جدائی کی وبا


اشرف المخلوقات، فطرت کا چہیتا، مرکز کائنات اور لاڈلا انسان ایک ان دیکھے خوردبینی جرثومے سے سہم کر منہ چھپائے پھرتا ہے۔ پھرتا کہاں ہے دبک کے بیٹھ گیا ہے۔ ایک یہ چہیتا ہے کہ جس کے لیے کن فیکوں کی صدائیں لگا لگا کر پوری کائنات کو ترتیب دیا گیا اور اس کے قدموں میں زمین بچھا دی گئی، موسم بنا دیے، غذائی اجناس، گویا پوری کائنات کو خالق نے اپنے خلیفہ کے ماتحت کر دیا۔

اور اب یہ ہے کہ بس لاڈلا سہم کے بیٹھا ہے باقی کائنات کا سارا نظام آب و تاب سے جاری ہے، سورج چاند ستارے چھٹیوں پہ نہیں گئے، وقت اتنی رفتار سے چل رہا پے، زمانہ رنگ برنگے ماسک تو موسم رنگا رنگ پھول پیدا کر رہا ہے۔

آہ۔
یہ وبا بھی آئی تو تب جب موسم بہار جنون پر ہے۔ گلستان میں ہر سال پھول اپنی صورت فطرت کو دکھلانے آتا تھا، انسان یہی سمجھتا رہا کہ شاید یہ رنگوں کا موسم قدرت کی طرف سے اس کی تفریح کا سامان ہے، وہ اشرف المخلوقات جو ٹھہرا۔ مگر دیکھ لیجیے سب لوگ اندر بیٹھے اور فطرت کے نظارے ویسے کے ویسے باہر ہیں، کائنات کا نظام جاری ساری ہے، موسم بہار تنہائی سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔

بلبل اور گلاب کی محبت جاری ہے، چکور بھی چاند کی طرف تڑپ لیے ویسے ہی اڑتا ہے، شمع اور پروانے کی کہانی میں ذرہ سا بھی تغیر نہیں آیا ہے، بس حضرت انسان کی محبت اور وصال پہ ایک جرثومے نے بھاری ضرب لگائی ہے اور ہجر کی دراڑ ڈالی ہے۔ ہائے۔ ہجر بھی ایسا جو وصال کی بقا کا سامان ٹھہرا

کہتے تھے ”زندہ رہیں گے تو ملتے رہیں گے“ اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ ”ملتے رہے تو زندہ نہیں رہیں گے“
میں وہ محرومِ عنایات ہوں کہ جس نے تجھ سے
ملنا چاہا تو بچھڑنے کی وبا پھوٹ پڑی

یار کرونا۔
تجھے لوگوں کی بددعا سے ڈر نہیں لگتا؟ تجھے اس ماں کی آہ نہیں لگتی جس نے پردیس سے آئے بیٹے کا ماتھا چومنا ہوتا ہے لیکن وہ پیار اب قرنطینہ کی نذر ہو رہا ہے۔ تجھ اس انسان کی محبت سے خوف نہیں آرہا جس نے بہار میں وصال کی امید لگا رکھی تھی۔ ازل سے بہار وصل کی علامت سمجھا جاتا رہا، تو نے اس بہار میں ہجر کو لازم و ملزوم قرار دیا، انسان اب انسان کے لمس کو ترس گیا آہ! ترس کہاں گیا ہے اس لمس سے ڈر گیا ہے کہیں اس لمس میں میری موت نہ چھپی ہو، کسی کا بانہوں کا حسین گھیرا اب دنیا کا محفوظ ترین مقام لگنے کی بجائے سانپوں کے بل کا خدشہ دیتا ہے۔ کسی کی زلفوں سے ٹکرا کے آنے والی ہوا اب پھولوں کو خوشبو نہیں بخش رہی بلکہ اس ہوا سے اب ہم ماسک لگائے اپنے آپ کو بچاتے پھرتے ہیں۔

انسان دوہری اذیت میں پھنس گیا ہے اس نے اب یا تو وصال کے مٹھاس سے مرنا ہے یا پھر جدائی کی اذیت کا زہر پی کے جینا ہے

اس جدائی کی وبا کو ہم نے جدائی سے ہی شکست دینا ہے تاکہ آنے والے وقتوں میں ہم پھر سے اپنی اصلی حالت کو پہنچ سکیں، قدرت نے اپنے لاڈلے کو آزمائش میں ڈالا پے۔

جدا جدا رہیں اور محفوظ رہیں۔
عجب مرض ہے جس کا علاج ہے تنہائی
بقائے شہر ہے اب شہر کے ویران ہونے میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments