھی امید رکھئے۔ اس نے ثامرہ سے نظریں چرائیں۔

ثامرہ سسکیاں لینے لگی۔ خیام سناٹے میں تھا، وہ بڑبڑایا۔ ہم نے تو اپنے تئیں بہت احتیاط کی تھی یہ کیا ہوا۔ ثامرہ کو غش آ گیا، خیام اسے لے کر گھر آ گیا۔ بہ مشکل تمام رات کاٹ کر وہ دونوں علی الصبح اسپتال پہنچ گئے لیکن ان کو اندر داخل نہ ہونے دیا گیا۔

احتیاطی تدابیر کے طور پر صحت مند انسانوں کا داخلہ اسپتال میں ممنوع قرار دیا گیا۔ وہ مایوس ہو کر گھر واپسآ گئے ثامرہ مسلسل رو رہی تھی۔ خیام کے پاس تسلی کے الفاظ نہ تھے وہ اپنے دوست اپنے مالک کے لئے غم زدہ تھا۔ تین دن انگاروں پر گزارنے کے بعد ان کو تبریز کی موت کی اطلاع ملی۔ ثامرہ چیخ مار کر بے ہوش ہو گئی خیام غم سے ادھ موا تھا، لیکن اسپتال پہنچا اور نعش کی بابت استفسار کیا مگر اسپتال کی انتظامیہ نعشوں کو خود سے دفن کروا رہی تھی۔ خیام نے ایک بار پھر بھاری رقم خرچ کی اور نعش حاصل کر لی۔

پلاسٹک میں لپٹی نعش وصول کرتے ہوئے اسے دل میں بے تحاشا درد اٹھا، وہ برداشت کرتا ہوا جیسے تیسے گھر پہنچا اور بستر پر ڈھے گیا۔ تمام ملازمین ہکا بکا و خوف زدہ اپنے مالک کی نعش کو دیکھ رہے تھے۔ رات بھر گھر کے لان میں نعش رکھی رہی، صبح کے وقت بے ہوش ثامرہ اور خیام ہوش میں آئے اور ایک ساتھ لان میں پہنچے۔

ثامرہ گھاس پر بیٹھ گئی۔ خیام آہستہ سے بولا، تدفین کے انتظامات شروع کروانے جا رہا ہوں۔ ثامرہ نے اس کی طرف دیکھا، اور بولی نہیں ہم اس کو دفن نہیں کریں گے۔ خیام علوی نے اسے دلاسا دینے کی کوشش کی۔ میں بالکل ہوش میں ہوں خیام وہ پر سکون انداز میں گویا ہوئی۔ میں نے وبا کے علاج کے لئے کی جانے والی میڈیکل ریسرچ کے لئے بدن کے اندرونی اعضاء عطیہ کرنے کی بابت بات کر لی ہے۔ جسم کے اندورنی اعضاء نکال کر وہ ہمیں کیمیائی طور سے محفوظ کردہ جسم واپس کر دیں گے۔ میں اپنے محبوب شوہر کو ہمیشہ اس کے پسندیدہ نوادرات کے ساتھ نادر محبت کے نادر نمونے کے طور پر رکھوں گی۔
خیام علوی حکم کا غلام اور وفادار تھا، اس نے سر جھکا دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments